بوبو بھالو کو ملا موبائل - 3

 


جب چاروں چوہے ، لیفٹی، مائسی، جیلو اور والنٹ  بوبو بھالو کے گھر کے باہر پہنچ گئے تو سب نے  والنٹ کی طرف دیکھا۔ بوبو بھالو کے گھر کا دروازہ بھاری لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ والنٹ آگے بڑھ کر دروازے کے ایک کونے کو دانتوں سے کترنے لگا۔

ابھی آدھا کونا ہی کترا گیا تھا کہ مائسی نے منہ سے سیٹی کی آواز نکالی۔ اسے ملائی کی خوشبو آرہی تھی۔ یہ یقیناً اس موٹی بلی،  میاؤں آپا کی مونچھوں سے آرہی تھی ۔ میاؤں آپا جنگل کے قریب بنے ہوئے فارم ہاؤس سے روز مکھن ملائی کھانے جاتی تھیں۔ واپسی پر انہیں دو تو بج ہی جاتے۔ اس وقت بھی وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس درخت کے نیچے سے گزر گئیں جس کی شاخوں میں مائسی ، لیفٹی، جیلو اور والنٹ چھپ گئے تھے۔

جب میاؤں آپا کافی دور چلی گئیں تو والنٹ نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا۔ جلد ہی دروازے میں ایک طرف اتنا سوراخ ہو گیا تھا کہ چاروں چوہے ایک ایک کر کے گزرجاتے۔

جب وہ چاروں گھر کے صحن میں پہنچے تو بوبو بھالو کی امی کمر پر ہاتھ رکھے وہاں کھڑی انہیں گھور رہی تھیں۔


’’اوہ خدایا! تم نے پورا کونا کتر دیا۔ مجھے بتایا ہوتا تو میں دروازہ کھول دیتی۔ مسٹر ماؤس نے دو بج کر بیس منٹ کا وقت دیا تھا۔ اور اب تین ہو رہے ہیں۔ تم لوگ کہاں رہ گئے تھے۔ میں نے کافی انتظار کیا۔ پھر میں سونے چلی گئی۔ اب سوچ رہ ہوں نہ ہی سونے جاتی۔ کم از کم میرے دروازے کا کونا تو نہ ٹوٹتا۔‘‘

’’آنٹی! میاؤں آپا آ گئی تھیں۔ اسی لیے دیر ہو گئی۔‘‘ لیفٹی نے بائیں ہاتھ سے کان کھجاتے ہوئے  بتایا۔

’’کیا ہمیں آہستہ نہیں بولنا چاہیے۔ بوبو بھالو کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘ مائسی نے سرگوشی کی۔

’’فکر نہ کرو۔ وہ ہینڈ فری لگا کرکارٹون دیکھتے دیکھتے سو گیا ہے۔ کافی دیر تک گیم کھیلتا رہا اور پھر وہ کارٹون۔۔۔ ابھی ابھی اس کی آنکھ لگی ہے۔‘‘

’’اوکے! اب ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں۔‘‘

بھالو امی نے آگے بڑھ کر بوبو کا دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔

سب سے پہلے جیلو اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا۔ بوبو بھالو نے موبائل کو چارجر کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ وہ جمپ لگا کر پہلے سائیڈ ٹیبل پھر دیوار تک پہنچا اور پھر اس نے چارجر کا بٹن آف کر دیا۔ مائسی نے موبائل آگے سے کھینچا اورجیلو نے چارجر کی تار۔ یوں موبائل اب مائسی کے ہاتھ میں تھا۔

والنٹ نے کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کر دیا اور چابی سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک کپ میں ڈال دی۔بوبو بھالو کے کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہو، یہ ان کے پلان کی کامیابی کے لیے ضروری تھا۔

ابھی  موبائل  کے ساتھ ہینڈ فری کی تار لگی ہوئی تھی۔ اب لیفٹی نے موبائل پکڑ کر کھینچا اور والنٹ نے آہستہ سے تار کھینچی۔ موبائل تار سے الگ ہوگیا۔ لیکن یہ کیا!

لیفٹی ایک جھٹکے سے پیچھے جا گرا تھا جہاں کھانے کی پلیٹ پڑی ہوئی تھی۔

’’ڈب! ڈبرررر‘‘ پلیٹ زور سے فرش پر ہلی تو مائسی نے جلدی سے پلیٹ ہاتھ میں پکڑ لی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

’’اف! کس قدر بو آرہی ہے اس پلیٹ سے۔جو بچے زیادہ موبائل استعمال کرتے ہیں وہ اتنے گندے اور سست کیوں ہوجاتے ہیں کہ اپنے کھانے کی پلیٹ اٹھا کر کچن میں نہ لے کر جا سکیں!‘‘ مائسی نے الجھن سے سرگوشی کی۔ اس نے ابھی تک ناک پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

’’اس لیے کہ وہ ناسمجھ ہوتے ہیں۔ موبائل کی گیمز اور کارٹون انہیں اتنا مصروف کر دیتے ہیں کہ ان کا دھیان اپنی اور اپنے کمرے کی صٖفائی کی طرف نہیں جاتا۔‘‘ والنٹ نے سمجھایا۔ وہ ویسے بھی ان چاروں سے عمر میں کچھ بڑا تھا اور زیادہ سمجھدار بھی۔

شکر تھا کہ بوبو بھالو گہری نیند سو رہا تھا۔اس کی آنکھ ابھی تک نہ کھل سکی تھی۔

اب والنٹ کی باری تھی۔ اس نے  موبائل کی سیٹنگ  میں جاکر کچھ  settingsکیں۔  اپنے ساتھ لائے ہوئے موبائل سے ایک آڈیو بھی بلو ٹوتھ کے ذریعے بوبو کے موبائل میں منتقل کیا۔پھر دوبارہ کچھ سیٹنگ کی جس میں لیفٹی نے بھی اس کی مدد کی اور موبائل کو دوبارہ بوبو کے سرہانے رکھ دیا۔

لیفٹی نے ہینڈ فری موبائل میں دوبارہ لگائی لیکن یہ کیا۔ تار اندر جاہی نہیں رہی تھی۔

’’کھچ۔۔ کچ!!‘‘ کی آوازیں آئیں تو بوبو بھالو نے نیند ہی میں موبائل کو ہاتھ میں پکڑا اور کروٹ لے لی۔

’’یہ۔۔ کیا!‘‘

’’تم پن کو چارجر والے سوراخ میں ڈال رہے تھے۔‘‘ جیلو نے غصے سے سرگوشی کی۔

’’اب کیا کریں؟‘‘ لیفٹی نے کان کھجایا۔

جیلو نے کچھ سوچا اور بوبو بھالو کے بازو سے جمپ لگا کر اس کے پیٹ کے پاس پہنچ گیا۔ ہینڈ فری کی تار اس کے منہ میں تھی۔ اس نے جلدی سے تار کی پن سوراخ میں ڈالی اور جمپ لگا کر بیڈ سے نیچے اتر آیا۔

شکر تھا کہ بوبو بھالو گہری نیند سو رہا تھا۔

ابھی وہ بوبو بھالو کے بیڈ کے ساتھ کھڑے اگلے اسٹیپ کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک بوبو بھالو گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔وہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔ پہلے تو وہ ہینڈ فری سے کچھ سنتا رہا پھر اس نے گھبراہٹ میں بیڈ سے نیچے چھلانگ لگائی  تو موبائل  سے ہینڈ فری کھنچ کر اتر گئی اور سارے کمرے میں آوازیں گونجنے لگیں۔

’’ہو ہو ہاہاہا!! وہ کون ہے جس نے مجھے یاد کیااااا۔ہو ہو ہاہاہاہاہا!!‘‘

’’یہ یہ کیا!! کیا تم نے  3:45 کا الارم نہیں لگایا تھا؟‘‘ جیلو نے بوکھلا کر والنٹ سے پوچھا۔وہ چاروں بیڈ کے نیچے ایک پائے کے ساتھ لگے کھڑے تھے۔

’’الارم میں نے لگایا تھا۔۔۔ وہ میں۔۔ کنفیوز ہو گیا تھا اور میں نے  شاید۔۔ 3 کی بجائے 2:45 لکھ دیا تھا۔‘‘

لیفٹی نے کان کھجاتے ہوئے بتایا تو سب نے سرپیٹ لیا۔

مائسی نے ذرا سا سر نکال کر دیکھا۔ بوبو بھالو ڈر کے مارے کبھی یہاں جاتا کبھی وہاں۔ پھر وہ بھاگ کر دروازے کے پاس گیا تو وہ بند تھا۔ اس نےادھر ادھر چابی کی تلاش میں نظر دوڑائی۔

اس سے پہلے کہ وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے کپ کی طرف آتا، جیلو نےبجلی کی سی تیزی سے جمپ لگائی اور کپ سے چابی اٹھاکر واپس بیڈ کے نیچے پہنچ گیا۔ بھالو اپنی پریشانی میں جیلو کو نہیں دیکھ پایا تھا۔

اچانک ہو ہو ہاہا کی آوازیں ، بدل گئیں اور اب ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر کمرے کی طرف آرہا ہو۔ موبائل پر ایک سرخ رنگ کے جن کی تصویر بھی آرہی تھی جس کے سینگ بہت بڑے تھے۔

بوبو بھالو ڈر کے مارے موبائل کو اٹھا بھی نہیں رہا تھا۔اس کو بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

مارے خوف کے  وہ اپنی لکڑی کی الماری میں گھس گیا۔ ابھی وہ تیز تیز سانس لے ہی رہا تھا کہ الماری کے ایک پٹ پر دستک ہوئی۔

’’ٹھک! ٹھک!!‘‘ پھر ناخنوں کے  لکڑی پر زور زور سے رگڑنے کی آواز آئی۔

’’کھڑینچ۔چ۔چ۔چ! ڑینچ چ چ چ چ!‘‘


(جاری ہے)