سونی مونی اور چنٹو خالہ

 


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ  کہانی ہے ایک پیاری سی گلہری بنٹو اور اس کے دو بچوں کی جن کے نام سونی اور مونی تھے۔ سونی اور مونی ایک دن اپنی امی سے کہنے لگے۔

’’امی ! ہم سوچ رہے ہیں کہ اتنے دن ہوئے خالہ کے گھر نہیں گئے۔ آج ان کے گھر جانے کا دل کر رہا ہے۔‘‘

’’امم! ٹھیک ہے ۔ لیکن میری طبیعت خراب ہے۔ ایسا کرو کہ تم دونوں ہو آؤ۔راستے سے بھالو میاں کی دکان سے کچھ چیزیں بھی لے جانا۔‘‘ یہ کہہ کر بنٹو نے الماری سے ایک اونی جرسی نکالی اور بچوں کو تھمائی۔

’’یہ چنٹو  کے بیٹے چن من کے لیے میں نے بنی تھی۔ تم جارہے ہو تو اس کو یاد سے دے دینا۔  تمھیں راستہ تو معلوم ہے ناں۔ ‘‘

اچانک بنٹو نے پوچھا۔

مونی اور سونی سوچ میں پڑ گئے۔

’’آں!۔۔ جی جی! وہ انار کے درخت سے ہو کر تالاب کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو سبز جھاڑیوں کے پیچھے ۔۔۔‘‘ سونی رک رک کر کہہ رہی تھی۔

’’ہاں! ہاں!‘‘ مونی بھی کہنے لگا۔’’وہاں بڑے بڑے پتوں والے درخت پر چنٹو خالہ کا گھر ہے۔‘‘

’’بالکل ٹھیک!‘‘ چنٹونے کہا۔

تھوڑی دیر بعد سونی اور مونی درختوں پر اچھلتے کودتے کبھی گھاس پر چھلانگیں لگاتے چلے جارہے تھے۔  راستے میں بھالو میاں کی دکان آئی تو سونی کہنے لگی۔


’’بھائی! مجھے چپس کھانے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر مونی کو وہ مزیدار لالی پاپ یاد آگئی جو اس نے وہاں سے پچھلی بار لی تھی۔

’’ہاں چلو! میں لالی پاپ کھاؤں گا۔ وہ سبز رنگ والی۔‘‘

پھر دونوں دکان کے اندر چلے گئے۔ انہوں نے اپنے اور چن من کے لیے بھی بہت سی چیزیں خریدیں۔ چپس، ٹافیاں، لالی پاپ اور پاپ کارن۔

آخر کافی دیر چلنے کے بعد چنٹو خالہ کا گھر آہی گیا۔ یہ گھر ایک بڑے سے درخت کے اندر بنا ہوا تھا۔ اس کا دروازہ گول اور سرخ رنگ کا تھا۔ سونی نے چیزوں والاشاپر ایک ہاتھ میں پکڑ ا اور دوسرےہاتھ سے دروازے پر دستک دی۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

اندر سے چنٹو خالہ کی آواز آئی۔

’’کون!‘‘

’’خالہ! دروازہ کھولیں۔ہم آئے ہیں ۔ سونی اور مونی!‘‘

’’آہا! میرے بھانجے آئے ہیں۔ آؤ بھئی! آجاؤ! ‘‘

چنٹو خالہ نے دروازہ کھولا ۔

’’کیسے ہو تم ! اتنے کمزور کیوں ہو گئے ہو۔ لگتا ہے تمھارے جنگل میں اخروٹ کچھ زیادہ نہیں لگتے۔ بس اب تم میرے یہاں رہو ہفتہ دو ہفتہ۔ پھر دیکھنا تمھاری کتنی اچھی صحت ہو جائے گی۔‘‘ چنٹو خالہ کہے جارہی تھیں۔ سونی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

’’خالہ! چن من  نظر نہیں آرہا۔‘‘

’’اوہ ہاں! چن من بس آنے ہی والا ہے۔ میں نے اسے مکھن لینے کے لیے دکان پر بھیجا تھا۔تم دونوں آرام سے بیٹھو! میں تمھارے لیےاخروٹ کا ملک شیک لاتی ہوں۔ابھی ابھی بنایا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر چنٹو خالہ کچن میں چلی گئیں۔ سونی نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شاپر کی طرف دیکھا۔

’’چلو اتنی دیرمیں چپس کھاتے ہیں۔‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے! مجھے وہ ٹافیوں والا ڈبہ بھی نکال دو۔‘‘

تھوڑی دیر بعد چنٹو خالہ جوس لے کر کمرے میں آئیں تو حیران رہ گئیں۔ یہاں وہاں فرش پر چپس اور ان کے ریپر گرے ہوئے تھے۔ ٹافیوں کے ریپر بھی بکھرے ہوئے تھے۔ سونی اور مونی جلدی جلدی چیزیں کھانے میں مصروف تھے۔

چنٹو خالہ نے جوس کے گلاس ان دونوں کو پکڑائے۔ اتنے میں چن من بھی آگیا۔

’’آہا! سونی مونی آئے ہیں۔ چلو کھیلیں۔اچھا! یہ تم میرے لیے لائے ہو!‘‘ وہ اندر آتے ہی خوشی سے بولا۔ مونی نے اسے لالی پاپ اور ایک چپس کا پیکٹ پکڑادیا۔

مونی نے کہا۔’’ہاں!آؤ تمھارے کمرے میں چلتے ہیں۔مجھے تم نے وہ والی گن بھی دکھانی تھی ناں جو بندر انکل نے تمھیں بنا کر دی تھی۔‘‘

یہ کہتے کہتے تینوں چن من کے کمرے میں چلے گئے۔ چنٹو خالہ سارے صحن میں ٹافیوں کے کاغذ اور ادھ کھائے چپس بکھرے ہوئے دیکھ کر کچھ سوچنے لگیں۔

’’یہ ریپر تم نے نیچے کیوں پھینکا؟‘‘ چن من نے منہ بنا کر کہا۔

’’کیوں؟ تو اور کہاں پھینکوں؟‘‘ مونی بولا۔

’’وہاں دروازے کے پیچھے ڈسٹ بن ہے۔ اس میں پھینکو ناں۔‘‘

’’اف! ا  کرسی سے اٹھ کر دروازے کے پاس کون جائے؟ تم بعد میں اٹھا لینا۔‘‘ سونی نے بھی لالی پا پ کھول کر کاغذ فرش پر پھینکتے ہوئے کہا۔

’’تم لوگ گندے بچے ہو۔ میں تمھیں اپنی گن نہیں دکھاتا۔ ‘‘ چن من ناراض ہو گیا۔

سونی اور مونی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

’’امی کہتی ہیں۔ گھر کو صاف رکھنا چاہیے۔ میں تو ہر چھوٹا بڑا کچرا اپنی ڈسٹ بن میں ڈالتا ہوں۔‘‘ چن من نے فخر سے بتایا۔

’’ہاں تو!! ہم بھی اپنے گھر میں سارے فالتو کاغذ ڈسٹ بن میں ہی ڈالتے ہیں۔ ہیں ناں سونی!!‘‘ مونی نے بتایا اور سونی نے ہاں میں سر ہلایا۔

’’لیکن !ایک بار جب وہ الو میاں بچے ہمارے گھر کھیلنے آئے تھے تو انہوں نے بہت کچرا بکھیر دیا تھا۔ ‘‘مونی کہہ رہا تھا۔ سونی کو بھی یاد آگیا۔

’’ہاں! بھائی! یاد ہے امی نے بہت مشکل سے صفائی کی تھی ان کے جانے کے بعد۔‘‘

پھر وہ دونوں ایک دم سے خاموش سے ہو گئے۔ انہیں یاد آگیا انہوں نے بھی تو خالہ کے صحن میں کاغذ اور چپس گرا دیے تھے ۔ کچھ سوچ کر سونی نے دروازے سے باہر جھانک کر دیکھا۔ خالہ بہت مشکل سے جھک جھک کر ان کے بکھیرے ہوئے کاغذ چن رہی تھیں۔ وہ تھکی ہوئی لگتی تھیں۔

سونی اور مونی بھاگ کر صحن میں آگئے۔

’’خالہ! آپ رہنے دیں۔ ہم خود یہ کاغذ ڈسٹ بن میں ڈالیں گے۔ سوری! ہم نے آپ کا گھر گند ا کر دیا ہے۔‘‘

سونی اور مونی نے سر جھکا کر کہا تو چنٹو خالہ مسکرانے لگیں۔

’’نہیں! سوری کی بات نہیں بچو! یہ تو اچھی بات ہے کہ تمھیں احساس ہو گیا ہے۔ چلو! بس یہ تھوڑا سے ہی چپس رہ گئے ہیں۔ یہ اٹھا لو اور درخت کے اوپر والی شاخ پر ڈال آؤ۔ چڑیاں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں کھانا پسند کرتی ہیں۔‘‘

خالہ نے کہا تو دونوں نے اپنی مٹھیوں میں چپس اٹھا لیے۔ پھر چن من کے ساتھ وہ چڑیوں کے گھونسلے کے پاس آئے اور وہیں شاخ پر وہ ایک پتے کے اوپر احتیاط سے وہ چپس رکھ دیے۔

واپس گھر آتے ہوئے چن من کہنے لگا۔

’’سونی مونی! تم دونوں ہمارے گھر ہی رہو۔ بہت مزہ آئے گا۔‘‘

’’لیکن تم تو کہہ رہے تھے تم ہمارے دوست نہیں ہو اور ہمیں اپنی گن نہیں دکھاؤ گے۔‘‘ سونی اداسی سے بولی۔

’’آں ۔۔ ہاں!۔ وہ تو میں۔۔ وہ تو میں۔۔ ایسے ہی کہہ رہا تھا۔‘‘ چن من نے کہا۔

’’اصل میں ہماری امی کی طبیعت خراب ہے۔ اس لیے ہم شام کو گھر چلے جائیں گے۔‘‘ مونی نے بتایا تو چن من نے سر ہلادیا۔

میرے پیارے بچو! اب سونی اور مونی جہاں بھی مہمان بن کر جاتے ہیں، وہ پورا خیال کرتے ہیں کہ وہاں کچرا نہ بکھیریں۔ کیونکہ یہ بہت بری بات ہے۔ کاغذ ، کچرا یا  کھانے پینے کی چیزیں فرش پر گرانے سے میزبان کو تکلیف ہوتی ہے اور اسے نئے سرے سے صفائی کرنی پڑتی ہے۔ گھر بھی گندا ہو جاتا ہے۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے اور اپنی آنٹی سے سوری کرلیں گے جن کے گھر آپ کل ہی بہت سارے ریپرز اور چپس گرا کر آئے ہیں! آپ بہت پیارے بچے ہیں میں جانتی ہوں اور بہت اچھے مہمان بھی۔