’’امی! امی!
دیکھیں مٹھو نے کیا کہا ہے ؟‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ امی کتاب سے سر اٹھا کر بولیں۔
’’مٹھو کہہ رہا ہے کیف حالک (تمھار ا کیا حال ہے)۔ کیف
حالک؟‘‘
’’آہا! مٹھو عربی بو ل رہا ہے۔ ‘‘ امی یہ کہتے ہوئے ہنسیں۔
ہوا یہ تھا کہ ابو کے دوست مکہ سے آئے ہوئے تھے اور ابو ان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے
باتیں کر رہے تھے۔ مٹھو بھی وہیں ڈرائی فروٹ کی ٹرے میں سے بار بار کچھ اٹھاتا اور
چونچ میں دبا کر کرسی کی ٹیک پر بیٹھ جاتا۔
ساتھ ہی ساتھ مٹھو بڑے غور سے اور کا ن لگا کر ان دونوں کی
باتیں سن رہا تھا۔ پھر دوست تو کب کے چلے گئے ، اب مٹھو اپنے پنجرے کے جھولے پر
بیٹھا ہر آئے گئے کو کہہ رہا ہے۔
’’کیف حالک ۔(تمھارا کیا حال ہے) کیف حالک (تمھارا کیا حال
ہے)؟‘‘
مانی شانی جب را ت کے کھانے کے بعد دادا ابو کے کمرے میں گئے
تو انہوں نے کہا۔
’’اچھا! بیٹا! تم دونوں نے قرآن تو ختم کر لیا ہے۔اب آگے
کیا کرنا ہے؟‘‘
’’آگے۔۔ امم۔ بس کچھ نہیں۔ اب ہر روز تلاوت کیا کریں گے۔ ‘‘
مانی نے جوا ب دیا۔
’’صرف تلاوت؟ ‘‘
’’جی! قاری صاحب نے بتایا ہے کہ قرآن پاک کے ہر حرف پر دس
نیکیاں ملتی ہیں۔‘‘
’’ بالکل! ایسا ہی ہے۔ ویسے آپ مانی، اتنی تیزی سے تلاوت کرتے ہیں کہ مجھے
تو ایک لفظ بھی سمجھ نہ آیا کہ آپ کس سورت کی تلاوت کر رہے ہیں۔‘‘
دادا ابو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’آں۔۔ نہیں ! دادا !‘‘ مانی گڑبڑا سا گیا۔
’’ وہ یہ۔۔ مٹھو کو بھوک لگی ہوئی تھی تو میں جلدی جلدی
سپارہ ختم کرنے میں لگا ہوا تھا۔‘‘
’’اچھا! یہ بتاؤ کہ قرآن کو ٹھہرٹھہر کر اور آرام سے ایک
لفظ ایک لفظ پڑھنے کا حکم کیوں ہے؟‘‘
’’کیوں دادا جان!‘‘ مانی شانی بیک وقت بولے۔مٹھی بھی شانی
کے کندھے پر بیٹھا یہ سب گفتگوسن رہا تھا۔
’’تاکہ ہم قرآن کے ایک ایک لفظ پر غور کر سکیں۔ اللہ
تعالیٰ بار بار قرآن میں ہمیں کہتے ہیں۔افلا
تعقلون۔ تم سوچتے کیوں نہیں ہو۔افلا تذکرون۔ تم سمجھتے
کیوں نہیں ہو۔ یعنی ہم قرآن پاک میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اس کو سمجھ کر کیوں نہیں
پڑھتے۔ ‘‘
’’تو کیا ہمیں قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھنا چاہیے؟‘‘ مانی
نے سوال کیا۔
’’نہیں! تمھیں قرآن پاک کی زبان کو سمجھ کر خود قرآن کو
سمجھنا چاہیے کہ اللہ پاک نے یعنی تمھارے پیدا کرنے والے رب نے قرآن میں کیا کہا
ہے۔ ‘‘
اتنا کہہ کر دادا ابونے ریک میں سے قرآن پاک اٹھایا اور اس
میں سے دوسرے سپارے میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 186نکالی۔
وَاِذَا سَاَلَكَ
عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا
دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ
يَرْشُدُوْنَ (186)
’’دیکھو! اس آیت میں اللہ پاک اپنے بندوں سے
بہت پیار سے بہت محبت سے ایک بات کہہ رہے ہیں لیکن جب ہم اس آیت کا ترجمہ پڑھتے
ہیں تو ہمیں اس پیار کا احساس تک نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ صرف ترجمہ ہے۔ ترجمے میں
آپ لہجے کو translateنہیں
کر سکتے۔
’’اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک
ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پھر چاہیے کہ میرا
حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘
دیکھا آپ نے۔ ترجمہ صرف ایک جملہ ہوتا ہے۔اس سے ہمیں بالکل پتہ
نہیں چلتا کہ یہاں اللہ پاک محبت کا اظہار کررہے ہیں، یا یہاں وہ غصے میں ہیں۔
جیسے کہ اگر آپ سورۃ التوبہ کی عربی سمجھ
کر پڑھو تو آپ کو پتہ لگے گا کہ اللہ پاک نے اس سورت میں کافروں
اور منافقین پر کس قدر غصے کا اظہار کیا ہے۔‘‘
دادا ابو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مانی شانی نے خاموش تھے۔
اچانک مٹھو تیزی سے اڑا اور کھڑکی میں جا بیٹھا۔ پھر وہ تیز تیز کہنے لگا۔
’’کیف حالک؟ کیف حالک؟‘‘
مانی نے آگے بڑھ کر کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ وہاں گھاس پر مانو
کھڑی تھی جو کل ہی ساتھ والوں کے جرمن کتے سے لڑائی کر کے آئی تھی۔ اس لڑائی میں
جرمن کتے کا تو کچھ نہ بگڑا تھا البتہ مانو کی دم اور دونوں اگلی ٹانگوں کے بال
کافی سارے اتر گئے تھے۔
’’میاؤں! میاؤں! ‘‘ مٹھو کی آواز سن کو وہ ہلکا سا غرائی
جیسے کہہ رہی ہو نیچے اترو پھر بتاتی ہو حال کیسا ہے۔
جب مانی اور شانی اپنی کرسیوں پر آکر بیٹھے تو دادا ابو قرآن
پاک کو واپس ریک میں رکھ چکے تھے۔ پھر وہ کہنے لگے۔
’’جب تک ہم قرآن کی زبان کو سمجھ کر قرآن نہیں پڑھیں گے، ہم
ایک بہت بڑے خزانے سے محروم رہیں گے۔ وہ خزانہ اللہ کے پیار اور اس کی رحمت کا
خزانہ ہے۔ ہمیں صرف ترجمہ پڑھنے سے کبھی یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ قرآن پاک کا
آیات کا اصل مطلب کیا ہے۔ ‘‘
’’دادا ابو! یہ بات ہمیں کبھی کسی ٹیچر نہیں بتائی۔ سب بس ترجمہ
پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔‘‘ مانی نے اداسی سے بتایا۔
’’کیونکہ ہمارا ماحول اور ہماری نفسیات نہیں بنائی گئی کہ ہم
عربی سیکھیں ۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ ’’عربی سیکھو کیونکہ یہ
دین سے ہے۔ ‘‘ یعنی دین کا ایک بڑا حصہ عربی میں ہے۔ اگر عربی نہ آئی تو دین کے
اس حصے سے محروم رہ گئے۔ خود حضور ﷺ نے عربی کو جنت کی زبان بتایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود
دئلوی سے عربی زبان کے اصولوں پر ایک کتاب بھی لکھوائی۔ عربی زبان کے ایک عالم ابو
ثعلبی کہتے ہیں۔’’جسے اللہ رب العزت سے محبت ہوگی،اسے اللہ کے رسول
مصطفی ﷺسے بھی محبت ہوگی،جسے رسول عربی ﷺ سے محبت ہوگی اسے اہل عرب سے
بھی محبت ہوگی،جسے اہل عرب سے محبت ہوگی اسے عربی زبان سے بھی
محبت ہوگی،جس زبان میں کتابوں میں سب سے افضل کتاب، سب سے افضل ذات پر
نازل ہوئی،جو عربی زبان سے محبت رکھے گا وہ اس کے (سیکھنے سیکھا نے
اور اس کی حفاظت )کا بھی اہتمام کرےگا اور اس پر توجہ بھی دے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مانی شانی اپنے کمرے میں سونے کے لیےآئے تو ان کے ذہن
میں دادا ابو کا یہ آخری جملہ گونج رہا تھا۔
’’خالی تلاوت سے دس دس نیکیاں مل تو جائیں گے لیکن قیامت
والے دن وہ نیکیاں بھی اگر خالی سی ہوئیں
تو ہم جنت میں کیسے جائیں گے؟ اگر ہم قرآن کی عربی کو سمجھ کر پڑھیں تو جو نیکیاں
ایک ایک حرف پر ملنی ہیں وہ ہماری سوچ اور فکر سے بھری ہوئی ہوں گی ۔ ‘‘
وہ سوچ رہے تھے کہ اب تک ہم صرف خالی خولی سی تلاوت ہی کیوں کرتے آئے ہیں۔ ہم نے قرآن پاک
کو سمجھ کر کیوں نہیں پڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ابو! ساتھ والے ماجد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ میں
اور ساجدہ آج ہسپتال سے ہو آئے ہیں۔ اب وہ گھر آچکے ہیں ۔ آپ بھی ان کو دیکھ
آئیے گا۔ ‘‘ مانی شانی کے والد عمر حیات صاحب نے بتایا۔
’’اوہ! اللہ انہیں صحت دے۔ کل تک وہ بالکل ٹھیک تھے ۔ مسجد
میں میری ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ہاں! یاد آیا۔ وہ اس پراپرٹی ڈیلر والی بات
پر پریشان تھے۔ ‘‘ دادا ابو نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’جی ابو در اصل انہوں
نے کئی کروڑروپے کا پلاٹ خریدا تھا اور ڈیلر کو پیمنٹ کر کے گھر چلے آئے تھے کہ فائل کل مل
جائے گی۔ڈیلر ان کا بہت جگری دوست ہے تو اس لیے کوئی کاغذی کاروائی تک نہ ہوئی اس
پیمنٹ کی۔ لیکن اسی رات اس بے چارے ڈیلر
کو ہارٹ اٹیک ہوگیااور وہ فوت ہو گیا۔ اب ماجد صاحب ان کے بیٹوں کے پاس جا کر کہتے
ہیں کہ میرے چھ کروڑ واپس کرو تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے اس رقم کے لین دین کا۔ واقعی ماجد صاحب سے یہ غلطی
ہوئی کہ انہوں نے ڈیلر پر پورا اعتماد کر
کے اسے بغیر کسی کاغذی کاروائی کے چیک لکھ دیا۔ اب وہ اسی پریشانی میں ہارٹ اٹیک سے گزر چکے ہیں۔‘‘ عمر حیات نے تفصیل
سے بتایا۔
’’خدایا! ہم لوگ جب بھی قرآن سے دور ہوئے ہیں تو ہمیں
پریشانیاں دیکھنی پڑی ہیں۔ دیکھو ناں بچو!‘‘ دادا ابو نے مانی شانی کو مخاطب کیا
جو وہیں بیٹھے مٹھو کو بسکٹ کھلارہے تھے۔
’’ قرآن کی جو سب سے لمبی آیت ہے وہ آپس کے مالی لین دین
سے متعلق ہے یعنی جب ہم کسی سے قرض لیں یا دیں یا ویسے ہی کوئی رقم یا پیمنٹ دیں
یا لیں تو اس کو لکھ لیا کریں۔ لیکن جب ہم صرف تلاوت کرتے جاتے ہیں تو ہمیں پتہ ہی
نہیں لگتا کہ اس آیت میں اللہ پاک کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر ہم سمجھ کر پڑھیں گے تو
ہمیں معلوم ہو گا کہ اللہ پاک اتنا امپورٹنٹ میسج ہمیں دے رہے ہیں کہ جب ہم کسی کو
کوئی پیمنٹ کریں یا کوئی ہمیں اپنی کوئی رقم ادھار دے تو ہم اس کو لکھ لیں۔ ‘‘
’’واقعی! دادا ابو! یہ بات قرآن میں لکھی ہوئی ہے۔ ‘‘ مانی
نے حیرت سے کہا۔
’’بالکل میر ابیٹا! اصل
میں اللہ تعالیٰ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم جب تک اس
دنیا میں رہیں کبھی کوئی نقصان نہ اٹھائیں۔ تو اس کے لیے انہوں نے کچھ اصول بتلائے
ہیں جو قرآن پاک میں لکھے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’ابو! مجھے ہمیشہ
سے سورہ یوسف کو سمجھنے کا شوق رہا ہے۔
میں نے سن رکھا ہے کہ یہ سب سے خوبصورت قصہ ہے جو اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان
کیا ہے۔‘‘ عمر حیات نے کہا۔ وہ دادا ابو کے لیے چائے بنا کر لے آئے تھے۔ اب خود
بھی کشن رکھ کر بچوں کےساتھ کارپٹ پر بیٹھ گئے تھے۔
’’آں ہاں! وہ تو بہت ہی خوبصورت کہانی ہے ایک ننھے بچے کی
جو اپنے باپ سے بچھڑ گیاتھا۔پھر و ہ بڑے ہو کر وہ اللہ کا نبی بنا اور مصر کا
بادشاہ بھی۔ پھر کیسے وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے دوبارہ مل پایا؟ یہ سب اللہ
تعالیٰ نے سورہ یوسف میں ہمیں بتایا ہے۔‘‘
کہانی کا لفظ سن کر مانی شانی کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’دادا ابو! میں قرآن پاک لے آؤں! ‘‘ مانی اچھل کر کھڑا
ہو گیا۔
’’نہیں ! دادا ابو! میں لے آتا ہوں۔ اس کا ہاتھ نہیں پہنچے
گا۔ ‘‘ شانی نے بھی کشن پھینکا اور کھڑا
ہو گیا۔
دونوں کی آپس میں بحث شروع ہو گئی۔ مٹھو ایک پنجے میں بسکٹ کا ٹکڑا تھامے سوچ رہا تھا۔ اب کس کو کہوں۔ کیف حالک۔
۔۔۔۔۔۔۔
بچو! مانی شانی ہر روز دادا ابو سے عربی کی کلاسز لے رہے ہیں۔ یہ کلاسز چھ ماہ کی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چھ ماہ تواتنا لمبا عرصہ ہے۔ کیسے گزرے گا۔ بالکل! عربی سیکھنے کے لیے ہمیں وقت تو لگانا پڑے گا۔ باقی کاموں کے لیے تو ہم خود کو سال دو سال کا بھی ٹارگٹ بھی دے دیتے ہیں۔ چھ ماہ تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ سو! آپ بھی آج ہی سے عربی کلاسز جوائن کیجیے ۔ اور ہاں! جب آپ کو عربی زبان آجائے، تو سب سے پہلے سورۃ النمل پڑھیے گا! اس میں ایک چیونٹی کی کہانی ہے جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کی تھی! وہ کیا بات تھی اور وہ کہانی کیا ہے! یہ تو آپ کو قرآن کی عربی سمجھ کر ہی معلوم ہو گا!