قرآن کیا ہے



 میرے لیے سب سے مشکل دن وہ ہوتا ہے جب میں تلاوت نہ کر سکوں۔ جیسے مجھے ایسے لگتا ہے دل گھٹ رہا ہو۔ کچھ بہت ضروری تھا جو نہیں ملا۔ بھلا ہو آڈیو قرآن کی apps بنانے والوں کا، میرے جیسے کتنے لوگوں کا بھلا کر دیا۔ 

آج جب رات کی خاموشی میں میں نے سورہ یوسف سنی۔۔۔ 

الٓرٰ‌ ۚ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ الۡمُبِيۡن۔ نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ‌ۖ وَاِنۡ كُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِهٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِيۡنَ‏۔ نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ‌ۖ وَاِنۡ كُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِهٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِيۡنَ‏۔ 

آئے ہائے! کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم اتنا میٹھا کلام اتنا احسن اتنا خوبصورت کلام سن رہے ہیں کہ روح و جسم کا ذرہ ذرہ شاد ہو رہا ہے۔۔ 

کیا آپ تصور میں وہ وقت دیکھ سکتے ہیں جب ایک عظیم رب یہ کلام یہ سورہ یوسف ارشاد فرمارہا ہے پھر شان والا جبرائیل نیچے اتر کر ایک نورانی چہرہ نورانی وجود نورانی ذات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو یہ قرآن سنا رہا ہے۔۔ پھر اللہ کے وہ محبوب رسول وہ شفیق و مہربان رسول یہ عظمت والا کلام جاں نثار و فرمانبردار صحابہ کو سنا رہے ہیں۔ صحابہ سن کھڑے ہیں یوں کہ حرکت ذرا نہیں۔ عرب ششدر ہے ہر ہر بار جب بھی یہ کلام اترا۔ بلاغت و فصاحت والے صحابہ زبان پر عبور در عبور رکھنے والے صحابہ ایک امی نبی کے لب مبارک سے نکلنے والا کلام سن رہے ہیں۔۔ اس عالم میں کہ خود عاجزی و انکساری کی اصطلاحات بھی ہاتھ چھوڑ کر کھڑی ہو جائیں۔

سوچیں تو سہی۔۔ تصور تو کریں۔۔ غور تو کریں جب آپ قرآن کو اگنور کر دیتے ہیں، تلاوت چھوڑ دیتے ہیں تو basically آپ نے کیا miss کر دیا ہے؟ آپ نے یہ سارا منظر یہ ساری feeling مس کر دی ہے۔


 

یہ وہ قرآن ہے جس کو لینے سے ہمالیہ نے ماونٹ ایورسٹ نے  راکا پوشی نے نانگا پربت نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔

و لو انزلنا ھذا القران علی جبل لرایتہ خاشعا متصدعا من خشیت اللہ

اور یہ وہ قرآن ہے جو آپ کے ریک پر پڑا پڑا گرد آلود ہو گیا ہے کیونکہ آپ سمجھ نہیں پائے اس کی عظمت کو اس کے نور اور ہدایت کو اس کی شان اور بڑائی کو جس کو ایک پتھر سے بنے وجود نے سمجھ لیا تھا جان لیا تھا مان لیا تھا اور ریزہ ریزہ ہونے پر آ گیا تھا وہ۔

یہ قرآن کس نبی پر اترا؟ وہ کون تھے، کیسے دکھتے تھے، کیسے بات کرتے تھے، وہ کون سے لمحات ہوتے ہوں گے جب یہ قرآن اترا ہو گا تو یوں لگتا ہو گا وقت تھم گیا ہے۔ ہوائیں ساکن ہیں اور فضائیں ساکت کہ کائنات کا خالق و مالک اپنے محبوب تک اپنا پیغام پہنچا رہا ہے۔ 

دنیا تو سبب کی دنیا ہے۔ سو قاصد اور بڑی شان والا قاصد آتا رہا کلام سناتا رہا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسا وقت آیا جب اس قاصد نے ہاتھ کھڑے کردیے بے بسی ظاہر کر دی پر جلنے کا خدشہ بتایا۔ 

یہ وہ وقت تھا جب حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ سدرہ المنتہی پر کھڑے تھے اور جبرائیل کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! میں اب بس! 

پھر Doppler Affect شروع ہوا۔ آہا! Source  سے آنے والی ہر ہر چاہت بھری wave کی crest اور محبت و ملاقات کا اشتیاق پہلے سے بھی زیادہ۔فریکوئنسی بڑھتی گئی، ویوز تیز ہوتی گئیں اور فاصلے سمٹنے لگے۔ 

حتی دنا فتدلی۔ فکان قاب قوسین او ادنی۔

آہا! آئے ہائے! کیا ہوتا ہے یہ doppler affect۔ 

اس تھیوری کے مطابق سورس سے آنے والی ویوز آبزرور تک کچھ اس طرح پہنچتی ہیں کہ ہر ویو کی کرسٹ یعنی اونچائی پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ آتی ہے، وقت سمٹنے لگتا ہے حتی کی آبزرور کی ویوز اور سورس کی ویوز آپس میں اتنا قریب آجاتی ہیں کہ then the waves bunch together 

جب میں نے یہ bunch together کے الفاظ پڑھے تو آپ یقین کریں کہ مجھے اتنا مزہ آیا کہ بس۔ ابھی تک میں اسی سرور میں ہوں۔

میرا دل میرا ذرہ زرہ عاجزی بھری خوشی کے ساتھ سربسجود ہوجاتا ہے جب میں سوچتی ہوں کہ میں "حتی دنا فتدلی" اور "فکان قاب قوسین او ادنی" والے نبی کی امتی ہوں۔

میں اس نبی کی امتی ہوں جو میرے لیے رو کر گیا۔ جس نے جب بھی ہاتھ اٹھائے میرے لیے دعا مانگی۔ جس نے میرے لیے اتنی فکر کی کہ قرآن کو اتر کر تسلی دینی پڑی۔ جو مجھ سے میرے والدین میرے سب رشتہ داروں سب دوستوں سے زیادہ پیار کرتا تھا جو میرے سب اپنوں سے زیادہ اپنا تھا اپنا ہے اور اپنا رہے گا۔

میرا دل اداس ہو جاتا ہے جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلتے دیکھتی ہوں اور آپ فرما رہے ہیں۔ 

"اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔"

اللہ اکبر۔ قرآن قربانی مانگتا ہے۔ قرآن کے نظام کو دین اسلام کو گھر بیٹھے نافذ نہیں کیا جاتا۔ ہجرت کی داستانیں، پہاڑ کی سختی اور پاوں کے چھالے، سانپ کا ڈسنا اور ثور کے قصے، راستوں کے سردگرم اور دشمن کے مقابلے میں توکل علی اللہ کے حوالے رقم کرنے پڑتے ہیں۔تب کہیں جا کر طلع البدر علینا سے لے کر لاتثریب لکم الیوم کا سفر طے ہوتا ہے اور اذا جاء نصر اللہ و الفتح کی منزل سامنے آتی ہے۔ 

ہاں میں اس نبی کی امتی ہوں جس نے اسلام کے دین کی system کی بنیاد رکھنے کے لیے میرے و آپ تک اسلام کا نور پہچانے کے لیے اپنا گھر اپنا شہر اپنے شفیق چچا کی قبر اپنی محبوب خدیجہ کی مٹی چھوڑ دی، اپنی وہ گلی آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ سلم کو یاد تو آتی ہو گی جہاں چھ سال کا محمد دادا کی انگلی پکڑے خراماں خراماں چلا جا رہا ہے۔ وہ گھر تو یاد آتا ہو گا جہاں سے آواز آتی تھی کہ میرا بھتیجا جب تک کھانا نہیں کھائے گا میں بھی نہیں کھاوں گا۔ وہ راستے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کیا بھول گئے ہوں گے جب ایک مالدار و مہربان پر اخلاق سی خاتون خدیجہ کا مال تجارت لے کر شام گئے واپس آئے۔

ایک بار جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا تو پھر لوٹ کر تب گئے جب فاتح مکہ تھے۔ آہ! اونٹنی پر ایسی انکساری سے جھکے ہوئے ہیں کہ کیا بتاوں۔میں اور آپ ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو فورا سوچتے ہاں یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں نے دوران نماز اوجھڑی ڈال دی تھی جہاں کانٹے بچھائے گئے تھے جہاں کے سنگدل باسیوں نے بیٹیوں کی طلاق کا دکھ صرف اس لیے دکھایا تھا کہ آپ ایک رب کی طرف بلاتے تھے۔ ہاں ہاں ہم تو فورا کہہ اٹھتے کہ یا رسول اللہ۔ بس اپ کسی کو نہ چھوڑے گا اب۔ بس آج خیر نہیں ہے ان کی۔ آج باری آئی بدلہ لینے کی لیکن آواز آتی ہے۔ 

لا تثریب لکم الیوم۔ 

قرآن قربانی مانگتا ہے۔ اگر آپ اس کا نور اپنے اندر اتارنا چاہتے ہیں اس کا مفہوم دل و دماغ سے سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ قربانی دیں۔نفس کی قربانی دیں۔ اپنی نیند کی قربانی دیں۔ ریسٹ کی قربا ی دیں۔ اپنی بھوک کی قربانی دیں کہ خالی پیٹ انسان کی روح طاقتور ہوتی ہے اور خالی پیٹ آپ زیادہ عبادت و غور و فکر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ منہ کے ذائقہ کی قربانی دیں۔ نظر کے مزے کی، کانوں کی لذت قربانی دیں جسم کی راحت کی قربانی دیں۔ بس پھر قرآن کھول کر بیٹھ جائیں۔ اب قرآن صرف آپ کی آنکھ نہیں دیکھے گی بلکہ آپ کا کان بھی اس کا حرف حرف سنے گا آپ کا دل اس کی زبر زبر پر رکے گا آپ کا دماغ اس کی پیش پیش پر ٹھٹھکے گا۔ آپ کی انگلی لفظ لفظ پر غور کرنے لگے گی۔ آپ کی سوچ آیت آیت پر گہری تر ہوتی جائے گی۔اب قرآن صرف پانچ حواس سے نہیں بلکہ آپ کے جسم کے رواں رواں سے اتر کر آپ کی روح میں بستا چلا جائے گا۔ 

مسئلہ صرف یی نہیں ہے کہ ہم نے قرآن کو سمجھا نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو بھی قرآن سے دور کر دیا۔ یوں ایک ایسی نسل جوان ہو رہی ہے جو اپنے نبی ہی کو نہیں جانتی پہچانتی۔ اس نسل نے دجال کا مقابلہ کرنا ہے۔ کیا ہمارے بچے اس عظیم فتنے کے سامنے ٹک بھی پائیں گے؟ کیا یہ مسلمان بھی رہ پائیں گے یا ٹیکنالوجی کے خدا کو ہی سائنس اور جادو کے زیر اثر، کائنات کا خالق و خدا مان لیں گے؟ سوچنے، پلاننگ کرنے اور ابھی سے عمل شروع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔