بارہ مئی 2018



 امی کے چلے جانے پر یہ میری تیسری تحریر ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ کوئی تحریر ہے؟ پتہ نہیں بس مجھے لگتا ہے میرے آنسوؤں نے الفاظ کا پہناوا اوڑھ لیا ہے۔ عین ممکن ہے کچھ باتیں دہرائی گئی ہوں لیکن جب دل بوجھل اور آنکھیں نم ہوں تو پھر مجھے پتہ نہیں لگتا کہ میں نے کیا لکھنا ہے اور کیا لکھ چکی تھی۔ ہو سکتا ہے غم کو بانٹنے اور دل ہلکا کر لینے کے اور بھی بہت سے طریقے ہوں، مجھے بس لکھنا آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جبکہ امی جی کی آواز سنے 29 دن گزر گئے ہیں اور ان کو دیکھے ہوئے 29 راتیں اور 29 صبحیں بیت چکی ہیں تو سوچتی ہوں نو اپریل کو کیا میں نے کوئی خواب دیکھا تھا؟
تو دل کہتا ہے ہاں ہاں خواب ہی تو تھا۔ امی کو کچھ نہیں ہوا۔ ابھی امی کو فون کر کے بتاتی ہوں۔ دیکھیں مجھے کتنے عجیب خواب آرہے ہیں۔ آپ اپنا خیال رکھیں ناں۔ امی ہنسنے لگیں گی۔ موہنی کیسی باتیں کرتی ہے۔
لیکن میرے فون کی گیلری میں ایک پھولوں سے بھری قبر کی تصویر، میرے پرس میں مٹی سے اٹی ہوئی چند زرد گلاب کی پتیاں اور ابو جی کی آنکھوں کی گرد سیاہ ہلکے۔۔۔ یہ سب کہتے ہیں امی جی واقعی چلی گئی ہیں۔
پچھلی بار ابو کے ہاں گئی تو وہ امی کی ڈائری نکال کر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا صفحات کے صفحات بھرے ہوئے تھے۔ فجر۔ پڑھ لی ۔ ظہر پڑھ لی۔ عصر نہیں پڑھ سکی۔ مغرب ۔۔ عشاء۔۔ نہیں پڑھی سکی۔ 29 دسبر سے 6 اپریل تک کی ایک ایک نماز کا حساب امی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔

ابھی تک امی کی وہ ڈائری میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میرا ضمیر بار بار مجھے جھنجھوڑتا ہے کہ تمھاری وہ رہ جانے والی نمازوں کا کیا ہوا؟
بس میں نے اپنی قضاء نمازیں پڑھنی شروع کر دی ہیں۔ مجھے نہیں پتہ مجھے کب اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے لینے آجائیں۔ مجھے نہیں معلوم میرے کون سے کپڑے اتارے جائیں گے اور میرے رنگین خوبصورت کپڑوں کی جگہ مجھے کفن پہنا دیا جائے گا۔
اس لیے مجھے تیاری کرنی ہے۔ جب جانا مقدر ٹھہرا تو کیوں نہ سامان ساتھ لے لوں۔ نہیں نہیں دولت نہیں۔ زیور نہیں۔ جائداد نہیں۔ قبر میں بس ایک ہی سامان کام آتا ہے۔ وہ ہے میرے اعمال۔ میرے نیک اعمال میری قبر کو جنت کا باغ بنا دیں گے۔ اور میرے برے اعمال اللہ نہ کرے قبر کو جہنم کے گڑھے میں نہ بدل دیں۔
ابھی جب میں یہ تحریر لکھ رہی تھی تو دوسرے براوزر میں جنید جمشید کی یہ نظم آٹو پلے ہو رہی ہے۔
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے
مٹی کے پتلے تجھ کو مٹی میں ہے سمانا
اک دن تو یہاں سے آیا اک دن یہاں سے جانا
رکنا نہیں یہاں پر جاری تیرا سفر ہے
جب امی جی گئیں تو شروع کے کچھ دن کسی طور چین نہ آتا تھا۔ ہر کوئی تسلی دیتا اور کہتا یہ تو ایک ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ لفظ خلاء سے یہ خلاء اور بڑھ جاتا اور بے چینی دوگنی ہو جاتی۔
اب میرا دل کرتا ہے کہ میں آپ کو بتاوں تسلی اس طرح نہیں دی جاتی۔ بجائے اس کہ ہم یہ کہیں اوہ آپ صبر کریں والدین کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا۔ یہ خلاء کوئی پر نہیں سکتا۔
اس کی جگہ ہمیں یہ کہنا چاہیے۔ اوہ آپ صبر کریں۔ اللہ پاک پر بھروسہ رکھیں۔ جس اللہ نے آپ کی والدہ کو اپنے پاس بلا لیا ہے وہی آپ کا خیال رکھے گا۔ اللہ ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ اللہ آپ کو کبھی تنہا نہین چھوڑے گا۔ اللہ ہی نے اس غم کے لیے آپ کو چنا ہے اور اللہ ہی اس کا مداوا کرے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان بہت رحیم ہے۔
میرا دل کرتا ہے کوئی مجھے اس طرح تسلی دے تاکہ میرا دل سنبھل جائے اور مجھے اللہ کے ہونے پر یقین اور زیادہ ہو جائے اور میرے دل میں اس کی محبت اور جاگزیں ہو جائے۔
کون کہتا ہے وقت مرہم ہوتا ہے۔ کون کہتا ہے لمحے گزر جائیں تو دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ جو کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ امی جی کے چلے جانے کا دکھ تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ امی جی کے نہ ہونے کی بے یقینی تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ رات گزر جاتی ہے لیکن موبائل سکرین پر امی کی تصویر چمکتی رہتی ہے۔ گھر کا کاموں میں کسی اور کا دل بہلتا ہو گا میرا تو امی سے بات کرنے کو دل مچلتا ہی رہتا ہے۔ کیا میں اس بات کا یقین کر لوں کہ ایک پورا مہینہ میں نے امی جی کو بغیر دیکھے بغیر سنے گزار لیا ہے؟
آج ابو جی امی کی قبر پر جا رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ نہیں جا سکتی۔ اگر میں جاتی تو امی سے ضرور شکایت لگاتی۔ دیکھیں ناں امی! ابو نیند کی ٹیبلیٹس لے رہے ہیں۔ ٹینشن میں ہیں۔ اپنا خیال نہیں رکھ رہے۔ امی ناراض ہوں گی اور کچھ کہنا چاہئں گی لیکن میں اور ابو ان کی آواز نہیں سن سکیں گے۔ مٹی کا ڈھیر اور پتھر کی سلیں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
میں امی کی قبر سے لپٹ کے رونا چاہتی ہوں۔ انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں اور ان کے بغیر کتنی اکیلی ہوں۔ کیونکہ جب وہ زندہ تھیں تو میں ان سے بدگمان رہتی تھی کہ وہ میرے سے پیار نہیں کرتیں یا دوسروں سے جتنا کرتی ہیں اتنا پیار۔مجھ سے نہیں کرتیں۔ میں ان کو نہیں بتا سکی کہ میں آپ سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں اور اپ بہت ضروری ہیں میری زندگی کے لیے۔
ہاہ! اگر آپ میں سے کسی کی امی زندہ ہیں اور اللہ انہیں طویل زندگی عطا کرے آمین۔۔۔ تو ابھی۔۔ ابھی جا کر ان کو بتائیں کہ ان کا وجود اپ کے لیے کتنا اہم ہے۔ اور آپ ان سے اتنا زیادہ پیار کرتے ہیں کہ ان کے بنا ایک ایک لمحہ بھی پہاڑ جیسا لگتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کی امی جی اور آپ کے درمیان بھی مٹی کا ڈھیر اور سفید پتھر کی سلیں رکاوٹ بن جائیں ان کی خدمت کر لیں ان کا دل خوش کر لیں ان کی دعائیں لے لیں۔
میرے پاس یہ سکرین شاٹ میں امی جی کے الفاظ محفوظ ہیں۔ تھینکس موہنی۔ جب میں نے پوچھا کہ آپ میرے گھر ائیں گی تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب سوچتی ہوں انہوں نے کہیں اور جانا تھا۔ بہت دور ہم سے جہاں ہمارے دیے ہوئے کوئی بھی گفٹس وہ استعمال نہیں کر سکتیں۔ بس اب ایک تحفہ جو میں ان کو روز بھیج سکتی ہوں وہ کلمہ اور درود شریف کی تسبیح ہے اور مجھے یقین ہے امی جی ہر بار یہ ضرور کہتی ہوں گی تھینکس موہنی۔
مجھے یقین ہے میرے ان آنسووں کا رنگ بہت مختلف ہے جو امی جی کی جدائی میں نکلے ہیں۔ کیونکہ یہ عام سے آنسو نہیں ہیں۔ یہ تو دل پر لگی ہوئی ایک ایسی چوٹ کے آنسو ہیں جن میں محبت، ندامت، حسرت اور دکھ سب کے سب موجود ہیں۔