’’امیمہ کی
طبیعت ٹھیک نہیں لگتی۔ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ ‘‘
امی نے کہا۔ ابو نے آگے بڑھ کر امیمہ کی پیشانی دیکھی۔
’’ہاں۔ بخار تو بڑھتا جا رہا ہے۔ دوا کہاں ہے وہ جو ڈاکٹر
شفیع نے دی تھی۔‘‘
’’وہ تو کب کی ختم ہو گئی۔‘‘
’’اچھا ۔ چلو! میں اس کو ہسپتال لے چلتا ہوں۔‘‘
ابو نے امیمہ کو کمبل میں لپیٹا اور گھر سے باہر نکل گئے۔
مجھے نہیں پتہ پھر کیا ۔ میں سو گیا تھا۔ صبح میری آنکھ
کھلی تو امی رو رہی تھیں۔ ابو کرسی پر خاموش بیٹھے تھے۔ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍامیمہ نظر نہیں آرہی تھی۔ جب سے وہ بیمار
ہوئی ہے میرے ساتھ نہیں کھیلتی۔ میں بھی اس کا خیال رکھتا ہوں۔ سارے کھلونے اس
کولا کر دیتا ہوں۔ سائیکل پر سیر بھی کراتا ہوں۔
’’امیمہ کہاں ہے؟‘‘ میں منہ ہاتھ دھو کر آیا تو میں نے
پوچھا۔
’’وہ ۔۔ اللہ کے پاس چلی گئی ہے۔‘‘
’’کیا!!‘‘
یہ جملہ میں نے ان تین دنوں میں دوسری مرتبہ سنا ہے۔ کل
میرے دوست کو مسجد سے آتے ہوئے اسرائیلیوں نےگولی ماری۔ وہ بھی اللہ کے پاس چلا
گیا ہے۔ اب امیمہ بھی۔
’’امی! ‘‘ میں امی سے لپٹ گیا۔ وہ اور رونے لگیں۔ ابو نے ہم
سب کو تسلی دی۔ کھانا کھلایا۔
پھر اپنے دوستوں کو میرے سب انکلز اور خالاؤں کو فون کیا۔
’’گیا تھا۔ چیک پوسٹ پر ہی ساری رات کھڑا رہا۔ ظالموں
نےنہیں جانے دیا آگے۔ ‘‘
چھوٹی خالہ نے پتہ نہیں کیا پوچھا تو ابو نے بتایا۔
’’میں کہتا رہا بچی بہت بیمار ہے ہسپتال لے کر جانا ہے۔ وہ
نہیں مانے۔ کہتے تھے صبح لے کر آؤ پھر دیکھیں گے۔ ‘‘
تب مجھے سمجھ آئی۔ چیک پوسٹ والے فوجی نے بابا کو ہسپتال
نہیں جانے دیا۔ اسی لیے امیمہ فوت ہو گئی ہے۔
اب مجھے یاد آرہا ہے ساتھ والی گرینی برہ بھی اسی لیے فوت ہو گئی تھیں ۔ وہ بھی چیک پوسٹ پر چار گھنٹے رہی تھیں۔ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا لیکن وہاں اسرائیلی ہر بندے کو چیک کرتے ہوئے اتنی دیر لگاتے ہیں اور اس سے اتنے زیادہ سوال پوچھتے ہیں کہ پھر بہت دیر ہو جاتی ہے۔ گرینی برہ وہیں چیک پوسٹ پر فوت ہو گئی تھیں اور انکل ان کو واپس گھر لے آئے تھے۔
میں جب بڑا ہو ں گا تو ان اسرائیلوں سے سارے بدلے لوں گا۔
خیر! ابھی بھی غلیل سے میرا نشانہ بہت پکا
ہے۔ اب جب ان کا ٹینگ گزر کے دکھائے سامنے والی سڑک پر۔
جو بچے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں وہ میرا دکھ نہیں سمجھ
سکتے۔ کیا وہ میری امیمہ کو واپس لا سکتے ہیں۔ اگر اس کو وقت پر دوا مل جاتی تو وہ
ٹھیک ہو جاتی۔ ہسپتال کے ڈاکٹر شفیع کبھی بھی بابا سے فیس نہیں لیتے۔ لیکن ان
ظالموں نے ہمیں امیمہ کو ہسپتال کے جانے نہیں دیا۔
امی کو بہت مشکل سے چپ کروایا ہے۔ انہیں یقین نہیں آرہا ۔
امیمہ کو ہم دفنا آئے ہیں۔ ہاں میں ساتھ گیا تھا۔ جب اس کو قبر میں رکھ رہے تھے
میں دیکھ رہا تھا۔ بابا کے ہاتھ کانپے تو تایا اور بڑے ماموں نے ان کے ہاتھ سے لے
کر امیمہ کو نیچے مٹی میں رکھ دیا۔
میں اداس ہوں اور میں رو رہا ہوں۔ مجھے امیمہ یاد آرہی ہے۔
ایسا لگتا ہے ابھی کمرے سے باہر نکلے گی اور کہے گی۔ آؤ بھیا کھیلیں۔
میں اسرائیلیوں سے گن گن کر بدلے لوں گا۔ میں بھائی جان
جیسا بہادر مجاہد بنوں گا۔ بھائی جان شاید واپس آجائیں۔ حماس کا معاہدہ ہوا ہے
اسرائیلیوں سے۔ کچھ قیدی چھوڑ دیں گے وہ۔
ان میں بھائی جان بھی ہیں۔
جب امی ٹھیک ہوجائیں گی تو ان سے پوچھوں گا۔جب امت ایک جسم
کی طرح ہے تو دوسرے مسلمان ہماری مدد کیوں نہیں کرتے۔وہ ہم پر ظلم دیکھ کر بے چین
کیوں نہیں ہوتے۔ ان کی دعائیں ہمارے کسی کام کی نہیں اگر وہ ہماری کوئی عملی مدد نہیں
کرتے۔
شاید انہوں نے یہ والی حدیث نہیں پڑھی۔ بابا کہتے ہیں دوسرے
ملکوں میں رہنے والے بچے عربی نہیں بولتے۔ وہ دوسری زبانیں بولتے ہیں۔
میرے خیال میں وہ
مسلمان تو ہیں۔ جب وہ یہ حدیث پڑھیں تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں۔
’’مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصہ
کوتکلیف پہنچتی ہے تو اس کے تمام اعضاء بے چین ہو اُٹھتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد)