گڈے نے جلدی سے نیپکن سے ہاتھ پونچھے
اور کرسی کھینچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’یہاں آئیں میرے ساتھ!‘‘
وہ پیانو کو واش روم کی طرف لے گیا۔
پیانو سے ہلکی ہلکی آوازیں ایسے آرہی تھیں جیسے وہ درد میں ہو۔ ابھی گڈا
واپس ڈائننگ روم میں پہنچا ہی تھا کہ ایک
دو تین والے بلاکس ادھر ادھر لڑھکنے لگے۔ انہوں نے بھی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا
تھا۔
’’آہ!آہ! ہمارے پیٹ میں درد ہو رہا
ہے۔ باربی آنٹی! ایسا تو پہلے کبھی نہیں
ہوا۔‘‘
’’کیوں؟ کیوں نہیں ہوا۔ یاد نہیں ہے
کہ‘‘ ایک بلاکس جس پر 10 لکھا ہوا تھا جلدی سے بولا۔
’’جب ہم نے خراب بریڈ چائے کے ساتھ
کھا لی تھی تو ایسا ہی درد ہوا تھا۔ ‘‘
اتنا سننا تھا کہ سبھی بلاکس اچھل
اچھل کر کرسیوں نے نیچے اتر آئے۔
’’اوہ! اوہ! تو آپ نے ہمیں خراب اور پرانی
بریڈ والے برگر کھلائے ہیں؟‘‘ وہ ناراضگی سے پوچھنے لگے۔
’’نن نہیں! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ ‘‘
باربی ڈول گھبرا کر بولی۔ برگر میں سے ایسے کچھ بو تو آئی تھی لیکن وہ خاموش رہی
تھی کہ ان کے علاوہ اس کے پاس اور کچھ تھا بھی تو نہیں۔
تھوڑی دیر بعد ٹیڈی بئیر کو بھی متلی ہونے لگی۔ وہ فرنچ فرائز کھاتا رہا تھا لیکن
لگتا تھا یہ بھی پرانے تھے۔
بندر اور چھوٹی گڑیا تو کب کے اٹھ کر
گھر چلے گئے تھے کیونکہ ان کو اپنی طبیعت
خراب سی محسوس ہونے لگی تھی۔ انہوں نے باسی اسپیگٹی کھا لی تھی۔
جب سب کھلونے اٹھ کر برے برے منہ
بناتے اپنے گھروں کو چلے گئے تو باربی ڈول
کرسی پر بیٹھی رہ گئی۔ وہ بہت اداس اور شرمندہ لگتی تھی۔ گڈا بھی اپنی جگہ پریشان
تھا۔
’’ سبھی کھلونے مجھ سے بات نہیں کریں
گے ۔ اور ہر جگہ مشہور ہو جائے گا کہ گلابی گڈا باسی کھانوں کی دعوت کرتا ہے۔‘‘
گڈا یہی سوچ رہا تھا۔
’’ہائیں! کیا دعوت ختم ہو گئی؟‘‘
اچانک کھڑکی سے آواز آئی۔ دونوں نے جلدی سے اس طرف دیکھا تو سبز ڈائنو سار کھڑکی
سے اندر جھانک رہا تھا۔
’’اچھا! چلو! کوئی بات نہیں! کیا ٹھنڈ
ا پانی مل جائے گا؟‘‘
ڈائنو سار نے اپنی دم سمیٹی اور
پوچھا۔
’’ کیوں نہیں! ‘‘ باربی ڈول بولی۔ گڈے
نے پانی کا گلاس کھڑکی میں سے ہی ڈائنو سار کو پکڑایا جو اب باہر گھاس پر بیٹھا
ایک تنکا اپنے دانتوں میں مار رہا تھا۔
’’ایسا لگتا ہے تم کھانا کھا آئے
ہو۔‘‘ گڈے نے پوچھا۔
’’آں ہاں! سفید گڑیا نے ا ٓلو گوشت بنایا
تھا۔مجھے بھی بلا رہی تھیں۔ تو میں وہیں چلا گیا۔ لیکن!‘‘
’’گڑیا آپا ہمارے گھر کیوں نہیں
آئیں۔‘‘ باربی ڈول نے پوچھا۔
’’ان کے مہمان آئے ہوئے تھے۔ دو ننھے پلاسٹک کے مگرمچھ جو بہت ہی شرارتی ہیں۔
اف! میری دم کھینچ کر رکھ دی۔‘‘
ڈائنو سار نے اپنی دم پر ہاتھ پھیرا
اور پھر کہنے لگا۔
’’ایک بات کہوں! اگر تم برا نہ مانو۔‘‘
’’ہاں ہاں! کہو!‘‘ اتنا کہتے کر باربی
ڈول اور گلابی گڈا کھڑکی میں جھک آئے۔
’’ریسٹورینٹ سیٹ کے شیف کو میں نے ہی
چھٹی پر جانے کا مشورہ دیا تھا۔ ‘‘
’’کیا! کیا!‘‘ باربی ڈول اور گڈا چیخ
اٹھے۔ پھر وہ جلدی جلدی گھر سے باہر آنے
لگے۔
’’ٹھہرو! میں تمھاری خبر لیتا ہوں نان
سینس ڈائنو سار۔‘‘
’’بالکل! تم خود کو سمجھتے ہو۔ ہمیں
اتنی شرمندگی اٹھانی پڑی اور تم۔۔‘‘
باربی ڈول یہ کہتے کہتے رک گئی کیونکہ وہاں گھاس پر
اب ڈائنو سار موجود نہیں تھا۔ وہ جا چکا تھا۔
’’ہاہ
! ہاہ! شاید وہ چاہتا تھا کہ ہم اپنے ہاتھ سے کھانا بنائیں جو بے شک بہت سادہ ہوتا
لیکن صحت مند تو ہوتا۔ ‘‘ گڈے نے وہیں گھاس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں!
کاش ہم ایسا کر لیتے ۔ اور اتنے سارے کھلونے ہم سے ناراض تو نہ ہوتے۔‘‘ باربی ڈول
بھی سوچنے لگی۔
’’بالکل!
بالکل!‘‘ کہیں قریب سے ڈائنو سار کی آواز دوبارہ آئی تو دونوں اچھل ہی پڑے۔
’’تم
! تم یہیں ہو۔ ‘‘
’’ہاں! لیکن اب واقعی جا رہا ہوں۔ تم ضرور سوچنا کہ
آج تم نے کیا کیا۔‘‘
باربی
ڈول اور گڈا کچھ دیر گھاس پر کھڑے رہے پھر آہستہ آہستہ قدموں سے چل کر گھر کے
اندر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی
رات کھانے کی دعوت ٹرین کے انجن کے گھر
تھی۔ اس کے کئی ڈبے رات دس بجے سے مصروف ہو گئے۔ کوئی دیگچی اٹھا کر لا رہا ہے تو
کوئی چائے دانی کو صاف کپڑے سے پونچھ رہا ہے۔ کوئی مرچ مصالحہ چکھ رہا ہے تو کوئی
نوڈلز میں ڈالنے کے لیے چائنیز نمک کا حساب پوچھ رہا ہے۔