میرے
سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے گھڑی کی سوئیوں کی جو ایک دوسرے سے
ناراض ہو گئی تھیں۔ ہوا یہ کہ گھنٹے والی سوئی جس کا نام چھوٹی سوئی تھا،
جب بارہ پر پہنچی تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ منٹ والی بڑی سوئی، بھی
اس کے پیچھے چلی آرہی تھی۔
’’اف! اب پھر یہ میرے اوپر آ کر بیٹھ جائے گی۔ پچھلی بار
بھی پورے ساٹھ سیکنڈ تک یہ میرے اوپر رہی ۔ توبہ میرا تو دم گھٹنے لگا تھا۔‘‘
چھوٹی سوئی نے منہ بناتے ہوئے سوچا۔
’’سلام چھوٹی سوئی! کیسی ہو!بس میں آنے ہی لگی ہوں۔ہاہ!
دیکھو! کتنی جلدی بارہ بج گئے۔‘‘ بڑی سوئی نے دور سے آواز لگائی۔ پھر آہستہ
آہستہ سرکتی ہوئی بارہ کے عددکے قریب آنے لگی جہاں پہلے سے چھوٹی سوئی
آرام کر رہی تھی۔
’’کاش! میں اسے اپنے سے دور کر سکتی۔ یہ لمبو باتیں کتنی
کرتی ہے۔ ‘‘ چھوٹی سوئی ابھی تک منہ بنا کر کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے بڑی سوئی کی کسی
بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جب بڑی سوئی چھوٹی سوئی کے اوپر آنے لگی تو چھوٹی سوئی بول
پڑی۔
’’بھئی تھوڑا دور ہو کر کھڑی ہو۔ دیکھتی نہیں
ہو مجھے کتنا پسینہ آیا ہوا ہے۔ کیا ضروری ہے یوں ساتھ ساتھ کھڑے ہونا۔‘‘
بڑی سوئی جسے کبھی غصہ نہیں آتا تھا، ہنسنے لگی۔ پھر بولی۔
’’ہاں! یہ بہت ضروری ہے کہ ہم جڑ کر کھڑے ہوں۔ تبھی تو بارہ
بجیں گے اور وہ کانوں کو سکون دینے والا الارم بھی بجے گا جو کہتا ہے۔لو پیارے
بچو!بارہ بج گئے! ارے ننھے بچو!بارہ بج گئے!‘‘
’’ہاں! ہاں! لیکن یہ الارم تمھارا پسندیدہ ہو گا۔ مجھے تو
نہ یہ الارم پسند ہے نہ ہی وہ فضول سی چڑیا جو ہر ایک گھنٹہ بعد اپنے گھر سے باہر
آکر شور کرنے لگتی ہے۔‘‘ چھوٹی سوئی جو پہلے ہی اکڑ کر کھڑی ہوئی تھی ، غصے
سے کہنے لگی۔
بڑی سوئی اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسے ننھی چڑیا کی چوں چوں
بہت اچھی لگتی ہے لیکن چھوٹی سوئی مزید کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔
آخر کار لمحوں والی پتلی سوئی ساٹھ سیکنڈ پورے کر کے آ
پہنچی۔ وہ بالکل بھی تھکی ہوئی نہیں تھی اور روز کی طرح آج بھی چست اور پھرتیلی
دکھائی دیتی تھی۔
’’شکر ہے پتلی بہن! تم آگئی ۔ اب ذرا یہ لمبو کو میرے اوپر
سے ہٹاؤ۔ ‘‘ چھوٹی سوئی نے لمبی سوئی کو دھکا دیتے ہو ئے کہا۔
پتلی سوئی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مسکرا کر دونوں
سوئیوں کو ہاتھ ہلایا اور آگے بڑھ گئی۔ پتلی سوئی کے پاس رک کر باتیں کرنے کا
کوئی وقت نہیں تھا۔ چھوٹی سوئی کو ہر ہر عدد پر ایک گھنٹہ، بڑی سوئی کو ہر عدد پر
پانچ منٹ تک ٹھہرنا پڑتا تھا۔ لیکن پتلی سوئی کو ہمیشہ حرکت میں رہنا تھا۔وہ جانتی
تھی اگر وہ رک گئی تو وقت ٹھہر جائے گا۔اسے یہ سوچ کر ڈر ہی لگتا تھا ۔ اس لیے وہ
پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ ہر لمحے حرکت کرتی تھی۔
اتنے میں کھٹاک سے دروازہ کھلا اور ننھی سرخ چڑیا دروازے کے
کواڑکھولے باہر آئی۔
’’چوں! چوں ! چوں چوں!‘‘
چڑیا نے سریلی آواز میں کہا اور پھر سے گھر کے اندر کے چلی
گئی۔
پھر الارم بجا۔
’’پیارے بچو! بارہ بج گئے! ننھے بچو! بارہ بج گئے!‘‘
لو بچو! ایک منٹ پورا ہو گیا تھاسو بڑی سوئی بارہ کے عدد سے
ذرا سا آگے سرک آئی۔
چھوٹی سوئی نے سکھ کا سانس لیا اور دوبارہ سے منصوبے بنانے
لگی کہ کیسے وہ اس بڑی سوئی کو اپنے قریب آنے سے روک سکتی ہے۔ آخر بہت دیر تک
سوچنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک ترکیب آہی گئی۔
بڑی سوئی اپنا چکر مکمل کر کے بارہ کے عدد پر آ گئی
تھی۔ چھوٹی سوئی بھی بہت آہستہ سے سرکتی ہوئی اب ایک کے عدد پر کھڑی تھی اور بڑی
سوئی کا انتظا ر کر رہی تھی۔
’’مبارک ہو چھوٹی بہن! ہم نے ایک گھنٹہ مکمل کر لیا۔ اب ایک
بجنے لگے ہیں۔ ‘‘
بڑی سوئی نے آواز لگائی۔
’’ہونہہ! اس ہر ایک گھنٹے کی مبارک باد دینے کا کیا مطلب
ہے۔ اف! میرے تو کان پک گئے یہ مبارک باد سنتے سنتے۔ پتہ نہیں یہ بڑی سوئی کوئی
اور بات کیوں نہیں کرتی۔‘‘
جیسے ہی ایک بجا، ننھی چڑیا نے پھر سے کواڑ کھول کر باہر
جھانکا اور بولی۔
’’چوں چوں چوں!‘‘
اور پھر سے الارم کی آواز آئی جو کہہ رہا تھا۔
’’لو پیارے بچو! ایک بج گیا۔ اے ننھے بچو! ایک بج گیا!‘‘
ایک بج کر چار منٹ گزر گئے۔ چھوٹی سوئی اپنی سوچوں
میں گم تھی جب اس نے دیکھا۔ بڑی سوئی اس کے بہت قریب تھی ۔ چھوٹی سوئی نے
ایک زوردار انگڑائی لی اور خوب اکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
’’ہی ہی ہی! اب ذرا میرے اوپر سے گزر کر تو دکھاؤ۔ ‘‘
بڑی سوئی نے حیرت سے چھوٹی سوئی کو دیکھا۔
’’یہ کیا! تم ایسے کیوں کر رہی ہو۔ ‘‘
’’بس! میری مرضی! میں نہیں چاہتی کہ تم میرے اوپر سے گزر کر
جاؤ۔ جانا ہے تو کوئی راستہ تلاش کرو۔‘‘ چھوٹی سوئی غصے سے چلا کر بولی۔
’’اورویسے بھی مجھے تم سے بدبو آتی ہے۔میرے پاس مت آیا
کرو۔‘‘ چھوٹی سوئی نے تھوڑا اور اوپر اٹھتے ہوئے کہا۔
یہ بات سن کر تو بڑی سوئی کو بھی غصہ آگیا۔
’’خدایا! یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ پتلی سوئی سے پوچھ لو۔ میں
ہر ساٹھ سیکنڈ بعد حرکت کرتی ہوں اور ہمیشہ تروتازہ رہتی ہوں۔ بدبو اور مجھ سے؟
ناممکن!‘‘
اتنے میں لمحوں والی پتلی سوئی ایک منٹ پورا کر کے
ایک کے عدد کے پاس آپہنچی تھی۔ لیکن یہ کیا!اسے بھی بڑی سوئی کی طرح رکنا پڑ گیا۔
چھوٹی سوئی پوری طرح اکڑ کر کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے اوپر سے گزرنا تقریباً نامکن ہو
گیا تھا۔
’’چھوٹی بہن!‘‘ پتلی سوئی نے اونچی آواز میں کہا۔’’پلیز
مجھے تو گزرنے دو۔‘‘
’’نہیں! بالکل نہیں! مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ تم
دونوں میرے اوپر سے گزر کر جاتی ہو۔ آج تو تمھیں کوئی راستہ تلاش کرنے پڑے گا۔‘‘
چھوٹی سوئی بہت غصے میں تھی۔
’’نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا چھوٹی بہن!‘‘ بڑی سوئی اب چھوٹی
سوئی کو سمجھانے لگی۔’’ہمیں مل جل کر کام کرنا ہو گا ورنہ وقت رک جائے گا
اور سب کہیں گے گھڑی خراب ہو گئی۔ پھر ہمیں ہمارے گھریعنی اس گھڑی سمیت اٹھا کر
سٹور میں رکھ دیا جائے گا۔‘‘
لیکن چھوٹی سوئی کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھی۔ اس نے
کوئی جواب نہ دیا اور یونہی اوپر ہو کر کھڑی رہی۔
تمام سوئیوں کو رکے اب پانچ منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے۔
اچانک ایک بچہ گھڑی کے سامنے سے گزر ا تو وہ رک گیا۔
’’امی جان! یہ گھڑی تو چل ہی نہیں رہی۔ اس کی سوئیاں
تو رکی ہوئی ہیں۔‘‘
’’ارے! اوہو! اس کی سوئیاں تو حرکت ہی نہیں کر رہیں۔
بھیا کو بلاؤ۔ وہ کرسی پر چڑھ کر اسے اتاریں گے اور ۔۔۔‘‘
ابھی امی اتنا ہی کہہ پائی تھیں کہ چھوٹی سوئی کا غصہ ایک
دم ختم ہو گیا۔ اسے ساری بات سمجھ آگئی تھی۔ اس نے جلدی سے اپنے آپ کو درست کیا
اور ہر روز کی طرح جھک کر کھڑی ہو گئی۔ یہ دیکھ کر لمحوں والی سوئی جلدی سے پہلے
بڑی سوئی اور پھر چھوٹی سوئی کے اوپر سے گزر گئی۔پھر بڑی سوئی بھی خوشی خوشی چھوٹی
سوئی کے پاس آئی۔ اب وہ دونوں جڑ کر کھڑی تھیں۔
’’ٹک! ٹک!ٹک!‘‘
لمحوں والی پتلی سوئی آواز خوشی خوشی آواز نکال رہی
تھی۔اب وہ پھر سے ساٹھ لمحے پورے کر کے دونوں سوئیوں کے پاس آرہی تھی۔
چھوٹی اور بڑی سوئیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرانے
لگیں۔ پھر بڑی سوئی نے چھوٹی سوئی سے ہمیشہ کی طرح ہاتھ ملایا۔ اس بار چھوٹی سوئی
نے منہ نہیں بنایا اور خوشی خوشی ہاتھ ملایا۔ پھر جیسے ہی لمحوں ولای پتلی سوئی ان
کے اوپر سے گزری، بڑی سوئی چھوٹی سوئی سے الگ ہوئی اور تھوڑا سا آگے سرک آئی۔
’’ہاہ!! شکر ہے ! شکر ہے! ہم اس اندھیرے سٹور میں نہیں پہنچ
گئے جہاں پہلے ہی میرا دم گھٹتا تھا۔ اف! یہ غصہ کتنی بری چیز ہے اور یہ
گھڑی کتنی بڑی نعمت ہے۔میں تو یہاں ہمیشہ رہنا چاہتی ہوں۔‘‘ چھوٹی سوئی نے آرام
سے ایک کے عدد پر بیٹھتے ہوئے سوچا پھر سو گئی۔ اس کے پاس ہمیشہ کی طرح سونے کےلیے
پورے ساٹھ منٹ موجود تھے۔
بچو! وہ دن ہے اور آج کا دن! چھوٹی سوئی کبھی غصہ نہیں
کرتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ غصہ کرنا اچھی بات نہیں۔اب وہ بڑی سوئی کے ساتھ خوب باتیں
کرتی ہے اور پتلی سوئی ان دونوں سوئیوں کو دیکھ دیکھ کر خو شی خوشی حرکت کرتی رہتی
ہے۔ ٹک! ٹک ! ٹک! اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو جب بھی بارہ بجیں، آپ اپنی
دیوار پر لگی گھڑی کو غور سے دیکھیں۔ دونوں سوئیاں ساتھ ساتھ کھڑی کتنی اچھی لگ
رہی ہیں! کان لگا کر سنیں بھی تو آپ کو ان میں لڑائی کی آواز سنائی نہیں دے گی۔
وہ تو بس چپکے چپکے یوں باتیں کر رہی ہیں جیسے بہت گہری سہیلیاں
ہوں!!
بچو! غصہ بہت بری چیز ہے۔ یہ آپ کی عقل پر پردہ ڈال دیتا
ہے۔ جب بھی آپ غصے میں ہوں گے آپ کو صحیح بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اس لیے پیارے
نبی کریم ﷺ نےہمیں غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے۔ تم میں سے
طاقتور ہے وہ جو اپنے غصہ پر قابو پا لے۔ ہمیں بہت سی باتوں پر غصہ آجاتا ہے لیکن
پھر فوراً ہی ہمیں درود پاک پڑھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ بھلا میں کیوں غصہ
کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ تو آرام سے بات کر کے بھی حل ہو سکتا ہے۔ غصے سے الٹا ہمیں
نقصان پہنچتا ہے۔ جی بالکل! جیسے کہ آپ کل دوپہر میں اپنے دوست پر غصہ ہو گئے تھے
کیونکہ اس نے آپ کی بال دیوار کے پار پھینک دی تھی۔ کوئی بات نہیں!بال
مل جائے گی ۔ نہ بھی ملی تو اور خرید لیجیے گا کیونکہ چیزیں تو دوبارہ مل
جاتی ہیں ، دوست چلے جائیں تو دوبارہ نہیں ملتے۔