الماری کے اندر چھپے بوبو بھالو
کامارے ڈر کے برا حال ہو گیا۔وہ ماما کو آواز دینا چاہتا تھا لیکن اس کے گلے سے
بس اتنی سی آواز نکل سکی۔
’’کک۔۔ کون۔۔ مم۔۔ ماما۔۔
جج۔۔ جن بھوت!!‘‘
بہت دیر تک جب کوئی دوسری
آواز نہ آئی تو بوبو بھالو نے الماری کا ایک پٹ تھوڑا سا کھول کر باہر جھانکا۔ یہ
کیا! باہر تو کوئی بھی نہیں تھا۔ بوبو بھالو پھر بھی تھوڑی دیر انتظار کرتا رہا کہ
کہیں وہ جن اس کو کھانہ لے اور وہ کہیں چھپا ہوا نہ ہو۔
پھر وہ آخرکارالماری سے باہر
نکل آیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ بوبو بھالو کا موبائل بیڈ پر پڑا تھا۔
’’آہ! ایسا لگتا ہے میں نے
کوئی خواب دیکھا ہے۔ امم! امی تو سو رہی ہوں گی۔ میں تھوڑی دیر گیم کھیل لیتا
ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر بوبو بھالو نے موبائل اٹھایا اور پھر۔۔ اچانک ہی تیزی سے نیچے
پھینک دیا۔ موبائل فرش سے جا ٹکرایا اور ایک آواز آئی۔
’’چھناک!!‘‘ اس کی سکرین ٹوٹ
گئی تھی۔ لیکن اس ٹوٹی ہوئی سکرین میں سے ایک جن بہت خوفناک سے بوبو بھالو کو گھور
رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی آواز آئی۔
’’ہمم! ہمم! میں نے سنا ہے کہ
تم ماما کو بہت تنگ کرتے ہو۔ سارا وقت موبائل میں گیم کھیلتے ہو۔ کچھ بھی کھاتے
پیتے نہیں ہو نہ سیر کرنے جاتے ہو۔ اگر تم اچھے بھالو نہ بنے تو۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ بوبو
بھالو نے بس اتنا ہی سنا اور بھاگتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لیکن کمرے کا
دروازہ اندر سے بند تھا۔
جن ابھی تک بول رہا تھا۔ ’’میں
نے سوچا ہے روز تمھارے کمرے میں آیا کروں گا اور۔۔۔‘‘
بوبو نے جلدی سے واپس آ کر
سائیڈ ٹیبل پر پڑے کپ سے چابی نکالی تو کپ الٹ کر بیڈ کے نیچے جا گرا اور ایک
آواز آئی۔
’’آہ! آؤچ!‘‘
لیکن جلدہی پھر سے جن کی
آواز آنا شروع ہو گئی۔
’’اور میں تمھاری الماری کے
سارے بسکٹ کھاجاؤں گا اور وہ والا کیک بھی۔۔‘‘
لیکن بوبو بھالو اس وقت تک
اپنی مامابھالو کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔
’’ماما! ماما! جلدی کھولیں۔
میرے کمرے میں جن ہے۔ وہ موبائل میں آگیا ہے اور اس کے اندر سے بول رہا ہے۔‘‘
ماما بھالو نے یہ سنا تو وہ
جلدی سے بوبو کے ساتھ اس کے کمرے میں آئیں۔ انہوں نے دیکھا۔ موبائل نیچے گرا ہوا
تھااور اس کی سکرین ٹوٹ چکی تھی۔ جن اب خاموش تھا۔ انہو ں نے موبائل اٹھایا اور
کہنے لگیں۔
’’دیکھو! میں تمھیں سمجھاتی
تھی کہ موبائل کو زیادہ استعمال کرنا اچھی بات نہیں۔ چلو! میں تمھارے ماموں سے
کہوں گی کہ اسے جڑوا دیں اور۔۔۔‘‘
’’نن نہیں! ماما! مجھے موبائل
نہیں چاہیے۔ ‘‘
’’اچھا! ٹھیک ہے۔ جیسے تمھاری
مرضی۔ ‘‘ ماما بھالو نے کہا اور کمرے سے باہر جانے لگیں۔
’’ماما! میں صبح ہائیکنگ پر
جانا چاہتا ہوں۔۔ دوستوں کے ساتھ۔‘‘ بوبو نے کہا اور الماری سے اپنے جوگرز نکال کر
ریک پر رکھنے لگا۔
ماما بھالو مسکرائیں۔
’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن
میرا خیال ہے تمھارے دوست تم سے ناراض ہیں۔ تم اپنے ساتھ وہ سٹرابری کیک بھی لے
جانا جو تم پچھلی بار لے کر گئے تھے۔ مجھے یقین ہے انہیں بہت پسند آئے گا اور وہ
تم سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہیں گے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک! ماما!‘‘ بوبو
بھالو نے اچھل کر بیڈ پر چڑھتے ہوئے کہا اور دیوار پر سے چھتری اتار کر میز پر رکھ
لی۔
بچو! جب لیفٹی ، مائسی ، جیلو
اور والنٹ مسٹر ماؤس کے پاس واپس پہنچے تو مسٹر ماؤس میز پر موجود نہیں تھے۔
’’ہاں تو! بیڈ کے نیچے سے جن
کی آواز میں نے نکالی تھی۔ مسٹر ماؤس مجھے زیادہ شاباش دیں گے۔‘‘ لیفٹی نے کہا۔
’’اور وہ الماری کے ہینڈل پر
چڑھ کر ناخنوں سے دروازے کو کس نے کھرچا تھا۔ اف!کس قدر سخت لکڑی تھی۔ ‘‘ والنٹ نے
اپنے ناخن غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
مائسی اور جیلو خاموش پتہ
نہیں کیوں کھڑے تھے۔اتنے میں مسٹر ماؤس اندر آئے اور میز کے ساتھ رکھی بڑی سی
کرسی پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے سونے والا لباس پہن رکھا تھا۔
’’میں تم لوگوں کی باتیں سن
رہا تھا۔ماما بھالو کا فون آیا ہے۔ وہ شکریہ کہہ رہی تھیں۔ شاباش! ٹیم! تم نے بہت
اچھا کام کیا !‘‘
اچھا! مائسی! جیلو! تم خاموش کیوں ہو۔‘‘
’’سر! وہ۔۔ میں۔۔‘‘ مائسی نے
جلدی سے کچھ نگلا ، پھر اپنی مونچھوں کو صاف کیا اور بولی۔
’’سر! وہ مجھ سے ایک غلطی ہوگئی ہے۔‘‘ مائسی نے کہا۔
’’مائی گاڈ! یہ کیسی ٹیم ملی
ہے مجھے! پھر غلطی؟! کیسے؟‘‘ مسٹر ماؤس چلائے۔
’’وہ میں میاؤں آپا کے گھر
کے پاس سے گزری تو ان کی کھڑکی میں مکھن رکھا ہوا تھا۔ میں نے تھوڑا سا چکھنے کے لیے
اس کو کھایا تو میاؤں آپا اٹھ گئیں اور۔۔ وہ۔۔۔ کہہ رہی تھیں کہ ۔ اب آپ کو فون
کریں گی میری شکایت لگانے کے لیے۔‘‘
’’مائی گاڈ!‘‘ ابھی مسٹر
ماؤس اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
’’ٹرن ٹرن ٹرن!‘‘
’’ہیلو! مسٹر ماؤس
سپینکنگ!‘‘
’’ہیلو! میاؤں بول رہی ہوں۔
بھئی! یہ کس قسم کے چوہے رکھے ہیں آپ نے اپنی ٹیم میں۔ سارا مکھن چٹ کر گئی وہ
مائسی پائسی۔ اس کو کہہ دیں کہ اگر دوبارہ میری کھڑکی کے پاس بھی آئی تو میرا رات
کا کھانا وہی ہو گی بس!‘‘
’’آئی ایم سوری میاؤں
آپا!‘‘
’’کھٹاک ک ک !‘‘ کی آواز
آئی ۔ میاؤں آپا نے زور سے فون رکھ دیا
تھا۔
مسٹرماؤس نے مونچھوں پر آیا
ہوا پسینہ صاف کیا اور جیلو سے پوچھنے لگے۔
’’ہمم! تم جیلو ! تم نے کیا
کیا ؟‘‘
’’سر! ایک غلطی ہو گئی ہے۔ ‘‘
’’مائی گاڈ! یہ کیسی ٹیم ملی
ہے مجھے! پھر غلطی؟! کیسے؟‘‘ مسٹر ماؤس پہلے سے بھی زور سے چلائے۔
’’س۔۔سر! میں اونچی اونچی جمپ
لگا کرواپس آرہا تھا تو میں نے غور کیا۔ میری دم کے ساتھ بوبو بھالو کے موبائل کی
ہینڈ فری اٹکی ہوئی تھی۔ میں سمجھا کوئی سانپ ہے۔ میں نے زور سے اس کو جھٹکا تو
۔۔۔ وہ۔۔ ۔۔ اڑ کر الو میاں کے پروں پر جا گری۔ ‘‘
’’الو انکل کہہ رہے تھے وہ
آپ کو فون کریں گے اور جیلو کی شکایت۔۔۔‘‘
’’ٹرن! ٹرن! ٹرن!‘‘ جیلو کی
بات پوری نہ ہو سکی تھی اور فون کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔
مسٹر ماؤس نے غصے سے جیلو کو گھورا۔ پھر ایک لمبی سانس لی
اور اپنے دونوں ہاتھ گالوں پر ٹکا کر فون کو گھورنے لگے۔ فون کی گھنٹی لگاتار بج رہی
تھی ۔ سب جانتے تھے الو میاں کبھی رات کو
نہیں سوتے۔
’’ٹرن! ٹرن! ٹرن!‘‘
’’ٹرن! ٹرن! ٹرن!‘‘
آخر مسٹر ماؤس نے ایک ہاتھ
سے فون کا ریسیور اٹھایا اور آہستہ سی آواز میں بولے۔
’’ہیلو الو میاں! مسٹر ماؤس
سپیکنگ!‘‘
’’جی! تو آپ مسٹر ماؤس ہیں۔
کیا آپ نے اپنی ٹیم کو یہ سکھایا ہے کہ رات کو بڑوں کو تنگ کریں۔ اتنے آرام سے
بیٹھا میں کھانا کھا رہا تھا کہ ایک سانپ جیسی کوئی چیز آپ کا یہ جیلو پیلو چوہا
میرے اوپر پھینک گیا۔ ‘‘
’’آئی ایم سوری! الو میاں!
اب ایسا نہیں ہو گا۔ ‘‘ مسٹر ماؤس نے کہا تو الو میاں بولے۔
’’اچھا! ٹھیک ہے۔ لیکن اپنے
چوہوں کو سمجھائیں۔ میرا کھانا بھی گر گیا
اس اچھل کود سے۔‘‘
بچو! جنگل میں اب صبح ہونے
والی ہے۔ سفید رنگ کے ایک چھوٹے سے گھر میں جھانک میں دیکھیں تو آپ کو لیفٹی
مائسی اور والنٹ ناشتہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ بھئی! جیلو ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ الو
میاں کو ناشتے کے لیے earthwormsوالا سوپ دینے گیا ہے۔
اچھا اب اپنی دوربین سے سامنے
والی سبز پہاڑی کو دیکھیں۔ بوبو بھالو اپنے دوستوں کے ساتھ ہائیکنگ کر رہا ہے اور
وہ بہت خوش ہے۔ ہاہ! میں تو کہتی ہوں آپ بھی موبائل ماما کو واپس کریں اور جوگرز
پہن کر باہر جائیں، ایک لمبی دوڑ لگائیں گہری گہری سانسیں لیں ،20 جمپس لگائیں ،
پھر واپس آکر چکن کارن سوپ پئیں اور وہ کلرفل سی سٹوری بک پڑھیں جو ریک کے اوپر
والے خانے میں پڑی ہے! کیا خیال ہے!