راجو اور سپر سنی کے ایڈونچرز - 1

 


’’ہاں تو! کیا میری زندگی کبھی بھی نہیں بدلے گی!یہی صبح و شام، یہی ورکشاب میں کام پھر گھر جا کر گھر کے کام ۔ وہی پرانی کتابیں میری ، وہی اماں کی ڈانٹ۔  اوہ! خدایا! ‘‘

راجو نے سڑک پر چلتے چلتے سر اٹھا کر دیکھا۔ صبح کے آٹھ بجے تھے اور سورج کی صاف ستھری نرم دھوپ اس کے سیاہ بالوں پر پڑ رہی تھی۔

’’ہمم! کسی کو کیا پتہ میں کیا چاہتاہوں۔ ‘‘

اب اس نے تیز تیز قدم اٹھانا شروع کر دیے تھے۔

’’میں۔۔ میں سورج کے پاس جا کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا لگتا ہے۔ میں چاند کے اوپر جا کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہاں چلنا کیسا لگتا ہے۔ میں۔۔ میں۔۔۔‘‘


’’اور میں روز کی طرح لیٹ آنا چاہتا ہوں تا کہ دیکھ سکوں مالک کی ڈانٹ کیسی لگتی ہے۔‘‘ اچانک ایک تیز آواز راجو کے کان سے ٹکرائی تو اس کی سوچ اور آواز دونوں کا ردھم  ٹوٹ گیا۔ وہ سوچنے کے ساتھ ساتھ بول بھی رہا تھا۔

 

یہ اس کا دوست شبیر تھا ۔ ’’گھڑی دیکھی ہے آپ نے محترم راجو میاں! آٹھ بج کر پانچ منٹ ہونے کو ہیں۔‘‘

’’ہاں تو! پانچ منٹ تو کوئی بھی لیٹ ہو سکتا ہے۔ ‘‘ راجو نے بے نیازی سے کہا اور کپڑا اٹھا کرساتھ کھڑی گاڑی  کا بونٹ صاف کرنے لگا۔

’’جی نہیں! ایک سیکنڈ بھی اگر کوئی لیٹ ہو جائے تو تمھاری یہ ننھی منی زمین سورج کے ساتھ جا ٹکرائے۔‘‘

’’آں ہاں! لیکن شبیر! تم یہ کیسے جانتے ہو۔‘‘ راجو نے سر اٹھائے بغیر پوچھا۔ اب وہ گاڑی کے شیشے صاف کر رہا تھا۔

’’میں شبیر نہیں ہو۔ سنی ہوں!‘‘

راجو کو ایک دم جھٹکا سا لگا۔ اس نے گھوم کر دیکھا۔ سورج کی سی تیز روشنی والا ایک لڑکا جس نے چمکتا سنہری لباس پہن رکھا تھا، اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کی شیلڈ سی تھی جیسے ڈھال ہوتی ہے۔

اس لڑکے سے اتنی تیز روشنی نکل رہی تھی کہ راجو کو گاڑیاں، شبیر اور حتیٰ کہ پوری ورکشاپ نظر آنا بند ہو گئی تھی۔

’’میں تمھاری باتیں سن رہا تھا جب تم کہہ رہے تھے ، سورج کے پاس جانا کیسا لگتا ہے۔‘‘

 سنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’کیا تم حقیقت میں سورج کے پاس جانا چاہتے ہو؟‘‘

’’آں! ہاں! واقعی میں کھوج لگانا چاہتا ہوں۔نہ صرف سورج کا بلکہ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں ہماری زمین سورج کے پاس سے کیسی لگتی ہے اور۔۔ اور۔۔ ہماری زمین جیسے دوسرے سیاروں میں ۔۔۔‘‘

’’اوکے! اوکے! ‘‘ سنی نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’تو پھر شام کو تیار رہنا۔ میں پھر آؤں گا۔‘‘

’’آہا! کیا میں تمھارے ساتھ سفر کر وں گا؟‘‘

’’ہاں! لیکن ان کپڑوں میں نہیں!‘‘

سنی نے اس کی میلی قمیص کی جانب اشارہ کیا جو راجو نے ورکشاپ میں آتے ہی پہن لی تھی۔ اس کے گھر کے صاف کپڑے ایک کھونٹی سے لٹکے ہوئے تھے۔

’’اچھ۔۔چھا!! ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’اوکے ! ‘‘ اتنا کہتے ہی سنی اور اس کے ساتھ ہی تیز روشنی  بالکل غائب ہو گئی۔

راجو وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اچانک ورکشاپ کے مالک کی آواز آئی۔

’’راجو! تم ٹھیک تو ہو۔ تم اپنے آپ سے باتیں کر رہے تھے۔‘‘

’’جج۔۔جی! آں ہاں! میں ٹھ۔۔ ٹھیک ہوں۔ کچھ نہیں۔ وہ بس ایسے ہی۔‘‘ راجو نے بے ربط سے کچھ الفاظ کہے پھر اوزار والا باکس اٹھانے ورکشاپ کے اندر چلا گیا۔

’’آخر اس کی شام سے کیا مرادہے؟‘‘ راجو نے بہت انتظار کے بعد الجھن سے سوچا۔ شام کی بجائے رات کے نو بج چکے تھے۔ سنی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔

اچانک دروازے پر ایسے دستک ہوئی جیسے کوئی روبوٹ دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو۔ اماں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی راجو کرسی کے اوپر سے پھلانگ کر دروازے تک پہنچ گیا۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، سنی کی تیز روشنی سے راجو کا چھوٹا سا صحن بھر گیا۔

’’چلو! ‘‘ سنی نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

راجو نے مڑ کر اماں سے کچھ کہنا چاہا لیکن سنی کا اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔