زوبی اور بوبی کیسے دوست بنے

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے زیبرے کی جو ایک ہرے بھرے جنگل میں رہا کرتا تھا۔ اس چھوٹے سے زیبرے کا نام زوزو تھا۔ زوزو کو امرود کے درخت کے نیچے کھڑا ہونا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہاں اگی ہوئی جامنی رنگ کی گھاس اس کی پسندیدہ گھاس تھی۔ ایک دن صبح صبح وہاں کھڑا گھاس کھا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک اور زیبرے پر پڑی۔

’’تم کون ہو؟‘‘

نئے زیبرے نے جواب دیا۔

’’میں بوبی ہوں۔ اس جنگل میں نیا آیا ہوں۔مجھے یہ والی گھاس کھانی ہے۔‘‘

بوبی نے یہ کہہ کردرخت کے نیچے اگی ہوئی جامنی رنگ کی گھاس کی طرف اشارہ کیا۔

’’جی نہیں! یہ تو میری گھاس ہے۔ تم اسے نہیں کھا سکتے۔‘‘ زوزو نے منہ بنا کر کہا اور زور سے پاؤں جما کر کھڑا ہو گیا۔


’’کیا! گھاس تو سب زیبرے کھا سکتے ہیں۔ مجھے بھی بس اسی جگہ کھڑے ہو کر ناشتہ کرنا ہے۔‘‘ بوبی نے ناراضگی  سے  کان پیچھے کی طرف جھکاتے ہوئے کہا۔  

’’یہ میری پسندیدہ جگہ ہے! تم کہیں اور چلے جاؤ!‘‘ زوزو نے چلا کر کہا۔

یہ سن کر بوبی نے ایک نظر گھاس کو دیکھا پھر زوزو کو۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اس نے زوزو کو زور سے دھکا دیا۔

’’آہ! اوہ! تم! تم نے مجھے گرایا ہے۔ میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ زوزو دھکے سے ایک طرف گر گیا تھا۔ اس نے اٹھتے ہوئے غصے سے کہا۔

’’ہاہاہا! مجھے مار کر دیکھو۔ تم تو مجھے پکڑ ہی نہیں سکتے۔‘‘

بوبی نے ہنسنے ہوئے کہا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔

’’اچھا یہ بات ہے! یہ دیکھو پھر!‘‘ زوزو نے  بھی یہ کہہ کر بوبی کےپیچھے دوڑ لگا دی۔

دونوں دوڑتے ہوئے اونچی اونچی جھاڑیوں کے پاس پہنچ گئے۔ اچانک زوزو کی امی چلائیں۔

’’زوزو! یہ تم کہاں جا رہے ہو؟ تمھیں میں نے بتایا تھا ناں کہ وہاں سے بھورے شیر گزرتے ہیں ؟‘‘

یہ آواز سن کر زوزو ایک دم رک گیا۔ پھر اس نے پھولےہوئے سانس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھا۔بوبی کہیں بھی نہیں تھا۔ شاید وہ کہیں آگے جا کر چھپ گیا تھا ۔ یا پھر اپنے گھر چلا گیا تھا۔

’’ہونہہ! کل ملے پھر بتاؤں گا۔ موٹا زیبرا!‘‘ زوزو نے ایک جھاڑی  کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے غصے سے سوچا۔

’’زوزو!‘‘ زیبرے امی کی آواز پھر آئی تو زوزو گھر کی طرف چل دیا۔

اگلی صبح زوزو امرود کے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ وہ اپنی پسندیدہ گھاس سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک اسے بھاگنے کی آواز آئی۔ اس نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ دور سے بوبی بھاگتا چلا آرہا تھا۔ایک دم زوزو کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ جلدی سے درخت کے تنے کے  پیچھے چھپ گیا۔

بوبی دوڑتا ہوا درخت کے نیچے آرکا۔

’’ہاہ! شکر ہے! وہ بدتمیز زیبرا ابھی یہاں نہیں پہنچا۔ لگتا ہے گھر میں سویا ہوا ہو گا۔ خیر! میں جلدی سے یہ گھاس کھاتا ہوں اور واپس چلاجاتا ہوں اس سے پہلے کہ وہ یہاں آئے۔ ‘‘

بوبی نے سوچا پھر تیز تیز گھاس کھانے لگا۔

’’اتنی مزے کی گھاس ہے اور اس کے نرم پتے ! واہ! مجھے تو اپنی چھوٹی بہن کو بھی یہاں لانا چاہیے۔ اسے بھی یہ جگہ بہت پسند آئے گی۔‘‘ بوبی نے اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے کہا۔

اتنے میں زوزو نے زور سے شیر کی سی آواز نکالی اور ایک دم درخت کے پیچھے سے چھلانگ کر بوبی کے سامنے آگیا۔  

’’ہاؤ! ہمم! ہمم!!‘‘

’’اوہ! اوہ! اف!‘‘ بہت مزے سے گھاس کھاتا بوبی ایک دم اچھل کر رہ گیا اور ڈر کے مارے اس کے کان آگے کی طرف جھک آئے۔

’’تم!  تم نے مجھے ڈرا دیا ۔ تم کتنے گندے زیبرے ہو۔‘‘

’’جی نہیں! تم گندے ہو۔ اور یہ تم میری پسندیدہ جگہ پر کھڑے کیا کر رہے ہو۔ جلدی سے ہٹو۔‘‘ زوزو نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔

’’ایک منٹ ایک منٹ!‘‘ بوبی نے ایک ٹانگ اٹھا ئی اور اسے روک دیا۔

’’کیا بات ہے۔ ‘‘

’’کچھ نہیں! ‘‘ یہ کہہ کر بوبی نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔

’’اچھا! یہ بات ہے۔ آج میں تمھیں پکڑ کر چھوڑوں گا۔ ‘‘ زوزو نےبھی تیزی سے  اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔اچانک کچھ ہی آگے جا کر بوبی گر گیا۔ اس کے منہ سے نکلا۔

’’اوہ! اوہ! کانٹا ! میری ٹانگ میں کانٹا!  وہ بھی اتنا بڑا!‘‘

زوزو رک گیا ۔ اس نے دیکھا۔ بوبی کی دائیں ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے سوچا اسے بوبی کی مدد کرنی چاہیے۔پھر وہ سوچنے لگا۔

’’لیکن! میں تو اس سے ناراض ہوں۔ یہ اچھا زبیرا نہیں ہے۔ اس نے مجھے دھکا بھی دیا تھا۔‘‘ زوزو نے یہ سوچ کر اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

’’امی آپ کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ اگلے دن جب بوبی سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا۔ امی کہیں جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔

’’زوزو بیٹا! وہ جو نئے زیبرے آئے ہیں ہمارے جنگل میں۔ ان کا بیٹا بوبی زخمی ہے۔ میں اس کا حال پوچھنے جا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر امی دروازے کی طرف بڑھیں۔ پھر وہ رکیں اور کہنے لگیں۔

’’ویسے میرا خیال ہے تمھیں بھی میرے ساتھ چلنا چاہیے۔اس کاحال پوچھ لینا۔وہ بالکل تمھارے جیسا ہی تو ہے ننھا منا سا۔‘‘

’’جی نہیں! امی!وہ مجھ جیسا تو نہیں ہے۔  آپ کو نہیں پتہ! وہ کتنا گندا زیبرا ہے۔ میری اس سے لڑائی ہوئی ہے دو بار! اور میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ بس!‘‘

’’ہیں! لڑائی! کب!‘‘ امی نے حیرانی سے پوچھا۔ پھر کہنے لگیں۔

’’اچھا! چھوڑو۔ میں واپس آکر بات کرتی ہوں۔ ابھی تو مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ امی یہ کہہ کر باہر نکل گئیں۔ زوزو وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا۔

اس سے اگلے دن جب زوزو جامنی رنگ کی گھاس کی طرف جا رہا تھا تو اس نے دیکھا۔ وہاں بوبی پہلے سے کھڑا تھا۔ زوزو کے کان کھڑے ہو گئے۔

’’یہ تو آج پھر آگیا۔ ‘‘

اچانک اس کی نظر بوبی کے ساتھ کھڑی ہوئی اپنی امی پر پڑی ۔ زوزو بھاگ کر درخت کے نیچے پہنچا۔

’’امی! امی! آپ یہاں کیسے آگئیں؟ اور یہ بوبی ! بوبی آپ کے ساتھ کیوں ہے؟‘‘ زوزو نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہا تو امی مسکرانے لگیں۔

’’زوزو بیٹا! میں آپ کی اور بوبی کی دوستی کروانے آئی ہوں۔ مجھے بوبی نے ساری بات بتا دی ہے ۔ میرا خیال ہے آپ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے سوری کر لو۔‘‘

’’امی ! بوبی نے مجھے دھکا دیا تھا۔ یہ مجھ سے سوری کرے۔ میں کیوں کروں؟‘‘

اس سے پہلے کہ امی کچھ کہتیں، بوبی کہنے لگا۔

’’سوری زوزو! مجھے واقعی تمھیں دھکا نہیں دینے چاہیے تھا۔‘‘

زوزو ناراضگی سے دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’’زوزو بیٹا! تم اس لیے بوبی سے سوری کرو کیونکہ تم نے اسے زخمی ہوتے دیکھا پھر بھی اس کی مدد نہ کی۔ بوبی بہت دیر تک جھاڑیوں میں گرا رہا پھر زرافے میاں وہاں سے گزرے تو انہوں نے بوبی کو اٹھایااور اپنی گردن پر بٹھا کر اسے ڈاکٹر بھالو کے پاس پہنچایا۔‘‘

امی نے جب ساری بتائی تو زوزو کو اندر ہی اندر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بوبی کی طرف بڑھا اور کہنے لگا۔

’’مجھے معاف کر دو بوبی! واقعی میں نے تمھارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔‘‘

’’اچھا! تم دونوں کھیلو! پھر بوبی بیٹا۱! واپسی پرہمارے گھر آنا ۔ میں تمھارے لیے جامنی پتوں کا سوپ بنا رہی ہوں۔ ‘‘ زیبرا امی نے کہا اور پتوں سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھا کر گھر کی طرف چل دیں۔

ان کے جانے کے بعد زوزو کی نظر بوبی کی ٹانگ پر پڑی جہاں سفید اور زرد رنگ کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔

’’بوبی! اب تمھاری ٹانگ کیسی ہے؟‘‘ زوزو نے پوچھا۔

’’امم! کچھ بہتر ہے۔ درد ابھی بھی ہوتا ہے۔‘‘ بوبی نے اداسی سے جواب دیا۔

’’اوہ! کوئی بات نہیں ٹھیک ہو جائے گا۔ امی کہتی ہیں وہ جھاڑیوں پر لگے ہوئے بیر کھاؤ تو درد محسوس نہیں ہوتا۔ آؤ وہاں چلتے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر زوزو بھاگنے لگا۔ پھر اسے یاد آیا اور اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ بوبی آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔

یہ دیکھ کر زوزو جلدی سے واپس آیا اور اسے اپنی ایک ٹانگ کا سہارا دیتے ہوئے کہنے لگا۔

’’چلو! دونوں ایسے ہی چلتے ہیں۔ مجھے بھی تمھاری طرح چلنے میں بہت مزہ آرہا ہے۔ ‘‘

بوبی نے زوزو کو بھی لنگڑا کر چلتے ہوئے دیکھا تو زور سے ہنس دیا۔ زوزو سوچنے لگا۔

’’یہ تو بہت اچھا زیبرا ہے۔ میرا خیال ہے اس کے ساتھ جامنی گھاس شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! زوزو اور بوبی اب گہرے دوست ہیں۔وہ اکھٹا کھیلتے ہیں اور لمبی لمبی دوڑیں لگاتے ہیں۔ ہاں!دونوں میں کبھی کبھار لڑائی تو ہو جاتی ہے لیکن وہ ایک دوسرے سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہتے۔ اگر آپ بھی اپنے کسی دوست سے لڑائی کیےہوئے ہیں تو میرا خیال ہے آپ اس کو جا کر منا لیں۔ کبھی دوست یا بہن بھائی سے بہت دیر تک ناراض نہیں رہتے۔ سوری کرنے میں ایک سیکنڈ تو لگتا ہے ! ارے کیا مطلب ! کیا آپ نے اپنی بہنا سے سوری کر بھی لی کیونکہ آپ نے ان کی چاکلیٹ کھا لی تھی اور آپ دونوں کے بیچ جھگڑا ہو گیا تھا؟ زبردست! شاباش!آپ تو بہت اچھے بچے ہیں!