ریحان اور چیونٹیوں کا جزیرہ ۔ 3

 


(تیسری قسط)

بحری جہاز کو سفر کرتے دو دن ہو چلے تھے۔اب ایک دن کا سفر رہ گیا تھا۔آج شام سے ہی لہریں جہاز کو ادھر ادھر دھکیل رہی تھیں۔ جہاز کی رفتار میں کافی فرق آگیا تھا۔ شاید سمندری طوفان بس آیا ہی چاہتا تھا لیکن دادا ابو کے خیال میں یہ کوئی خطرے کی بات نہیں تھی ۔ بحری جہاز کے سفر میں ایسے طوفان معمول کی بات تھی۔

نہ جانے کیوں ریحان کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔  جب بھی جہازہلکے ہلکے  ہچکولے کھاتا، اس کا دل بھی اندر ہی اندر ہچکولے کھانے لگتا۔ طبیعت الگ متلا سی رہی تھی۔

’’امی! کچھ بھی کھایا نہیں جا رہا۔‘‘

امی نے جب تیسری بات اسے کھانا ختم کرنے کو کہا تو ریحان نے بے چارگی سے کہا۔

’’اچھا! چلو! دیکھو! تھوڑا سا اور ۔۔۔۔‘‘

ابھی امی کی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ جہاز زور زور سے اوپر نیچے ہونے لگا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی طاقت اتنے بڑے جہاز کو ماچس کی ڈبی کی طرح اچھال رہی ہے۔

ریحان کے ابو،خضر صاحب نے ریحان کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ وہ بہت خوفزدہ تھا۔


’’دیکھو بیٹا! میری بات غور سے سنو! جب بھی تمھیں لگے کہ تم بہت بڑی مصیبت میں اکیلے رہ گئے تو یاد رکھنا۔ کوئی مصیبت تمھارے پیدا کرنے والے رب کی رحمت سے بڑی نہیں ہوتی۔ ہمیشہ اسی کو یاد کرو اور پریشانی میں اسی سے مدد مانگو۔‘‘

ابھی ریحان نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک عجیب سا سائرن بجنے لگا۔

’’شوںںں! نوں ں ں! شوں! نوںںں!!‘‘

دادا ابو گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔

’’ارے یہ۔۔ یہ کیا!‘‘

’’تم لوگ احتیاطاً لائف جیکٹ پہن لو۔ میں کیپٹن اکرم سے معاملہ معلوم کر کے آتا ہوں۔‘‘

اتنا کہہ کر  دادا ابو نے جلدی جلدی  اپنی لائف جیکٹ پہنی اور کیبن سے نکل گئے۔

تھوڑی دیر بعد ہی وہ تقریباًبھاگتے  ہوئے واپس آئے۔

’’جلدی کرو۔ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ انجن میں نہ جانے کیسے  خرابی واقع ہو گئی ہے۔ نچلی منزل میں پانی اکٹھا ہو رہا ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر دادا ابو نے سامان اٹھایا۔ کچھ سامان ریحان کے امی ابو نےاٹھایا۔پھر دادا ابو نے ریحان کا ہاتھ پکڑا اور کیبن سے باہر آگئے۔

’’فکر کی بات نہیں ہے۔‘‘ دادا ابو اوپر والی منزل کی سیڑھیاں تیز تیز چڑھتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ ’’جہاز پر مسافروں کی تعداد کے مطابق ایمرجنسی کشتیاں دستیاب ہیں ۔ اب تک ملازموں نے وہ کشتیاں رسے سے کھول کر دریا  میں لٹکا دی ہوں گی۔‘‘

’’لیکن دادا ابو ہم ان میں بیٹھیں گے کیسے؟‘‘

کشتیوں کا سن کر ریحان کو ایک اطمینان سا ہوا تھا۔

’’ایمرجنسی سیڑھیاں لٹکا دی گئی ہیں بیٹا! تم نے حوصلہ نہیں ہارنا۔ بہت احتیاط سے پاؤں جما جما کر نیچے اترنا ہے۔‘‘ دادا ابو کی بجائے خضر صاحب نے جواب دیا ۔ دادا ابو اب آگے بڑھ کر کیپٹن اکرم سے کوئی بات کرنے میں مصروف تھے۔

جب تک تمام مسافر عرشے پر پہنچے، نچلی والی پوری منزل  پانی سے بھر گئی تھی۔ طوفانی لہریں ابھی کچھ ٹھہر گئی تھیں جس کی وجہ سے کشتیوں میں اترنا آسان ہو گیا تھا۔

ریحان نے ریلنگ سے جھک کر دیکھا۔ بیسیوں سبز کشتیاں جہاز کے ساتھ ساتھ بندھی آگے پیچھے ہو رہی تھیں۔ سرخ رنگ کی سیڑھیاں جن پر ریسکیو لیٖڈرلکھا ہوا تھا جہاز کے ساتھ لٹک رہی تھیں۔

طوفان تقریباً تھم سا گیا تھا۔ پھر ایک ایک کر مسافر ریسکیو سیڑھیوں سے اتر اتر کر کشتیوں میں بیٹھنے لگے۔ ہر سیڑھی کے پاس مسافروں کی قطاریں تھیں۔ دادا ابو ، امی ، ابو اور ریحان سب بے چینی سے اپنی باری کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ امی نے ریحان کا ہاتھ سختی سے تھام رکھا تھا۔

ابھی آدھے مسافر ہی کشتیوں میں بیٹھ پائے تھے کہ سمندر کی لہریں دوبارہ سے اونچی ہو نے لگیں۔ جہاز کے ملازم اور کپتان بار بار اعلان کرنے لگے  کہ مسافر کشتیوں میں بیٹھنے میں جلدی کریں۔

بچو! ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ منٹوں میں لہریں جہاز کے عرشے تک پہنچنے لگیں۔ جہاز یوں ڈولنے لگا جیسے کوئی ننھا پیالہ تالاب میں ہچکولے کھارہا ہو۔ مسافروں میں چیخ و پکار مچ گئی۔ جب لہریں لوگوں کی گردنوں سے بھی اونچی ہو گئیں تو کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ جہازکبھی دائیں کبھی بائیں طرف سے پورا اٹھ جاتا اور لوگ تنکوں کی طرح جہاز سے نیچے پھسلتے رہے اور لہریں ان کو مزید دور لے جانے لگیں۔ ریحان کی آنکھوں ، منہ اور ناک میں بے تحاشا نمکین پانی چلا گیا تھا۔ آخر اس نے ہوش و حواس کھو دیے ۔ بے ہوش ہونے سے پہلے  جو آخری بات اسے یاد تھی وہ یہ تھی کہ اس کا ہاتھ امی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ خود امی ابو اور دادا ابو کا کیا بنا، یہ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔