اس کی ناک خاک آلود ہو



جب سے ابا گئے ہیں، مجھے قبرستان سے ایک عجیب سی انسیت محسوس ہونے لگی ہے۔ میں ہمیشہ تیز ڈرائیونگ کرتا ہوں۔بہت تیز یا آپ رف بھی کہہ سکتے ہیں۔ نوجوانی سے عادت پڑ گئی تھی سو اب تک قائم ہے۔ لیکن جب بھی راستے میں سڑک کنارے اس قبرستان کی حدود شروع ہوتی ہیں میرے پاوں بریک پر جاپڑتے ہیں۔ میری گاڑی کی رفتار دھیمی ہوتی جاتی ہے۔ اگر ٹریفک کا زور نہ ہو تو میں وہاں بہت دیر تک رکنا چاہوں لیکن پیچھے والی گاڑی کا زوردار ہارن مجھے آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے اور یوں قبرستان کی حدود شروع ہو کر ختم بھی ہو جاتی ہیں۔
بچپن میں جب ہم دادو کے گھر جاتے تھے تو راستے میں ایک بڑا قبرستان پڑتا تھا۔ ابا ہمارا ہاتھ تھامے زور زور سے سلام علیکم یا اھل القبور پڑھتے اور تیز تیز قدموں سے گزر جاتے تھے۔ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ جو لوگ ہمیں دیکھ نہیں سکتے نہ ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں ہم انہیں سلام کیوں کرتے ہیں۔
یہ تو اس وقت سمجھ آئی جب ایک دن ابا انتقال کر گئے اور میں ان کا تابوت اپنے کاندھے پر تھامے اسی قبرستان میں دفنانے چلا آیا۔ اب مجھے پتہ لگ گیا ہے۔ یہ جو لوگ قبروں میں چلے جاتے ہیں بہت چالاک ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی۔ میں بھی تین بار سلام علیکم یا اہل القبور پڑھتا ہوں۔ میرے ابا جو اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ ان کو میرا سلام پہنچ جاتا ہے۔ یہ میرا ایمان ہے۔ پتہ نہیں ابا جواب دیتے ہیں یا نہیں یہاں میرا یقین کچھ ڈگمگاجاتا ہے۔ میرے اندر کا پچھتاوا اور ضمیر کی چبھن دونوں اس یقین کو ٹھوکر مارنے لگتے ہیں۔
میرا ہمیشہ دل کرتا تھا کہ میں ابا کی قبر پر جاوں اور بہت دیر تک وہیں رہوں۔ مجھے کوئی ڈسٹرب کرنے والی کال نہ آئے نہ کوئی تنگ کرنے والی یاد آئے۔ سو آج میں شام ڈھلے آفس کے بعد یہاں آ گیا ہوں۔ بیگم بچوں کے ساتھ میکے رہنے گئی ہے۔ اس لیے آج مجھے کب آئیں گے والے میسجز کی کوئی ٹینشن نہیں۔

آج جمعرات کی شام ہے۔ کئی قبروں پر ننھے ننھے دیے ٹمٹما رہے ہیں۔ تازہ گلاب کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ ابا کی قبر سے چند قدم آگے والی قبر پر ایک شخص اپنے ساتھ آئے ملازم کو ڈانٹ رہا ہے۔
"جب میں نے تم سے کہا تھا کہ تم نے ہر روز یہاں آکر صفائی کرنی ہے تو یہ گرد مجھے کیوں نظر آرہی ہے۔ ہڈحرام ہو گئے ہو تم۔ اور وہ جو روز پلانٹ لگانے کا کہاتھا وہ کیا ہوا؟ توبہ جھاڑ جھنکار اتنا ہے کہ قبر کی مٹی تک نظر نہیں آرہی۔"
اس کا ملازم سر جھکائے کھڑا ہے۔ اس کے چہرے پر صاف لکھا ہے کہ اگر اس کو روزی روٹی کے چھن جانے کا ڈر نہ ہوتا تو کہہ دیتا۔
"صاحب جی یہ قبر میری ماں کی نہیں آپ کی ماں کی ہے
جب آپ بلا مقصد یہاں وہاں گھنٹوں گاڑی دوڑا سکتے ہیں تو منٹ دو منٹ کے لیے آکر اپنی ماں کی قبر کی سیاہ ٹائلوں پر کپڑا کیوں نہیں لگا سکتے۔"
خیر! جانے دیں۔ میں آپ کو بتاؤں میں نے اپنے ابا کی قبر سفید سنگ مرمر لگوایا ہے۔ بیچ میں ابا کے پسندیدہ مروہ کے پھول اور اطراف میں سرخ گلابوں کی باڑ۔ کیا پیارا نظارہ ہے میرے ابا کی قبر کا۔ اب سوچتا ہوں کاش میں نے ابا کی پسند کا ان کی زندگی میں بھی خیال کیا ہوتا۔ ان کو مروہ کے پھول بہت پسند تھے۔ میں نے دنیا جہاں کے پودوں کی کلیکشن اپنے لان میں اکھٹی کر رکھی تھی لیکن بس مجھے ان مروہ کے پھولوں سے چڑ تھی۔ بھلا یہ بھی کوئی پھول ہے۔ چنا منا سا ۔ ہاتھ لگے تو فشوں۔ ناک پر زور دو تب جا کر خوشبو محسوس ہو۔ سو ابا کہتے رہتے لیکن میں ٹال دیتا۔
ایک مروہ ہی کیا شاید مجھے ابا سے ہی چڑ تھی۔ ایک تو ان کا نام تھا۔ اللہ دتا محمد۔ مطلب اللہ دتا۔ آپ خود سوچیں یہ نام میں اپنے نام کے ساتھ لگا سکتا ہوں۔ اف سوچوں میں بھی نہیں۔ سو میں نے میٹرک کے فارم سے لے کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک اپنا نام فیاض محمد ہی لکھوایا۔ ابا نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ کرتے بھی کس سے جب جوان بیٹے ان کے نام اور ان کے وجود کے ساتھ چمٹی ہوئی ایک عدد بیساکھی دونوں سے خار کھاتے تھے۔
ابھی پچھلے سال دسمبر ہی کی بات ہے۔ میرے دوست میرے نئے بنگلوز پر اکھٹے ہوئے تو نہ جانے کیسے سرونٹ کوارٹر سے ابا نکل کر لان میں آگئے۔ شاید انہیں کسی چیز کی ضرورت تھی لیکن میرا غصہ اپنی انتہا پر پہنچ گیا۔
"گل خان۔ گل خان۔" میں گلا پھاڑ کر چلایا۔ میں نے اس کی ڈیوٹی ابا کی طرف ہی لگائی تھی کہ وہ اپنے کمرے سے باہر نہ آنے پائیں۔ اور وہ پتہ نہیں کہاں مر گیا تھا۔ ابا کے یوں سامنے آنے سے میری اچھی خاصی سبکی ہو گئی تھی۔
پھر جب ڈاکٹر نے کہا انہیں توجہ اور گرم کمرے دونوں کی اشد ضرورت ہے تو میں بادل نخواستہ انہیں اپنے کمرے کے ساتھ والے روم میں لے آیا۔ سرونٹ کوارٹر میں گیس کا کنکشن دیا ہی نہیں میں نے اور وہاں الیکٹرک ہیٹر لگوانے کا مطلب ہے بجلی کے بل میں ہزاروں روپے کا اضافہ۔ اسی لیے یہی مناسب لگا۔
ابا نے بولنا کم کر دیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ ان کو حد درجہ کمزوری ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ مجھ سمیت کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا کہ وہ ان کی جوانی کی داستانیں سن پاتے جب وہ ایک ماہر ترین درزی تھے اور مسلم لیگ کے اکثر رہنماؤں کے کوٹ انہوں نے ہی سیے تھے۔
جس دن وہ فوت ہوئے وہ بھی کوئی عجیب دن تھا۔ اب سوچتا ہوں اس دن سردی زیادہ تھی یا میری بےحسی۔ سمجھ نہیں آتی۔ ابا کے کمرے کا ہیٹر خراب تھا اور ٹھیک کروانے کے لیے میں نے ملازم کو دے رکھا تھا۔ لیکن ملازم بھی مجھ سے سیکھ گئے تھے۔ ابا کے کاموں کو اگنور کرنا اور سب سے پہلے بیگم صاحبہ کے کام کرنا۔ سو ان دنوں بھی یہی ہوا۔ ابا کے کمرے میں انتہا کی ٹھنڈک تھی۔ ان کے وجود پر پرانے واش اینڈ وئیر کے کپڑے اور ایک گھسا ہوا کمبل ان کی سردی دور نہیں کر سکتا تھا سو ہیٹر کا سہارا لیتے رہتے۔ لیکن جب یہ سہارا چلا گیا تو ابا بھی چلے گئے۔ صبح ملازم ان کے کمرے سے ناشتے کی ٹرے جوں کی توں واپس لایا اور ابا کے مرنے کی اطلاع دی۔ مکھن پر توس لگاتا میرا ہاتھ وہیں ٹھہر گیا اور شاید زندگی کی برکتیں اور خوشیاں بھی۔
جب سے ابا گئے ہیں روز یہاں ان کی قبر پر آتا ہوں۔ ان سے معافی مانگتا ہوں پر ابا معاف نہیں کرتے سو شاید اللہ بھی نہیں کر رہا۔ اسی لیے آج دوسرے بینک سے دیوالیہ ہوا ہوں۔ بنگلوز بھی بیچنا پڑے۔ سردی بڑھ رہی ہے یہاں۔ اب اندھیرا گھپ ہو چکا ہے اور سرد ہوائیں یہاں سے وہاں رواں ہیں۔ میں نے فقط ایک گرم چادر اوڑھ رکھی ہے۔ پتہ نہیں کیوں جب سے ابا گئے ہیں گرم کپڑوں اور خاص طور پر ہیٹر کے سامنے بیٹھنے سے وحشت سی آنے لگی ہے۔ کہیں کانوں میں ابا کی آواز گونجنے لگتی ہے۔
"پتر فیاض وہ ہیٹر کب ٹھیک ہو کر آئے گا۔"
"پتر وہ تو کہہ رہا تھا تیرے کچھ گرم کپڑے فالتو ہو گئے ہیں۔"
میں ابا کی قبر کی مٹی کو حسرت سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھ سے تو یہ مٹی اچھی رہی کہ ابا کے پورے وجود کو ڈھانپ لیا۔ اپنے اندر سمو لیا جیسے ایک ماں اپنے بچھڑے بچے کو پا لینے پر اسے گود میں لے لیا کرتی ہے۔ ابا بہت اچھے ابا بنے پر میں بد ترین بیٹا تھا۔ ابا نے کپڑے سی سی کر اپنی انگلیاں زخمی کر لیں اور میرے وجود میں اپنا خون پسینہ بھر کر مجھے بڑا کر دیا لیکن میں انہی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے جھجکتا رہا۔ ابا ہر لمحہ میرا سہارا تھے جب مجھے چلنا نہیں آتا تھا لیکن جب سے ابا کا گھٹنا فریکچر ہوا، میں نے ایک دن بھی ابا کو سہارا نہیں دیا۔ ابا کے چہرے کی جھریوں میں بھی میرے لیے شفقت ہی شفقت ہی تھی اور میرے تروتازہ چہرے کے ہر ہر نقش میں ابا کے لیے بے رخی۔ میں ابا کے ہاتھ سے کھاتا چھوٹے سے بڑا ہو گیا لیکن جب ابا کے ہاتھوں میں رعشہ آیا تو میں اور میرے ہاتھ دونوں مصروف تھے۔ پیسہ کمانے میں۔ بیوی بچوں میں۔ بس اپنی زندگی میں۔
گھر جاتا ہوں تو ابا کی قبر پر آنے کا جی چاہتا ہے۔ یہاں آتا ہوں تو میرے کمرے کے ساتھ والا کمرہ مجھے بلاتا ہے کہ وہاں ابا کی خوشبو ابا کی سانسیں ہیں۔ ان سانسوں میں میرے لیے دعائیں اور پیار ہے۔ ان سانسوں میں اپنے۔ناخلف بیٹے کے لیے محبت اور شفقت ہے۔ میرے پاس کیا ہے ابا کو دینے کے لیے۔ کچھ بھی تو نہیں۔ دینا چاہوں بھی تو نہیں دے سکتا۔ یہ منوں مٹی آڑے آجاتی ہے ورنہ دل کرتا ہے ایک بار بس ایک بار ابا کو گلے سے لگا لوں زور سے بھینچ لوں اور کہوں ابا میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ مجھے معاف کر دیں ابا اور گھر واپس چلیں۔ اب وہ سب نہیں ہو گا آپ کے ساتھ۔ میں ہوں نا آپ کا جوان بیٹا آپ کا سہارا آپ کو بیساکھی کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں ہوں ناں۔ جو کام ہو جہاں جانا ہے مجھے بتائیں۔
بس یہ کم بخت مٹی آڑے آ رہی ہے ورنہ ابا دیکھتے میں تو دونوں بازو وا کیے بیٹھا ہوں ابا کے لیے۔ ورنہ ابا دیکھتے کہ میں ان کے بنا کتنا ادھورا کتنا بے چین ہو گیا ہوں۔ ورنہ ابا دیکھتے کہ میں وہ ہوں جس نے اپبے ہاتھوں سے اہنے سایہ دار درخت کو کاٹ ڈالا ہے سو مجھ سے بڑا بد نصیب اور کوئی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کیساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو۔ اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا تھا۔" (الإسراء :23- 24)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"!سکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو۔"
کہا گیا: اللہ کے رسول! کس کی؟! آپ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے اپنے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت اور خوش سلوکی کے ذریعے) جنت میں داخل نہ ہوا۔" (مسلم)