احمر اور ننھی بیرو



میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے بچے احمر کی جو ہرے بھرے گاؤں میں اپنے امی ابا کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ احمر نے ایک چھوٹی سی بھیڑ پال رکھی تھی جس کی نرم نرم سفید اون اور گلابی پاؤں بہت پیارے لگتے  تھے۔ احمر نے اس ننھی منی بھیڑ کا نام بیرو رکھا ہوا تھا۔ بچو! سکول کھلے تو احمر بھی سکول جانے لگا۔ بیرو اب دن کو اداس رہنے لگی۔ دوپہر کو احمر سکول سے آتا تو بیرو کو پیار کرتا اور اسے اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتا ۔

اس دن تو بیرو بہت ہی ناراض ہو گئی۔ ہوا یہ کہ احمر سکول سے واپسی پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیتوں کی طرف چلا گیا۔ اسے بیرو کو کھانا کھلانا یاد ہی نہیں رہا۔ جب تک وہ گھر لوٹتا، بیرو بھوکی پیاسی بیٹھی رہی۔امی اور دادی جان نے اسے چارہ کھلانے کی بہت کوشش کی لیکن  وہ ناراض تھی۔ وہ کچھ بھی کھانے کو تیار نہیں تھی  اور آہستہ آہستہ ’’بے بے ‘‘ کی آوازیں نکال رہی تھی جیسے کہتی ہو۔

’’احمر کو بلاؤ ! میرے دوست کو بلاؤ!‘‘  

’’اوہ! اوہ! میری پیاری بیرو! کیا تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟‘‘شام ڈھلے احمر نے صحن میں داخل ہوتے ہی کہا۔ پھر اس نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تازہ مکئی سے دانے توڑے اور بیرو کو کھلانے کی کوشش کی۔

’’مجھے معاف کر دو بیرو! میں عافی کے ساتھ کھیلنے چلا گیا تھا۔ وہ نیا نیا آیا ہے ناں ہمارے گاؤں میں۔ اس کو مکئی کے کھیت دکھانے گیا تھا۔اچھا کیا تم مجھ سے یونہی ناراض رہو گی؟‘‘

بیرو نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ منہ موڑے بیٹھی رہی جیسے کہہ رہی ہو۔

’’ہاں تو اور کیا!سارا دن غائب رہے پھر اتنی دیر سے آئے!بے بے بے!‘‘


’’اچھا! پھر ٹھیک ہے! میں بھی تم سے ناراض ہوں۔‘‘ احمر ناراضگی سے کہتے کہتے اٹھا اور مکئی کے سارے دانے صحن میں بکھیر دیے۔ پھر وہ کمرے میں چلا گیا۔ بیرو اسے اندر جاتے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

رات تک بیرو مزید کمزور پڑ گئی۔ دادا ابو کسی کام سے صبح سے ہی گھر میں نہیں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو بیرو کو دیکھ کر رک گئے۔

’’ارے! یہ ہماری ننھی منی سی بیرو کو کیا ہوا؟ آج یہ اچھل کود نہیں رہی۔‘‘

یہ کہہ کر وہ پنجوں کے بل بیرو کے پاس بیٹھ گئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ انہوں نے دیکھا  بیرو صحن میں بکھرے ہوئے مکئی کے دانے غور سے دیکھ رہی تھی۔ دادا ابو کچھ کچھ سمجھ گئے۔ انہوں نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ پھر چارے کے پتے اسے کھلانے لگے تو بیرو تیز تیز کھانے لگی۔ وہ صبح سے بھوکی تھی۔ اب تو اسے بہت کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی۔

’’احمر! یہاں آؤ!‘‘

پچھلے صحن میں کھیلتے ہوئے احمر نے دادا ابو کی آواز سنی تو دوڑا چلا آیا۔

’’بھئی بیرو تم سے ناراض ہے یا  تم بیرو سے ناراض ہو؟‘‘ دادا ابو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’بے بے بے!  بے بے!!‘‘ بیرو کے اندر جان آگئی تھی اب وہ تیزی سے  بولے چلی جارہی تھی جیسے کہہ رہی ہو۔

’’میں ناراض ہوں۔ میں ناراض ہوں۔‘‘  

احمر نے ایک نظر بیرو کو دیکھا پھر کہنے لگا۔

’’دادا ابو! بیرونے میری بات نہیں مانی۔ اس لیے میں اس کے ساتھ نہیں کھیل رہا۔ بس یہ میری دوست نہیں ہے۔‘‘

’’بھلا کیا بات نہیں مانی  اس پیاری بیرو نے!‘‘ دادا ابو  حیرت سے بولے۔

احمر نے ساری بات کہہ سنائی۔ ’’دادا ابو! یہ میرے ہاتھ سے چارہ نہیں کھا رہی  تھی۔ میں اتنے شوق سے اس کے لیے تازہ مکئی کے بھٹے توڑ کر لایا تھا۔لیکن اس نے ایک دانہ بھی نہیں کھایا۔‘‘

’’اوہ! اچھا! یہ بات ہے۔ کیوں بھئی بیرو! کیا یہ سچ ہے!‘‘ دادا ابو نے بیرو کی نرم نرم اون پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ بیرو نے پھر زور سے بے بے کی۔

’’نہیں! نہیں! احمر لیٹ آیا تھا۔ احمر لیٹ آیا تھا۔بے بے!!  اس نے مجھے وقت پر کھانا نہیں دیا۔‘‘

احمر جیسے بیرو کی بات سمجھ گیا اور فوراً کہنے لگا۔

’’ہاں تو وہ  میں عافی کے ساتھ کھیلنے چلا گیا تھا ناں! اسی لیے لیٹ ہو گیا۔ تمھارے لیے اتنے مزے کے بھٹے بھی لایا تھا۔ ‘‘

بیرو پھر بھی بے بے بے کرتی رہی۔ دادا ابو ہنسنے لگےپھر بولے۔

’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے! احمر تم بیرو سے سوری کر لو۔ اور بیرو تم احمر سے سوری کر لو۔ بات ختم! ‘‘

یہ کہہ کر دادا ابو نے بیرو کو گود سے اتارکر احمر کو پکڑا دیا اور اندر چلے گئے۔ احمر کی گود میں آکر بیرو نے منہ سے آوازیں نکالنا بند کردیں اور خاموشی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

احمر نے جھک کر بیرو کے سرپر پیار کیا اور چپکے چپکے کہنے لگا۔

’’سوری بیرو! تم میری سب سے اچھی دوست ہو۔ میں اب تم سے کبھی دور نہیں جاؤں گا۔‘‘

بیرو نے یہ سن کر آہستہ سے سر ہلایا اور پھر دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔

’’نہیں! نہیں! ابھی باہر نہیں جا سکتے۔ دیکھو! سردی بڑھ گئی ہے اور اندھیرا بھی ہو گیا ہے۔ امی کہتی ہیں چھوٹے بچے رات کو گھر کے اندر ہی رہیں ورنہ بھوت پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ اس لیے تم یہاں اپنے بستر پر سو جاؤ۔‘‘ یہ کہتے کہتے احمر نے  ننھی بیرو کو احتیاط کے ساتھ اس کے ساتھ گھانس پھونس والے بستر پر لٹادیا۔ پھر اس کے اوپر ایک صاف ستھری گرم چادر ڈالی اورواپس جانے لگا۔

’’ہاں! کل چھٹی ہے ناں۔ کل خوب کھیلیں گے۔ میں تمھیں عافی سے ملواؤں گا۔ وہ بہت اچھا بچہ ہے۔ شہر سے آیا ہے کچھ دن رہنے کے لیے اور اسے بھی تم سے ملنے کا شوق ہے۔اچھا ! شب بخیر!‘‘

 بیرو نے آنکھیں بند کیے کیے منہ سے آواز نکالی۔

’’بے بے بے! ٹھیک ہے ٹھیک ہے!!‘‘ پھر وہ گہری نیند سو گئی۔

احمر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر امی کے بلانے پر کمرے میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح جب احمر بیرو کو ملوانے عافی کے پاس لے کر گیا  تووہ کہنے لگا۔

’’اچھا! یہ ہے بیرو! احمر! یہ مجھے دے دو۔ میں۔۔۔ امم!!  تمھیں ابو سے بہت سارے پیسے لے دوں گا اس کے بدلے۔‘‘ عافی نے کچھ سوچ کر کہا۔اسے بیرو بہت پسند آئی تھی۔

یہ سنتے ہی احمر نے زور سے بیرو کو اپنے ساتھ لگایا اور بہت  ناراضگی سے کہنے لگا۔

’’جی نہیں! بیرو میر ی ہے۔ تم مجھے جتنے بھی پیسے دو، میں تمھیں بیرو نہیں دے سکتا۔ بھلا بیرو کسی اور کے ہاتھ سے کھانا بھی کیسے کھاسکتی ہے؟ جاؤ! تم میرے دوست نہیں ہو۔‘‘

بیرو احمر کے سینے سے لگی ہلکی ہلکی آواز میں کہتی رہی۔

’’بے بے ! بے! بالکل صحیح! بالکل صحیح! بھلا بیرو کسی اور کے ہاتھ سے کھانا بھی کیسے کھا سکتی ہے؟ بے بے!! بھلا بیرو کسی اور کے ہاتھ سے۔۔۔‘‘

پھر احمرسفید سفید نرم  اون والی  بیرو کو اٹھائے اپنے گھر کی طرف دوڑتا چلا گیا۔ وہ جانتا تھا بیرو کے بدلے اسے کوئی پوری دنیا بھی دے دے تو اسے کیا کرنا ہے۔ اسے بیرو کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھنا ہے اور بس!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ نے بھی کوئی جانور یا پرندہ پال رکھا ہے تو اس کا خوب خیال رکھیے۔ اسے اداس نہ ہونے دیں اور اسے اچھا اور تازہ کھانا کھلائیں۔ سخت سردی اور گرمی سے بچائیں۔ ہاں! جانور تو بس پیار مانگتے ہیں۔پیار اور بہت زیادہ پیار۔پیارے اور آخری  نبی حضرت محمد  ﷺ جانوروں پر بہت زیادہ مہربان تھے۔ آپ ﷺ کسی جانور کو تکلیف میں نہیں دیکھ  سکتے تھے۔ جانور پالنا ایک عظیم صحابی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بلی پال رکھی تھی اور آپ اس کی خوب رکھوالی کرتے تھے۔ سو! پالتو جانور کو سنبھالنا اور اس کا خیال  کرنا بہت اچھا کام اور بہت اہم ذمہ داری کی بات ہے۔اچھا! اچھا! میں آپ کے بیڈ کے نیچے سے آپ کی پالتو بلی کی میاؤ ں میاؤں سن سکتی ہوں جو مجھے بتارہی ہے کہ آپ بھی  اس سے ناراض ہیں۔ بھلا بتاؤ! ننھے منے جانوروں سے بھی کوئی ناراض رہ سکتا ہے۔ چلیں! جلدی سے اسے منائیں اوراس کو مزیدار کھانا کھلائیں!