گڑیا کا تاج



میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے  ننھی منی انجو کی جو آج بہت خوش تھی۔ جی ہاں! آج انجو کی سہیلی سیما اس سے ملنے آرہی تھی۔ چھٹی کا دن تھا۔ انجو نے صبح  صبح ناشتے کے بعد سرخ رنگ کا فراک پہنا، سر کے بالکل درمیان میں دادی جان سے چھوٹی سی پونی بنوائی اورسرخ اور سفید جرابیں پہن کر وہ والے بوٹ پہن لیے جو دادا ابو نے ان کی سالگرہ پر تحفے میں دیے تھے۔

’’ٹھک! ٹھک!‘‘

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔

’’اوہ! سیما اتنی جلدی آگئی۔ ابھی تو میں نے ٹوکری میں سے کھلونے نکال کر سجانے تھے۔‘‘

انجو نے سوچا اور دروازے کی طرف بھاگی۔

’’دودھ لے لو بٹیا۔‘‘

’’یہ تو نذیر انکل آئے ہیں۔ ‘‘ انجو نے واپس آتے ہوئے نعرہ لگایا۔ دادا ابو برتن لے کر دودھ لینے چلے گئے تو انجو بھی کمرے میں آگئی۔ اس نے جلدی سے بستر کی چادر درست کی، تپائی پر پڑی بوتل میں تازہ پانی بھر کر لائی اور کانچ کا صاف ستھرا گلاس لا کر بوتل کے ساتھ رکھ دیا۔ جھاڑ پونچھ اور صفائی تو امی نے کر دی تھی۔ بس اب باربی گڑیا، اونی بھالو، چھلانگیں لگانے والا بندر، جنگل کے جانور اور ریل گاڑی قالین پر سجانی تھی۔

ابھی انجو ریل گاڑی کا انجن درست کر کے رکھ رہی تھی کہ سیما آ گئی۔


’’آہا! اتنے سارے کھلونے!‘‘ سیما نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔

’’ہاں! اور تم کیا کیا لائی ہو؟‘‘ انجو نے سیما کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کی طرف دیکھا۔

’’میں!امم!! میں تو بس یہ نیلے بالوں والی گڑیا اور اس کی چیزیں لائی ہوں۔ یہ اس کے فراک ہیں۔۔ دیکھو! پورے چار ہیں ناں؟‘‘

سیما نے بیگ میں سے گڑیا کے کپڑے نکال کر قالین پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں!چار ہیں۔ ‘‘

’’اور دیکھو! یہ گڑیا کے کلپس اور پونیاں ہیں۔ میں اس کو ہر روز نئے رنگ کی پونی لگاتی ہوں۔ ۔۔۔ اورررر! یہ ہیں اس کے جوتے! اچھے ہیں ناں!‘‘

سیما نے دو ننھے ننھے سے نیلے جوتے نکال کر قالین پر ٹکائے اور پوچھنے لگی۔

’’آہا! یہ تو بہت پیارے ہیں۔ ‘‘ انجو نے ایک جوتا اٹھا کر غور سے دیکھا۔

’’چلو! گڑیا کی دو پونیاں بناتے ہیں۔‘‘ سیما نے کہا اور بیگ میں سے چھوٹا سا برش نکال لیا۔

’’نہیں! پہلے اس کو وہ سنہری رنگ کا فراک پہناتے ہیں جس کے ساتھ سنہری رنگ کا تاج بھی ہے۔ ‘‘

’’چلو ٹھیک ہے۔ پھر یہ تیار ہو کر ریل گاڑی میں بیٹھے گی اور ٹینک والے فوجی سے ملنے جائے گی۔‘‘

’’ہاں! بالکل ٹھیک!!‘‘

یونہی کھیلتے کھیلتے دوپہر گز ر گئی۔ شام ہونے لگی تو سیما کو جانے کا خیال آیا۔

’’میں چلتی ہوں۔ ۔۔لیکن! مجھے لگتا ہے میں نے کوئی ایک  چیز بیگ میں نہیں رکھی۔‘‘ سیما نے بیگ میں رکھی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔

’’نہیں! تم نے تو سب کی سب چیزیں رکھ لی ہیں۔ گڑیا، اس کے کپڑے پونیاں اورجوتے!‘‘ انجو نے قالین پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

جب سیما چلی گئی تو انجو کھلونے سمیٹنے لگی۔ اچانک اسے تپائی کے نیچے کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آئی۔ اس نے جھک کر انگلیوں کی مدد سے وہ چیز باہر نکالی۔ یہ ایک سنہری رنگ کا تاج تھا۔

’’اوہ! سیما کی گڑیا کا یہ تاج تو یہیں رہ گیا۔ چلو ! کوئی بات نہیں! میں پہن لیتی ہوں۔‘‘

انجو نے یہ کہہ کر تاج اپنے سر پر رکھا اور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگی۔

’’ارے! یہ کتنا پیارا لگتا ہے۔ ‘‘

جب وہ واپس مڑی تو اس کی نظر دو سرخ پونیوں پر پڑی جو قالین پر ایک طرف گری ہوئی تھیں۔ انجو نے جھک کر دونوں پونیاں اٹھا لیں۔

’’امی سے کہتی ہوں یہ پونیاں مجھے لگا دیں۔ بس! اب تو یہ میری ہیں۔‘‘

یہ سوچ کر انجو کچن کی طرف بھاگی۔

’’امی! یہ دیکھیں! یہ تاج کتنا پیارا ہے اور یہ پونیاں بھی!‘‘

انجو نےپھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ امی کے سامنے ہتھیلی کھول کر دکھائی۔

’’ہاں! یہ تو واقعی بہت پیارے ہیں۔ لیکن یہ آئے کہاں سے!‘‘

’’یہ۔۔۔ یہ سیما کی گڑیا کے ہیں ۔ وہ یہیں بھول گئی ہے۔ میں نے سوچا میں لے لیتی ہوں۔‘‘ انجو نے بتایا اور تاج دوبارہ سر پر رکھنے لگی۔

’’نہیں! بیٹا! یہ تو سیما کی چیزیں ہیں۔ آپ کی نہیں ہیں۔ ‘‘

’’نہیں! امی! یہ تو سیما کی گڑیا کی ہیں۔ ‘‘ انجو نے ایک دم سے کہا تو امی ہنس پڑیں۔

’’اور گڑیا کس کی تھی؟ ہمم!‘‘

’’وہ۔۔ وہ تو سیما کی تھی۔‘‘ انجو نے سوچتے ہوئے بتایا تو امی کہنے لگیں۔

’’تو میری پیاری بیٹی! اگر سیما غلطی سے اپنی کچھ چیزیں یہاں بھول گئی ہے تو وہ ہماری نہیں ہو جاتیں۔ یہ تو امانت ہیں۔ امانت کو واپس کر دیا کرتے ہیں۔ اسے اپنا نہیں بنایا کرتے۔‘‘

’’امانت؟‘‘ انجو نے الجھ کر پوچھا۔

’’جی! امانت یعنی کوئی ایسی چیز جو آپ کا دوست آپ کے پاس رکھوا گیا ہو یا غلطی سےآپ کے گھر بھول کر چھوڑ جائے، اس چیز کو امانت کہتے ہیں۔ امانت جو بھی چیز ہو چاہے وہ کھانے پینے کی یا پہننے اوڑھنے کی، ہم اسے استعمال نہیں کرتے بالکل اسی حالت میں واپس کردیا کرتے ہیں جس حالت میں وہ ہمارے پاس آئی تھی۔ ‘‘

’’لیکن! امی! یہ تاج مجھے اچھا لگتا ہے!‘‘ انجو نے کہا اور سر پر رکھا ہوا تاج اتار کر اسے غور سے دیکھنے لگی۔

’’کوئی بات نہیں! آپ کو میں ایسا ہی ایک اور تاج لے دوں گی۔ لیکن یہ والا تاج تو امانت ہے۔ سیما کی گڑیا اس کے بغیر بہت اداس ہو گی۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ کھاپی بھی نہ رہی ہو۔ بھلا ہم کیسے سیما کی گڑیا کا تاج پہن لیں۔‘‘ امی نے کہا اور ہانڈی کا نمک چکھنے لگی۔

اتنے میں انجو کچن سے باہر نکل آئی۔ اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئی پونیوں اور تاج کو دیکھا۔ پھر وہ کچھ سوچ کر بھیا کے کمرے میں چلی گئی۔

’’آہا! میری گڑیا کاتا ج! یہ تمھارے گھر رہ گیا تھا؟‘‘ سیما نے تاج کو دیکھتے ہی خوشی سے نعرہ لگایا۔ انجو بھیا کے ساتھ اس کی گڑیا کی چیزیں واپس کرنے سیما کے گھر آئی ہوئی تھی۔

’’ہاں! یہ تپائی کے نیچے چلا گیا تھا۔ میں نے وہاں سے اٹھا لیا۔۔۔ اور پھر تمھارے گھر آ گئی۔‘‘ انجو نے کچھ اٹکتے ہوئے بتایا۔

’’اور یہ پونیاں بھی تم قالین پر چھوڑ آئی تھی۔ ‘‘

انجو نے ہتھیلی کھول کر سیما کے سامنے کی جہاں دو سرخ پونیاں رکھی ہوئی تھیں۔ سیما نے پونیاں لے لیں انجو کا شکریہ ادا کیا۔

’’تمھارا شکریہ انجو! میں بھی کہوں میری گڑیا کیوں اداس ہے۔’’ماماپاپا ‘‘ بھی نہیں بول رہی۔ اصل میں یہ اپنے تاج کو یاد کر رہی ہو گی۔ ‘‘ سیما اپنی گڑیا کو تاج پہناتے ہوئے کہنے لگی۔

’’ہاں! تو ۔۔ بھلا ہم گڑیا کا تاج کیسے پہن سکتے ہیں۔ یہ ۔۔ تو امانت ہوتی ہے۔‘‘  انجو نے فخر سے امی والا جملہ دہرایا۔

’’امانت!وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ سیما نے حیرانی سے پوچھا۔

’’امانت۔۔ امم!! وہ۔۔۔یہ۔۔۔ گڑیا کا تاج اور پونیاں۔۔ اسے امانت کہتے ہیں۔‘‘ انجو گڑبڑا کر بولی۔

’’آہاہا!! ‘‘ یہ سن کر پاس بیٹھے ہوئے بھیا زور سے ہنسے  اور انجو کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف چل دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ کے پاس بھی کسی نے اپنی کوئی چیز امانت رکھوائی ہوئی ہے تو آپ اس کا پورا خیال رکھیں۔ اسے خراب نہ ہونے دیں اور اسے استعمال نہ کریں۔ امانت کو ضائع کر دینا تو اچھی بات نہیں۔ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں اور جس نے امانت رکھوائی ہو، اس کے سامنے شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ اوہ! یہ آپ کہانیوں کی کتاب اٹھائے کہاں چل دیے!! اچھا! مجھے سمجھ آگئی ۔ آپ بھی اپنے دوست کی امانت۔۔ یعنی یہ کتاب اسے واپس کرنے جا رہے ہیں۔ ارےواہ! آپ تو بہت اچھے بچے ہیں!