فلسطینی بچے کی ڈائری - 1



پتہ نہیں ابو کب آئیں گے۔ امی کہتی ہیں معبر رفح البری (مصر اور غزہ  کی سرحد کے بیچ کراسنگ پوائنٹ) پر بہت دن لگ جاتے ہیں۔ فوجی طرح طرح کے سوال کرتے ہیں ۔ کیا لائے ہو۔ کیوں لے کر جا رہے ہو۔اب  اللہ کرے کہ میرے کھلونے نہ ان کو پسند آجائیں۔ میں نے سکریبل، کیمرہ اور قاہرہ کی بنی ہوئی لکڑی کی گھوڑا گاڑی  منگوائی ہے۔

ویسے تو ابو میرے لیے کھلونے لینے گئے ہوئے ہیں۔لیکن مجھے پتہ ہے وہ  اور بھی بہت سی چیزیں لائیں گے۔جیسے  کھجور اوربادام والا میٹھا  حلوہ! آہا! یہ  میرا فیورٹ ہے۔

کبھی کبھارمیرا دل  کرتا ہے کہ رفح بارڈر کے گیٹ  پر جاکر دیکھوں سیکورٹی فورسز کے یونیفارم کیسے ہوتے ہیں۔


امی مجھے بتاتی تو نہیں ہیں لیکن میں جانتا ہوں وہ اداس ہیں ۔ وہ بھائی جان کے لیے اداس ہیں۔ لیکن میری امی بزدل نہیں ہیں۔ وہ اسرائیلی فوجیوں سے ذرا بھی نہیں ڈرتیں۔ پچھلی بار جب ہم مسجد اقصیٰ گئے تھے تو میری امی سیڑھیوں میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ایک اسرائیلی فوجی نے بار بار امی کو اپنے ہتھیاروں سے ڈرایا اور انہیں مصحف بند کرنے کو کہا۔

امی نے توبس ناک سے مکھی اڑائی اور پوری سورۃ بنی اسرائیل پڑھ کر ہی مصحف بند کیا۔ جی! میں بھی امی پر گیا ہوں۔ اس دن ساحل پر کھیل رہے تھے تو تین اسرائیلی فوجی ہمیں ڈرانے کے لیے آگئے۔ ہم سب دوستوں نے ان کے ہتھیاروں کی ذرہ بھی پروا نہیں کی اور انہیں پتھر اور پلاسٹک کی بوتلیں مار مار کر بھگا دیا۔ ہاہا! کیا یادگار دن تھا۔

ویسے تو میرا نشانہ بھی اب بہت  پکا ہو گیا ہے۔ ایک دفعہ میں نے اسرائیلی فوجی کی آنکھ کا نشانہ لے کر پتھر مارا تھا۔ آہا! بالکل صحیح جا کے لگا تھا لیکن اس بدتمیز نے شیشے والا ہیلمٹ جو پہنا ہوا تھا تو بچت ہو گئی اس کی۔ ورنہ میری غلیل سے تو بڑے بڑے لوگ ڈرتے ہیں۔ جی!

میرے  بھائی جان کو اسرائیلی پکڑ کر لے گئے ہیں۔ امی کہتی ہیں تم نے بھائی جان جیسا بننا ہے۔ میرے پاس ان کی پٹی محفوظ ہے جو وہ سر پر باندھتے تھے۔بھائی جان کی گھڑی بھی میں نے رکھی ہوئی ہے لیکن وہ مجھے ابھی پوری نہیں آتی۔ ابھی میں آٹھ سال کا ہوں ناں۔

ظہر کے بعد ہم سوئمنگ کرنے گئے تھے۔ بہت مزہ آیا۔

امی بتاتی ہیں پہلے پہلے ابو اسرائیل میں کام کرتے تھے۔ پھر اسرائیل نے لوگوں کو ورک پرمٹ دینا بند کر دیے۔ تب سے ابو کام کرنے مصر جاتے ہیں۔ ویسے بھی اسرائیل نے ہمارے شہر غزہ کے سب زمینی راستے بند کر رکھے ہیں۔ تو باہر کی دنیا سے ہمارا رابطہ رفع بارڈر کے ذریعے ہی ہو تا ہے۔

اوہ! نہ جانے بجلی کب آئے گی۔ میں تو تھک سا گیا ہوں اندھیرے سے ۔ نہ کچھ پڑھا جاتا ہے نہ امی کے موبائل کی چارجنگ ہو تی ہے۔ کچھ لوگوں نے سولر سسٹم لگا لیا ہے۔ ابو واپس آئیں تو میں ان سے کہوں گا ۔ ہم بھی سولر سسٹم لگا لیتے ہیں۔

جی! یہ بمباری کی آوازیں تو آتی ہی رہتی ہیں۔ میں اب بڑا ہو گیا ہوں اس لیے زیادہ پریشان نہیں ہوتا۔

میں دنیا کے بچوں کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ ٍ

میں نہ آپ کی طرح سکول جاتا ہوں نہ ہی میرے پاس کہانیاں کی کتابیں اور ڈھیر سارے نئے کھلونے ہیں۔

میرا دل کرتا ہے میں بھی بہت اچھا سا کھانا کھاؤں اور کمبل میں گھس کر آئی پیڈ میں گیمز کھیلوں۔لیکن سب سے بڑھ کر میرے اندر ایک خواہش سب سے زیادہ ہے۔ یہ ہر روز کا ایک خاص سبق ہے جو میری امی ہمیں سونے سے پہلے بتاتی ہیں۔  وہ یہ مجھے اور دنیا کے سب بچوں نے  مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنی ہے اور اسے اسرائیلیوں سے آزاد کروانا ہے، چاہے اس میں ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔  

اچھا! کافی دیر ہو چلی ہے۔ باقی باتیں کل لکھوں گا۔