’’بچو! یہ بیس
گملے ہیں۔ آپ اس میں اپنے اپنے پسندیدہ رنگ کا ایک ایک گملہ اٹھا لیں۔ ‘‘
نرسری کلاس کی میڈم نے آتے ہی بچوں سے کہا۔ گملے ایک ملازم
نے کلاس کے باہر ایک ستون کے ساتھ رکھ دیے تھے۔
میڈم کی بات سنتے ہی سب بچے جلدی سے باہر بھاگنے
لگے۔کرسیاں اپنی جگہ سے ہل کر رہ گئیں اور کچھ بچوں کی تو کتابیں اور بیگ بھی زمین
پر گر گئے۔
’’اوں ہوں!! آرام سے۔ لائن بنا کر چلیں۔ یہ کیا بات ہوئی
بھلا!‘‘ میڈم کی ڈانٹ سن کر باقی بچوں کے ساتھ ساتھ عافی میاں بھی سنبھل گئے اور
جلدی سے قطار میں جا کر کھڑے ہو گئے۔ پھر جب ان کی باری آئی تو انہوں نے نیلے رنگ
کا گملہ پسند کیا۔ یہ بالکل بھی بھاری نہیں تھا۔ اس کے اندر صاف ستھری مٹی پڑی
ہوئی تھی جس میں سے ہلکی ہلکی سی خوشبو بھی آرہی تھی۔
گھر آ کر عافی میاں نے سب کو اپنا گملہ دکھایا۔ امی نے
کہا۔
’’بہت اچھی بات ہے۔ میں کل ہی اس میں دھنیے کا بیج بودیتی
ہوں۔‘‘
’’امی! میں خود بیج لگاؤں گا۔ میڈم نے کہا ہے سارا کام خود
کرنا ہے۔ آپ بس مجھے بتا دیں کہ بیج کیسے بوتے ہیں۔‘‘ عافی میاں نے گملے کی مٹی
کو ہاتھ سے چھیڑتے ہوئے بتایا۔امی ہنسنے لگیں۔
’’ٹھیک ہے پیارے بیٹے! تم اپنے ہاتھ سے بیج بونا۔ اب ہاتھ
دھو لو اور کھانا شروع کر و۔ ‘‘
اگلے دن چھٹی تھی۔ عافی میاں پودا لگانے کے شوق میں صبح صبح
اٹھ بیٹھے۔
’’امی چلیں! گملے میں بیج بوتے ہیں۔‘‘ وہ آنکھیں ملتے ہوئے
کچن میں آئے تو کہنے لگے۔
’’ہاں چلو!‘‘ امی نے تولیے سے گیلے ہاتھ صاف کیے پھر ایک
ڈبے سے خشک دھنیا کے کچھ بیج نکالے۔ یہ کل آٹھ بیج تھے جو انہوں نے عافی میاں کی
ننھی سی ہتھیلی پر رکھ دیے۔
پھر وہ دونوں عافی میاں کی کھڑکی میں رکھے گملے کے پاس
آئے۔ امی کہنے لگیں۔
’’دیکھو! اس طرح انگلی سے مٹی میں سوراخ کرو۔ پھر ایک بیج
اس کے اندر رکھ کر مٹی برابر کر دو۔ ام م م ! ایسے!‘‘
یہ کہہ کر امی نے ایک بیج مٹی کے اندر رکھا ۔ پھر عافی میاں
نے اپنی چھوٹی سی انگلی سے مٹی میں کئی جگہ سوراخ کر ڈالے۔ ان میں بیج ڈالے۔ جب
انہوں نے مٹی پر جگ سے پانی کی ہلکی ہلکی پھوار ڈالی تو انہوں نے دل ہی دل میں بہت
خوشی محسوس کی۔
’’آہا! یہ کتنا مزے کا کام ہے۔‘‘
کچھ پانی گملے کے اردگرد بھی گر گیا تھا۔ وہ انہوں نے ایک
خشک کپڑے سے صاف کر ڈالا۔
اس رات جب عافی میاں سونے لگے تو وہ دیر تک سوچتے رہے۔
’’کل صبح جب پودا لگے تو۔۔۔ وہ پتہ نہیں کیسا ہو گا؟ اس پر
پتے کتنے ہوں گے۔ میرے خیال سے ۔۔ تین یا چار! نہیں! اس پر دس پتے ہونے چاہیئں۔
کیونکہ میں نے بابر کی کیاری میں جو نیا پودا دیکھا تھا اس پر پورے دس پتے
تھے۔ امم! میرے پودے کا کوئی نام بھی ہونا چاہیے۔۔۔ ویسے مجھے اپنا پودا مانو بلی
سے بچا کر رکھنا ہوگا۔بابر نے بتایا تھا مانو نے چھلانگیں لگا کر اس کا ایک
پودا گرا دیا تھا۔ ‘‘
یہی باتیں سوچتے سوچتے عافی میاں گہری نیند سو گئے۔
صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ سیدھا بستر سے اٹھ کر کھڑکی
کی طرف گئے۔ لیکن یہ کیا!
یہاں تو کوئی پودا نہیں اگا تھا۔
’’یہ کیا! ساری رات گزر گئی ابھی تک پودا باہر نہیں آیا۔
امی سے پوچھتا ہوں۔‘‘
یہ سوچ کر عافی میاں باہر آئے تو دادی جان لاؤنج
میں بیٹھی تھیں۔
’’دادو! امی کہاں ہیں۔ ‘‘
’’بیٹا! رات کو تمھاری نانو کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ امی
وہیں گئی ہیں۔ وہ مجھے کہہ گئی ہیں کہ آج تمھیں سکول سے چھٹی کروا لیں۔ چلو! تم
جلدی سے دانت صاف کر کے آجاؤ۔ ہم اکھٹے ناشتہ کرتے ہیں۔‘‘
ناشتہ کر کے عافی میاں کہنے لگے۔
’’دادو! میں نے کل رات پورے آٹھ بیج بوئے تھے۔ لیکن ابھی
تک ایک بھی پودا نہیں اگا۔ ‘‘ عافی میاں نے اداسی سے بتایا۔
’’آہا!ہاہا! میرے ننھے بیٹے! ایک دن میں تو کوئی بھی پودا
نہیں اگ سکتا۔ اسے مٹی سے باہرآنے میں دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔‘‘ دادو نے کہا تو
عافی میاں فوراً بول اٹھے۔
’’دو ہفتے! یہ تو بہت زیادہ دن ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں لیکن تم تھوڑا انتظار تو کرو۔ ہاں پانی لازمی دیتے
رہنا۔ پھر دیکھنا کتنے پیارے پودے نکلتے ہیں ہمارے بیٹے کے گملے میں! انشاءاللہ!‘‘
یہ کہہ کر دادو دوبارہ سے اونی سویٹر بننے میں مصروف ہو
گئیں۔ عافی میاں اٹھ کر کمرے میں آئے اور گملے کی مٹی کو غور سے دیکھنے لگے۔
’’مجھے پتہ ہے تم سب اندر چھپے ہوئے ہو۔ میں دو ہفتے تک
انتظار کرسکتا ہوں۔ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن دیکھنا! اگر ہو سکے تو جلدی سے
نکل آنا۔ مجھے تمھیں دیکھنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
عافی میاں گملے کو دیکھ کر باتیں کیے جارہے تھے کہ اتنے میں
امی کی آواز آئی۔
’’عافی ! کہاں ہو! ‘‘
’’آہا! امی آ گئیں۔ امی آگئیں!‘‘
عافی میاں نعرہ لگاتے ہوئے اچھلتے کودتے ہوئے کمرے سے باہر
نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہفتے گزر گئے ۔ اب تو عافی میاں کا برا حال تھا۔ آخر
ایک صبح ہوتے ہی جب وہ سلیپنگ سوٹ پہنے پہنے کھڑکی کے پاس آئے تو کیا
دیکھا۔ گملے میں آٹھ ننھے ننھے سے پودے نکل آئے تھے۔ دو دو پتوں والے ہلکے سبز
رنگ کے نرم اور نازک پودے۔
’’امی! امی! دادو! پودے نکل آئے۔ عافی میاں گملہ اٹھا کر
بھاگے۔ پھر انہوں نے جلدی جلدی سب کو گملہ دکھایا۔ آپی پودوں کو دیکھ کر کہنے
لگیں۔
’’ہمم! ابھی توبہت چھوٹے ہیں۔مشکل سے ہی نظر آرہے
ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا! میں انہیں ڈھیر سارا پانی دوں گا۔ پھر یہ بہت
جلدی بڑے ہو جائیں گے۔‘‘ آپی نے عافی کی بات پوری نہ سنی ۔ وہ دوبارہ سے اپنی
کتاب پڑھنے لگ گئی تھیں۔
کمرے میں آکر عافی میاں نے بہت آرام کے ساتھ گملہ کھڑکی
میں واپس رکھ دیا۔ پھر جگ اٹھا کر ڈھیر ساری پھوار پودوں کے اوپر ڈالی۔ وہ بھیگ
بھیگ گئے حتیٰ کہ ان کے اوپر والے سرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد گملے میں
صرف پانی ہی پانی نظر آرہا تھا۔ پودے پانی کے اندر چھپ گئے تھے۔
عافی میاں مسلسل پانی دیے جارہے تھے جب امی کمرے میں آئیں۔
’’ہاں تو پانی دیا پودوں کو۔۔۔یہ ! یہ کیا! عافی! اتنا سارا
پانی!‘‘
امی کہتے کہتے رک گئیں۔انہوں نے جلدی سے گملے کو ترچھا کر
کے پانی ایک برتن میں نکا ل دیا۔ پھر کہنے لگیں۔
’’عافی بیٹے! یہ تو بہت چھوٹے چھوٹے پودے ہیں۔ انہیں
زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس ایک دو پھوار ہی کافی ہیں۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی امی! لیکن۔۔ یہ کب بڑے ہوں گے؟‘‘
’’بہت جلد! جیسے تم بڑے ہو رہے ہو ایسے ہی یہ پودے بھی بڑے
ہو جائیں گے۔ ‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’امی! کیا میں گملہ اپنے بیڈ کے پاس رکھ سکتا ہوں؟‘‘ عافی
نے بیڈ کے آس پاس دیکھتے ہوئے پوچھاتو امی کہنے لگیں۔
’’نہیں! بیٹا! پودوں کو پانی کے ساتھ ساتھ دھوپ اور ہوا کی
ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم انہیں چھاؤں میں رکھ دیں گے تو مرجھا جائیں گے اور بڑے
نہیں ہو پائیں گے۔‘‘
اتنے میں دادو کی آواز آئی جو امی کو بلا رہی تھیں۔ امی
کمرے سے گئیں تو عافی نے سوچا۔
’’جب یہ بڑے ہوں گے تو کتنے پیارے لگیں گے۔ مجھے بابر کو
اپنے پودے دکھانے چاہئیں۔ ویسے بھی سکول لے کر جانے میں تو ایک ہفتہ اور پڑا ہوا
ہے۔ ‘‘
یہ سوچ کر عافی میاں نے گملہ اٹھایااور بابر کے گھر کی طرف
چل دیے۔ راستہ میں انہیں مانو کی آواز آئی۔
’’میاؤں! میاؤں!‘‘
انہوں نے گملے کو سینے سے لگا لیا اور تیز تیز قدم اٹھانے
لگے۔
بابر نے جیسے ہی پودوں کو دیکھا تو اس کے منہ سے نکلا۔
’’اوہ! اتنے پیارے پودے۔ عافی! تم نے یہ پودے کیسے اگائے۔
مجھے بھی بتاؤناں!!‘‘
یہ سن کر عافی نے بالکل امی کے سے انداز میں بابر کی کیاری
میں اپنی انگلی سے چھوٹا سا سوراخ کیا۔ پھر اس میں بیج بونا بتایا۔ پھر کہنے لگے۔
’’اور ہاں! نئے پودوں کو زیادہ پانی نہیں دیتے۔ یہ مرجھا
جاتے ہیں۔۔ام م م!! نہیں! بلکہ یہ ڈوب جاتے ہیں۔ اور جلدی بڑے بھی نہیں ہوتے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے!‘‘ بابر نے سمجھ کر سر ہلایا۔
کچھ دنوں بعد عافی میاں نے گملہ سکول لےکر جانا تھا۔
سو آج وہ دن آ ہی گیا۔ اب وہ نرم نرم پودے کچھ اور بڑے ہو گئے تھے۔ ان کے پتے
پھیل گئے تھے اور وہ ہوا سے ادھر ادھر حرکت بھی کرتے تھے۔
عافی میاں کے سبھی دوستوں نے اپنے اپنے گملے لا کر
ستون کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ عافی کے نیلے رنگ کے گملے پر امی نےمارکر سے ان
کا نام بڑا بڑا کر کے لکھ دیا تھا۔ جب میڈم نے گملے دیکھے تو سب کو شاباش دی۔ عافی
میاں کو بھی شاباش ملی۔ میڈم نے کہا۔
’’تمام بچوں نے بہت اچھی طرح پودا لگایا ہے۔ اب ان کا خیال
بھی رکھنا ہے۔ وقت پر پانی دیں اور تھوڑی تھوڑی کھاد بھی گملے میں
ڈالتے رہیں۔ اس سے پودے میں جان پڑ جاتی ہے اور وہ زیادہ ہرا بھرا ہونے لگتا ہے۔
‘‘
’’کھاد کیا ہوتی ہے۔ امی سے پوچھوں گا ۔ امم!کھاد۔۔ جیسے
کھانا!! ہاں! جیسے مجھے بھوک لگتی ہے ویسے ہی انہیں بھی لگتی ہے اور جیسے میں
کھانا کھاتا ہوں ویسے ہی یہ بھی کھاتے ہوں گے۔‘‘ عافی میاں وین میں بیٹھے ہوئے
پودوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے۔ اچانک ہوا سے پودے ہلے جیسے کہہ رہے ہوں۔
’’بالکل ٹھیک! عافی میاں! بالکل ٹھیک!!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! پیارے وطن پاکستان کو ہرا بھرا رکھنے کے
لیے پودوں کی ضرورت ہے۔ ہر مہینے ہر سال نیا پودا لگائیں پھر اس کی خوب رکھوالی
کریں۔ اپنے گھر اپنے سکول اپنی سڑکوں اور اپنے شہر کو سبز سبز پودوں سے سرسبز
بنائیں۔ پودے اور درخت نہ صرف زمین کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں بلکہ ہمیں صاف
ستھرا سانس لینے میں مدد دیتے ہیں۔ عافی تو اب اکثر ہی نئے گملے خرید کر بیچ بوتا
نظر آتا ہے۔ وہ نئے پودوں کا پورا خیال رکھتا ہے اور انہیں مرجھانے نہیں دیتا۔
اچھا! کیا آپ ابھی سے بابا کو فون کرکے گملہ اور بیج لانے کا کہہ رہے ہیں! ارے رک
جائیں! شاید بابا مصروف ہوں۔ جب وہ گھر آئیں تو انہیں میری یہ کہانی پڑھوائیں۔ ہو
سکتا ہے وہ آپ کے کہے بغیر ہی آپ کو نیلے رنگ کا گملہ اور ننھے ننھے بیج لا دیں!