امی ‏ابو ‏کا ‏گھر

پھر یوں ہوا کہ وہ گھر وہ اینٹوں بجری سے کھڑی ہوئی عمارت غیروں کے تصرف میں چلی گئی جسے ہم چاروں بہنیں امی کا گھر کہتی تھیں۔ وہ جہاں جانا سکون کا باعث وہ جہاں جا کر رہنا دل کی خوشی وہ جہاں جا کر سانس لینا دھڑکنوں کی تازگی کا باعث بنتا تھا وہ گھر بک گیا۔ 

ایک ماہ ہوا سوچتی ہوں کہ امی ابو کا گھر بک جائے وہ مکان جہاں آپ کا بچپن تاحال خوابوں میں کھیلتا کودتا ہوا ہو ہمیشہ کے لیے کسی اور کے تصرف میں چلا جائے تو ان احساسات کو ان کیفیات کو لکھنے والا قلم کہاں سے ملتا ہے؟ کیا کوئی ایسی روشنائی ایجاد ہوئی اب تلک جس کے پاس آنسووں اور دل کی ان کیفیات کو قلم بند کرنے کا جگرا ہو؟ نہیں! 
چلو! گھر ویسے بھی امی کے بغیر ادھورا لگتا تھا لیکن امی وہاں تھیں۔ میرا یقین کریں امی وہیں تھیں۔ وہاں کے ایک ایک

 کمرے میں وہاں کے برآمدوں میں وہاں کے چھت پر امی تھیں۔ ہاں وہیں تھیں۔ اوپر والے کچن میں کھڑی ہوئی کھانا پکاتیں پسینے سے بال گردن پر چپکے ہوئے، پھر جلدی جلدی کپڑے نکال نہانے کے لیے جاتی ہوئیں پھر جائے نماز بچھا کر ہمیں نماز کے لیے آواز دیتیں بڑی امی سے کسی بات پر بحث کریں باباجی کو کوئی بات سمجھاتیں چھت پر سے کپڑے اتار کر لاتیں ۔۔ امی وہیں تھیں۔ یہ میرے بچپن کی امی تھیں جب ہم بڑے ہوئے تو امی کے مسئلے اور پریشانیاں بھی شاید ہمارے ساتھ ہی بڑی ہو گئیں۔ پھر وہ ان کا حل لمبی لمبی نمازوں اور دعاوں میں تلاش کر لیا کرتی تھیں۔ جو بھی مسئلہ ہوتا امی کہتیں مونی میں نے دعا کی ہے انشاءاللہ بہت جلد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 
پتہ نہیں وہ دوا والی سبز باسکٹ کیسے امی کے سرہانے دھر آئی جو ہم نے اپنے بچپن میں تو کبھی نہ دیکھی تھی۔ ہاں ہماری شادیوں کے بعد وہ گولیوں سے بھری ہوئی باسکٹ امی کی دوست بن گئی۔ 
معذرت چاہتی ہوں گھر پر لکھنا تھا امی کی یادیں قلم پر آتی ہی گئیں لیکن کیا گھر بھی کوئی امی کے بغیر ہوا کرتے ہیں؟ گھر اور امی۔ امی اور گھر۔ لازم و ملزوم ہیں۔ 
جب امی فوت ہوئیں تو میں نے پہلی بار رات کے دس بجے بڑے گیٹ کے دونوں پٹ کھلے ہوئے دیکھے۔ ڈیوڑھی تک آئی لال کرسیاں اور اس ویرانی اور اندھیرے کو مٹانے کی ناکام کوشس کرتا ہوا ایک بلب جو ویرانی ہماری زندگی میں امی کے جانے سے ٹھہر گئی تھی۔ کم بخت جانے کا نام ہی لیتی۔ بھلا جائے بھی کیسے۔ روشنی تو امی کے صبیح چہرے ان کی مسکراہٹوں اور ان کے دعاکے لیے اٹھے ہاتھوں سے پھوٹتی تھی۔ اجالے تو ان کی چادر میں اور خوشبوئیں ان کی گود میں بسی ہوئی تھیں۔ 
سوچتی ہوں گھر بک گیا امی ہوتیں تو کیا سوچتیں کیا کرتیں۔ بھلا ان سخت دنوں کو یاد نہ کرتیں جب تن تنہا پانچ بچوں اور اپنے والدین کو کرائے کے گھروں میں سنبھالے پھرتی تھیں کہ ابو تو یہاں تھے ہی نہیں۔ یہ روزگار بہت بڑا قاتل ہوتا ہے کبھی کبھی۔ میاں بیوی کے درمیان کی خوشیاں بچوں سے باپ کی شفقت و محبت کے سب یادگار لمحات چھین کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ پھر عید آئے یا طوفان۔ امتحان میں اچھے نمبر آئیں یا کوئی حادثہ۔ بچوں کی امی ان کے ابو بن جاتی ہیں۔ خیر میرے پاس ان دنوں میں میری اپنی امی بھی تھیں میری بڑی امی (نانی جان) بھی اور باباجی (ناناجان) بھی۔ 
آہا! نئے اور اپنے گھر میں آکر ہم سب کتنا خوش تھے۔ امی بار بار بڑی امی باباجی سے ڈسکس کرتیں کہ کون سا کمرہ کس بچے کو دینا ہے جب کہ ہمیں رضائیوں تلائیوں کے ڈھیر سے سلائیڈ مار کر نیچے آنے سے ہی فرصت نہیں تھی۔ بس ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ اب یہاں سے ہمیں کوئی نکال نہیں سکے گا۔ نہ ہی یہاں پر مالکن ہمارے شور کرنے پر ہمیں ڈانٹنے اور امی اور بڑی امی سے لڑائی کرنے اوپر آئے گی نہ ہی اس گھر کا چھت ہمارے لیے شجر ممنوعہ ہو گا کہ جہاں ہم جا کر کھل کر ایک سانس بھی نہ لے سکیں۔ 
بس! باقی یہ گھر کیسے خریدا معاملات کیسے طے ہوئے کس نے سائن کیے اور ڈاکیومنٹس کس کے پاس ہیں ہمیں اس سب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بھلا تیسری جماعت کی مونی اور ببو راجے (بھائیجن) کو کیا پتہ تھا ایک دن آئے گا جب ہم واقعی یہاں سے نکل جائیں گے۔ بھائیجن پڑھنے اور روزگار واسطے میں شادی کر یہ جا وہ جا۔
خیر! سترہ سالوں سے ہر ہفتے دوہفتے بعد امی کے گھر جانا ہوتا تھا۔ اب کہاں جاوں؟ کیا کوئی ایسی جگہ اور بھی ہے لوگو جہاں میری ماں کی خوشبو اور یادیں رچی بسی ہوں۔ کیا مجھے نئے خریداروں سے یہ کہنے کی اجازت ہے کہ وہ اس گھر میں وہ تبدیلیاں نہ لائیں جس سے اس کی ہیئت ہی بدل جائے۔ لیکن کوئی ایسا اسٹامپ پیپر نہیں لکھا گیا جس میں یادوں آوازوں اور مسکراہٹوں کو محفوظ رکھنے کی قسم دی گئی ہو۔
"مونی یہ درخواست میڈم کو دینی ہے۔" 
"لیکن کیوں امی؟" 
"ہم گھر کی شفٹنگ کر رہے ہیں ناں تو ایک دن کی چھٹی تو چاہئیے ہو گی۔" 
"ٹھیک ہے"
پھر وہ درخواست جو ٹھیٹھ اردو میں لکھی گئی تھی میں نے اپنی تیسری جماعت کی کلاس ٹیچر مس ریحانہ کو دی۔ وہ پڑھ کر مسکرانے لگیں۔ 
اگلے دن ٹرک پر سامان لادا گیا جو تھا ہی کتنا۔ دو سنگل بیڈ تو مجھے یاد ہیں باقی  لکڑی کی بڑی بڑی چارپائیاں اور وہ بان اور گدی والی کرسیاں اور شاید ایک آدھ لکڑی کا نسواری رنگ کا میز  اور بستروں کا ایک بڑا سا ڈھیر۔ ہم پانچوں کی کتابیں اور کاپیاں اس سب پر بھاری تھیں۔ پتہ نہیں مجھے تو ایسا ہی لگا! 
میں اور بھائیجن باباجی کے ساتھ ٹرک کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر مسلم ٹاون تک آئے۔ آہا! کتنا مزہ آیا تھا اس دن۔ ٹرک ڈرائیور ایک انگلی سے بھی ہینڈل موڑ لیتا تھا اور جب وہ سپیڈ بڑھاتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے ہم بادشاہ ہیں اور ساری دنیا کی چیزیں ہم سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ 
جب نئے اور اپنے گھر پہنچے تو اس سے زیادہ روشن دن اور اس سے زیادہ پیارا گھر مجھے کوئی اور نہیں لگتا تھا۔ وہ میرا گھر تھا میرے امی ابو کا گھر ہم سب کا گھر۔ 
امی پہلے سے ہانڈی بنا کر لائی تھیں۔ انہیں باہر کا کھانا کسی بھی صورتحال میں سخت ناپسند لگتا تھا۔ سو اج بھی سفید لوبیہ کی دال نے ہمارا استقبال کیا اور ہم نے خوشی خوشی کھالیا کہ ابھی اوپر نیچے سب کمروں میں دوبارہ چکر لگانے تھے سیڑھیوں سے تین تین سیڑھی کر کے چڑھنے کا مقابلہ کرنا تھا اور سب سے بڑی بات باباجی کے ساتھ بیڈ اور میزوں کو گھسیٹ کر ادھر ادھر کرنا تھا جو کہ سب سے مزے کا کام تھا۔ 

امی ابو کا گھر ۔ 2

نئے گھر آ کر جو چیز سب سے نئی اور انوکھی لگی وہ تھی ہوائی جہاز کی آواز اور اس کا رن وے پر لمبا سا موڑ کاٹنا۔ خدایا! کتنی اونچی آواز ہوتی تھی وہ۔ جیسے کہ طوفان ہی آ گیا ہو۔
رن وے ہمارے گھر کی چھت سے صاف نظر آتا تھا۔ صاف میں نے اس لیے کہا کہ اگر ہم وہ ٹوٹی ہوئی کرسی پر چڑھ کر دیکھیں تو۔ ایک طرف بھائیجن کھڑے ہوتے دوسری طرف میں یوں وہ بیلنس سی ہو جاتی اور ہم محویت سے دیر تک جہاز کو تکتے رہتے۔ 
بھائیجن کا ذکر میرے قلم پر بار بار کیوں آجاتا ہے؟ اس لیے کہ میرا تقریبا سارا بچپن ان کے ساتھ کھیلنے کودنے پڑھنے سکول جانے سے عبارت ہے۔ وہ مجھ سے ڈیڑھ سال بڑے ہیں لیکن ہم میٹرک تک ایک کلاس میں پڑھے۔ پھر وہ مدرسے چلے گئے میں تین سال بعد سسرال۔ لیکن وہ ساری شرارتیں ہمارے ذہنوں میں ابھی تک تازہ ہیں جو ہم نے امی سے چھپ کر کیں۔ گلی میں بنٹے کھیلنے سے لے کر آندھی میں شاپر کو امی کی مشین سے دھاگا چرا کر باندھنے اور اڑانے تک!
مجھے یاد ہے وہ لمبا چوڑا جہاز جو جب بھی اسٹارٹ ہوتا اور ایک لمبا یو ٹرن لینے کی تیاری کرنے لگتا، چڑیوں کے غول کے غول اس کی آواز سے ڈر کر اڑنے لگتے۔ ان کی چوں چوں کی آوازیں اور جہاز کا شور گڈمڈ ہو کر اداس سا ماحول بنا دیتے۔ اب وہ اونچے درخت وہ چڑیاں اور ان کا شور سنائی نہیں دیتا کہ سیکورٹی کے پیش نظر وہ سارا جنگل رن وے کے اردگرد سے تقریبا تقریبا ختم کر دیا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو فطرت سے خطرہ تھا سو سارے درخت کٹ کٹ کر گر گئے اور ان چڑیوں کے بسیرے بھی بکھر گئے جن کی آوازیں ہم صبح شام سنا کرتے تھے۔
امی کا گھر  یہ لفظ کتنا پیارا اور دل کو چھونے والا لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لڑکی کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ جی نہیں اس کے ایک نہیں دو دو گھر ہوتے ہیں۔ ایک اس کا سسرال ایک میکہ۔ ایک شوہر کا گھر جہاں وہ ملکہ ہوتی ہے ایک امی ابو کا گھر جہاں وہ والدین کی دھی رانی بھائیوں کی شاہزادی ہوتی ہے۔
ابھی ابھی خانی آیا تھا۔ بتا رہا تھا نئے خریداروں نے وہ کرایے پر دے دیا۔ چلو! چھٹی ہوئی۔ یادوں کی بھی اور ان آوازوں کی بھی جو وہاں گونجتی پھرتی تھیں۔ 
عاشی نماز پڑھ لو 
مونی برتن دھو دو 
فاتی فائزہ کے کپڑے نکالو 
ببو۔ بڑی امی کو کھانا دے آو 
خانی فزا کو تنگ نہ کرو 
اور بھی نہ جانے کیا کیا
وہ سب کچھ جو میں محسوس کرتی ہوں محفوظ رکھتی ہوں لیکن بتا نہیں سکتی کہ الفاظ کو وہ طاقت ابھی ودیعت نہیں ہوئی کہ دل کے جذبات کی سچی ترجمانی کر سکے۔ 
آج جب اپنے گھر کا کونہ کونہ سنوارتی ہوں ایک ایک چیز کو پیار سے سنبھال کر رکھتی ہوں کہ بار بار سوچتی ہوں جب ہم چھوٹے تھے تو امی کو بھی اپنا وہ گھر ایسے ہی پیارا لگتا ہو گا۔ امی کو بھی اس کے گوشے گوشے پر پیار آتا ہو گا۔ کھڑکیوں کے پردوں سے لے کر سیڑھیوں کے نیچے لگی پانی کی موٹر تک لیکن جب ہم بڑے ہوئے۔۔ تو ہمیں اسی گھر میں کئی کئی نقص نظر آنے لگے۔ 
امی یہاں سے پینٹ اکھڑ رہا ہے
امی یہ فرش ٹھیک نہیں لگ رہا
امی کھڑکی خراب ہے
امی یہ صحیح نہیں
امی وہ صحیح نہیں
لیکن کیا امی کو گھر کہیں سے بھی خراب لگتا تھا۔ نہیں بالکل نہیں۔ چاہے جو کچھ بھی ہوتا وہ ہمیشہ پیار سے ہی ہر چیز کو دیکھتیں کبھی کوئی شکوہ شکایت منہ سے نہ نکالتیں۔
مجھے یاد ہے مجھے اور بھائیجن کو پتھر اور سیمنٹ والی ٹھنڈی ٹینکی پر چڑھنے کا کتنا شوق تھا۔ اس کی ٹھنڈی سلوں پر چت لیٹ کر ہم نے کتنی بار غروب ہوتے سورج کو دیکھا اور کتنے ستارے گنے۔۔ آہ! اے وقت کاش وہ ایک رات ایک لمحہ ہی لٹا دے۔۔ 
ہاں وہ دن بھی یاد ہے جب پہلی بار اس چھت پر چڑھ تو گئی بھائیجن کے ساتھ۔۔ سیڑھیاں تو نہیں تھیں۔ ہم نے دیوار کے ساتھ پتہ نہیں کیا رکھا تھا۔۔ ہاں چارپائی کھڑی کی تھی شاید۔ پھر ایک پاوں اس پر ایک دیوار پر رکھا اور یہ لو۔ شیڈ سے سہارا لیا اور چڑھ بھی گئے۔ لیکن جب اندھیرا ہونے لگا اور امی کی آوازوں پر آوازیں۔ بھائیجن تو جلدی سے اتر گئے میں اوپر ہی کھڑی رہ گئی۔ رو رہی ہوں ڈر رہی ہوں کہ کیسے اتروں کیسے اس دیوار پر پاوں رکھوں جس کے اس پار ایک نظر ڈالنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ نیچے چارپائی کے ساتھ امی اور باجی کھڑی ہیں۔ باجی ڈانٹ رہی ہیں ساتھ ساتھ ہنسی بھی نہیں رک رہی لیکن امی! وہ دونوں بازو وا کیے کھڑی ہیں اور کہہ رہی ہیں۔ 
مونو کچھ نہیں ہوتا نیچے آجاو دیکھو یوں کر کے۔  نہیں کچھ نہیں ہوتا۔۔ میں پکڑ لوں گی۔۔ 
پھر درمیان میں غصہ کرنے لگتیں۔ 
کس نے کہا تھا اوپر چڑھنے کو۔ جلدی نیچے آو۔ نہیں گرتی ۔ آجاو بس۔
پھر تسلی دینے لگتیں۔ ہاتھ ایسے ہی پھیلائے ہوئے۔۔ 
تقریبا پونا گھنٹہ لگا مجھے ہمت جمع کرنے میں۔ امی کی شاید مغرب بھی قضا ہو گئی تھی لیکن جب میں نیچے اتری تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بس مسکرانے لگیں اور نیچے چلی گئیں۔ 
امی جی آپ کو کیا معلوم۔۔ جب سے آپ گئی ہیں میں بہت بار ڈری ہوں۔۔ ڈری کیا ہوں بلکہ نیچے گر ہی گئی ہوں۔۔ بہت چوٹیں لگی ہیں بہت درد ہوا ہے کہ کوئی تھا ہی نہیں یوں بازو وا کیے مجھے پکڑنے لگا مجھے تسلی دینے والا۔۔۔ آئےہائے لوگو! ماں کی قدر کرنا سیکھو۔ جب وہ چلی جاتی ہے تو دنیا کے باقی سب رشتے موجود سب رشتے سلامت پر کوئی دونوں بازو پھیلائے یہ کہنے والا نہیں ہوتا کہ کچھ نہیں ہوتا مونو میں ہوں ناں میں پکڑ لوں گی۔۔۔
مجھے نہیں پتہ میں گھر کے بارے میں لکھتے لکھتے امی کے بارے میں کیوں لکھنا شروع کر دیتی ہوں لیکن بس آخری ایک بات بتانا چاہتی ہوں۔۔ جب امی اچانک سے چلی گئیں۔۔ ہماری زندگیوں سے یوں خاموشی سے نکل گئیں کہ ہمیں ملک الموت کے آنے اور جانے کی کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔۔ تو میرا زندگی اور اس کی رونقوں پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ اور جب گھر بکا۔۔ وہ گھر جو میری عمر کے آدھے سالوں کا گواہ میرا ساتھی میرا دوست تھا جہاں میری امی کیا یادیں اور جہاں کے کونے کونے میں ان کی شبیہہ تھی۔۔ تو میرا اینٹوں اور ریت بجری سے بنی ہوئی عمارتوں سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے۔ کیا مل جاتا ہے چیزوں سے پتھروں سے پیار کر کے۔ رشتوں کی قدر کرنا سیکھیں جو آپ کے اردگرد موجود ہیں اور آپ کی توجہ اور محبت کے منتظر بھی۔ کیونکہ کب کون سا رشتہ ختم ہو کر روح میں بدل جائے اور آپ کو اس سے۔ملنے اور باتیں کرنے کے لیے قبرستان جانا پڑے، اس کا کسی کو نہیں معلوم۔ 
فائزہ کہتی ہے دیدی آپ خوابوں پر بہت یقین رکھتی ہو۔ میں نے کہا ہاں اگر امی خواب میں آئیں ہنستی مسکراتی مجھے گلے لگاتی تو وہ خواب حقیقت سے زیادہ سہانا لگتا ہے۔ جب میں نے روز سورہ بقرہ پڑھنا شروع کی تو امی تیسرے دن ہی میرے خواب میں آئیں۔ تب تک میرے ذہن میں نہیں تھا کہ پڑھ کر امی کو بھیجوں گی۔ بس ایسے ہی کچھ مسائل کے حل کے لیے کسی نے بتایا تو پڑھنے لگی۔ لیکن امی خواب میں آئیں مسکراتی مسکراتی۔ میرے کچن میں کھڑی ہیں اور فریج کھول کر جھانک کر کہہ رہی ہیں کہ مونی تیرے پاس کھانے کو اور کچھ ہے؟ پھر میرے پاس آتی ہیں اور اتنی دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا کہ میری روح تک میں ٹھنڈک اور سکون اتر آیا۔ میں خواب میں ہی باقاعدہ یہ سوچ رہی ہوں کہ ماں چلی بھی جائے تو بچوں کا دھیان رکھتی ہے ان کا خیال رکھتی ہے۔ یہ الفاظ یہ خواب مجھے پورا پورا یاد ہے کئی دن گزرنے کے باجود بھی۔ پھر اس دن کے بعد سے میں نے سورہ بقرہ خاص امی کے لیے پڑھنا شروع کر دی ہے۔ 
میری زندگی کا حاصل میرا ہر روز سورہ بقرہ پڑھنا امی کو بخشنا اور ان کا مجھے وہ بار بار مسکراتے ہوئے سینے سے لگانا ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا۔ 
امی کے گھر سے زیادہ امی کی قدر کریں۔ گھر بے جان ہوتے ہیں اور بے وفا بھی۔ امی کی وفا دنیا ڈھونڈ لیں نہیں ملتی نہ ملے گی۔ وہ زندہ رہ کر بھی محبتوں کے خزانے  لٹاتی ہیں جدا ہو کر بھی آپ کو پیار کرتی ہیں۔

مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو
بھی امی کہتی تھیں 
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں 
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا 
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں 
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں 
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں 
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں 
اک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
 ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں