سیما اور عجیب بستہ


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی کچھ عجیب سی ہے! وہ اس لیے کہ ہماری ننھی منی سیما کے دل میں بہت دنوں سے کچھ عجیب سی باتیں آ رہی تھیں۔
 

ہوا یہ کہ جب سے ننھی سیما نے وہ کارٹون دیکھے جس میں ایک سست سا موٹو بچہ سکول جانے سے گھبراتا تھا۔ ہاں! نہ صرف سکول جانے سے بلکہ وہ تو کوئی بھی محنت والا کام کرنے سے تنگ پڑجاتا تھا۔ ایک دن اس کے پاس کہیں سے ایک جادوئی بستہ آ گیا جو اس کا ہر کام بڑی آسانی کے ساتھ کر دیا کرتا تھا۔ 

بس جی! اس دن۔۔۔! اسی ایک دن سے ہماری ننھی منی سیما نے بھی سوچنا شروع کر دیا۔ 

"کیا ہی اچھا ہو اگر میرے پاس بھی جوجو (وہی جادوئی بستہ) آجائے! اف اللہ کتنا مزہ آئے!"

"ہئے! جوجو بستہ میرے کتنے ہی کام ہی کردے جیسے کہ۔۔۔ ہمم!"

اتنا سوچ کر سیما نے اپنی چھوٹی سی انگلی کنپٹی پر رکھی۔

 

"جیسے کہ میری سب گڑیوں کے بال بنا دے۔۔۔ اور انہیں اوپر والے شوکیس میں سجا کر رکھ دے! جیسے کہ۔۔ میری چائے والی چینک دھو کر اس میں اصلی والی چائے لا دے! آہا! پھر میں بھی دادا ابو کی طرح پرچ میں دو گھونٹ انڈیلوں گی اور مزے لے کر پیوں گی!"

"آہ ! جوجو بستہ! کاش میرے پاس بھی ہوتا!"

بچو! ننھی سیما تو جانے کتنی جوجو بستے کے بارے میں سوچتی رہتی اگر امی جان کی آواز نہ آجاتی۔ 

"سیما! کیا کر رہی ہو۔ آو دودھ کا گلاس پی لو۔"

سیما نے دودھ کا گلاس سن کر منہ بنایا اور اپنے آپ سے بولی۔

"ہونہہ! میں تو یہ دودھ کا گلاس بھی جوجو بستے کے اندر انڈیل دوں۔ پھر مجھے بالائی سے رات بھر ابکائی بھی نہیں آئے گی۔ ہاں تو اور کیا!" 

خیر! اس رات تو سیما عجیب و غریب سے خواب دیکھتی سوتی رہی۔ جب صبح اٹھی  تو معلوم ہوا۔ دانی چاچو آئے ہیں۔

دانی چاچو سائنس دان تھے۔ بہت مشہور تو نہیں لیکن ان کی کچھ چیزیں تو بڑی پسند کی گئی تھیں۔ جیسے کپڑے دھونے والا روبوٹ اور مریض کو ٹیکہ لگانے والی مشین جو مریض کا بازو ذرہ برابر بھی ہلنے نہیں دیتی تھی۔ 

تب سے سب بچے دانی چاچو کو سائنس دان چاچو کہتے تھے۔ 

اب یہ اتنا مشکل سا نام ننھی منی سیما کی زبان پر کیسے چڑھتا۔ ایک بار بہت کوشش کے باجود جب اسے منہ سے ساس پین چاچو نکلا تو دادی جان ناراض ہو گئیں۔ پھر امی نے اسے دانی چاچو سکھا دیا۔ 

"دانی چاچو! مجھے بھی جوجو بستہ بنا کر دیں جیسا صبح والے کارٹون میں موٹو بچے کے پاس ہوتا ہے۔

"ہائیں!" دانی چاچو کے منہ سے نکلا۔ 

پھر وہ کچھ سنبھل کر بولے۔ 

"ہاں تو۔۔ بس جائے گا! کچھ دنوں تک۔ لیکن اس کے کچھ نقصان بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ۔۔

لیکن مارے خوشی کے اچھلتی کودتی سیما نے بس "بن جائے گا" کے الفاظ سنے اور کمرے سے بھاگ گئی۔ 

"آہا! میرا جوجو بستہ! آہا میرا جوجو بستہ! جلدی سے آجائے!!" 

دلارے بچو! پیارے بچو! سیما کا جوجو بستہ جلد ہی بن کر آ گیا۔ سیما کی خوشی کی تو مانو کوئی حد نہ تھی۔

جوجو بستے کی دو بڑی بڑی آنکھیں بھوری مونچھیں اور لمبے لمبے بازو تھے۔ وہ اچھل اچھل کر چلتا تھا۔ وہ باتیں کرتا تھا باتیں سنتا بھی تھا اور وہ سب کام خوشی خوشی کرتا تھا جو اسے کرنے کا کہا جائے۔ 

لو بھئی! سیما کے تو مزیدار دن آ گئے۔ تین دن تک اس نے دودھ کا گلاس خود پینے کی بجائے جوجو کے پیٹ میں انڈیل دیا۔ جوجو نے بالائی والا دودھ مزے سے پیا اور خوب لمبی سی ڈکاریں لیں۔ ان تین دنوں میں سیما اور جوجو بستے نے خوب گپیں ماریں۔ ایک دوسرے کو لمبی لمبی کہانیاں سنائیں اور جن بھوتوں کی آوازیں نکال کر خوب ڈرایا۔ 

چوتھے دن سیما کو خیال آیا۔ 

"آج چھٹی کا دن ہے۔ جوجو نے بھی خوب آرام کر لیا ہے۔ کیوں نہ اس سے اپنی گڑیوں کے بال بنوا لوں۔ توبہ! یہ بال بنانا بھی کتنا مشکل کام ہے!" 

یہ سوچ کر سیما نے جوجو سے کہا۔ 

"اچھا آج ذرا میری تمام گڑیوں کے بال بنا دو۔ دیکھو دو دو پونیاں ہونی چاہئیں اور خوب کنگھا پھیر کر بنانا۔ کوئی الجھن اٹکن نہ آنے پائے۔ اور ہاں! میری گڑیوں کو درد بھی ہوتا ہے۔ اس لیے کنگھا دھیرے دھیرے چلانا۔"

جوجو بستے نے اتنا لمبا حکم بہت آرام سے سنا۔ اسے "بال بنا دو" کے علاوہ خاک سمجھ نہ آیا لیکن وہ اچھلتا کودتا گڑیوں والے شوکیس کی جانب بڑھا۔ 

ایک بازو سے جوجو نے شیشے کو پکڑا اور دوسرے بازو سے گڑیائیں اٹھا اٹھا کر فرش پر پھینکنے لگا۔ 

"ٹھاہ! ٹھس! ٹھک! ٹھاہ!" 

ساتھ ہی ننھی سیما کی آوازیں آنے لگیں۔

"ارے! ہائیں! ہاہ! ہئے ہئے! اوہ اوہ!!" 

اس نے جوجو کو بہتیری آوازیں دیں لیکن جوجو کی یہ ایک خامی تھی۔ وہ یہ کہ وہ حکم سن کر اپنے کان اندر کی طرف تہہ کر لیتا تھا۔ پھر جب تک وہ کام پورا نہ کر لیتا، وہ کوئی آواز سن نہیں پاتا تھا۔ سو اس نے سیما کی کسی ڈانٹ پر کوئی جواب نہ دیا اور جب سارا شوکیس خالی ہو گیا تب وہ نیچے اترا۔ 

اب اس کے ہاتھ میں کنگھا اور پونیوں والا ڈبہ تھا جو وہ شوکیس سے اتار کر لایا تھا۔ پہلے اس نے گلابی گڑیا کے بالوں میں سے تاج کے ٹکڑے نکالے جو نیچے گرنے کی وجہ سے ٹوٹ کر اس کے گھونگھریالے بالوں میں پھنس گئے تھے۔ 

پھر اس نے کھینچ کھینچ کر اس کے بالوں میں کنگھا پھیرنا شروع کیا۔ سیما کی آنکھوں کے سامنے اس کی گلابی گڑیا کے بال ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔ اب تو اس سے رہا نہ گیا۔ 

اس نے آگے بڑھ کر جوجو بستے کو دو ہتڑ رسید کیے اور اس سے کنگھا چھین کر کہنے لگی۔

"بد تمیز! کوئی ایسے کسی کے بالوں میں کنگھا پھیرتا ہے۔

پھر اس نے جوجو بستے کے وہ لمبے لمبے کان کھینچ کر باہر نکالے اور اس کے کانوں میں منہ دے کر زور سے بولی۔ 

"بس کرو۔ تم نے میری ساری گڑیوں کو نیچے پھینکا۔ کسی کا بازو ٹوٹ گیا کسی کا پاوں۔ اف خدایا!"

بچو! اس دن تو جیسے تیسے کر کے سیما نے بھیا کو کہہ کر گڑیوں کو ٹھیک کروا لیا۔ لیکن وہ اندر ہی اندر سوچنے لگی۔ 

"دانی ماموں نے نہ جانے کیا نقصان بتائے تھے جوجو کے۔

ایک صبح سیما کا گرم بستر سے نکلنے کو ذرہ برابر بھی دل نہیں تھا۔ اس نے سوچا۔ 

"کیوں نہ جوجو سے کہوں وہ میری جگہ جا کر گملوں کو پانی دے دے۔ ہئے ہئے! ٹھنڈ بھی تو کتنی ہے۔ پھر جوجو کو تو بالکل بھی نہیں لگتی۔"

"جوجو! اٹھو! جا کر پودوں کو پانی دے دو۔ دیکھو ہلکی پھوار ڈالنا۔اور امی کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ دھو کو کمرے میں آنا۔

جوجو نے صرف "پودوں کو پانی دے دو۔" سنا اور اچھلتا کودتا باہر نکل گیا. یہ اس کی دوسری خامی تھی۔ وہ صرف بات کا پہلا جملہ سنتا تھا اور بس۔ پھر اس کے کان تہہ ہو کر اندر کی طرف چلے جاتے اور جوجو کام شروع کر دیتا۔ 

اس وقت بھی یہی ہوا۔ جوجو باہر آیا۔ اس نے پھوار والا بڑا جگ اٹھایا۔ اس کو پہلے گملے پر جھکایا۔ 

لیکن یہ کیا! پانی تو نکل ہی نہیں رہا تھا۔ جوجو نے جگ کو اتنا جھکایا اتنا جھکایا۔۔ جتنا کہ وہ جھکا سکتا تھا لیکن پھوار نے باہر نہ آنا تھا نہ آئی۔ تنگ آ کر جوجو نے جگ کا ڈھکن الٹ دیا اور شڑاپ شڑاپ گملوں میں پانی گرنے لگا۔ 

"ہائیں! جوجو! سیما! ہائے کوئی اس مصیبت بھرے بستے کو تو روکے۔ سارے گملوں کا ستیا ناس کر دیا۔

دادی جان جو کھڑکی سے سارا منظر دیکھ رہی تھیں یکدم چلائیں۔ 

جوجو کیسے سن پاتا۔ اس کے کان تو بند تھے  سو اس نے اس وقت گملوں میں پانی انڈیلا جب تک کہ تمام پودے پتوں پھولوں سمیت گردن گردن مٹیالے پانی میں ڈوب نہ گئے۔ 

سیما دادی جان کا شور سن کر دوڑی چکی آئی لیکن اب کیا فائدہ تھا۔ 

رات کو دادی جان کے کمرے میں سب بیٹھے اور فیصلہ ہوا۔ 

"جوجو بستے کو دانی چاچو کے واپس کر دیا جائے۔ یہ کسی کام کا نہیں۔ بلکہ کام خراب کرنے کا ماہر ہے۔

سو اگلے ہی دن سائنس دان چاچو کو بلوا کر جوجو ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ جب سائنس دان چاچو کی گاڑی گیٹ سے نکل رہی تب سیما نے سب کی نظروں سے چھپ کر جوجو بستے کو آخری بار ہاتھ ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! آپ اداس نہ ہوں۔ سیما بڑی ہو گئی ہے اور اس کو سمجھ آگئی ہے اپنا کام تو خود ہی کرنا چاہیے۔ مدد کیا لینی کسی سے! جب اللہ پاک نے دو ہاتھ دو پاوں اور ایک بڑا سا دماغ دیا ہے تو انہی کو استعمال میں لا کر اپنے سب کام خوشی خوشی کرلیں۔ جوجو بستہ ہو یا کارٹون والا بستہ! کوئی دوسرا آپ کے کام اتنی اچھی طرح نہیں کر سکتا جتنی اچھی طرح آپ خود کریں گے۔ کیونکہ کام کوئی بھی ہو اسے کیسے کرنا ہے یہ تو آپ کو پتہ ہے جوجو بستے کو نہیں۔ ویسے بھی وہ تو صرف پہلا جملہ سنتا ہے