جب ‏مانو ‏آپا ‏بیمار ‏ہوئیں


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس وقت کی جب جاتی سردیوں کے دن تھے  اور جنگل کی سب سے بوڑھی بلی، مانو آپا بیمار تھیں۔ انہیں سردی لگ گئی تھی۔ ایک دن جب وہ دریا کے کنارے بنی ہوئی بھالو میاں کی دکان پر پہنچیں تو بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ مانو آپانے جلدی جلدی تین چھوٹی مچھلیاں خریدیں اور واپس ہو لیں۔ گھرآتے آتے تک ان کی ناک بہنے لگی۔ شام ہونے تک تو انہیں بخار بھی ہو گیا تھا۔ دکان سے لائی ہوئی مچھلیاں یوں ہی فریج میں  پڑی تھیں۔ مانو آپا میں اتنی ہمت بالکل بھی نہیں تھی کہ وہ بستر چھوڑ کر اٹھیں اور کچن میں جا کر مچھلیاں پکائیں۔ سو وہ ایسے ہی کمبل اوڑھ کر لیٹی رہیں۔ انہیں یاد آرہا تھا کہ بخار اور نزلے کی دوا بھی تو الماری میں سےختم ہو چکی ہے۔

’’اب کیا کروں؟ دوا کیسے لے آکر آؤں؟‘‘

انہوں نےاداسی سے سوچا۔ اتنی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی۔ مانو آپا نے آہستہ آہستہ اٹھ کر دروازہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہیں کہ سامنے جنگل کی سبھی بلیاں ، ٹومی، پنکی، سفیدو، بھوری اور پینو کھڑی تھیں۔

’’مانو آپا! ہم آپ کا حال پوچھنے آئے ہیں۔ ہمیں بندر بھیا نے بتایا ہے کہ آپ بہت دیر سے گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ ‘‘

سفیدو نے اپنی دم ہلاتے ہوئے کہا۔

’’جی مانو آپا! سرخ تتلی بھی بتا رہی تھی کہ اس نے کھڑکی سے آپ کو کمبل اوڑھے لیٹا ہو ادیکھا ہے۔ کیا آپ ٹھیک ہیں مانو آپا؟‘‘ گلابی کانوں والی بلی پنکی نے پوچھا۔

’’ارے ہاں! ہاں! میں تو بس ایسے۔۔ ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے تو بخار اورزکام محسوس کر رہی ہوں۔ بوڑھی ہو گئی ہوں ناں! کام بھی نہیں کر سکتی۔لیکن تم لوگ پریشان نہ ہو۔آؤ  آؤ سب بیٹھو!‘‘

مانو آپا نے انہیں اندر بلاتے ہوئے کہا۔ وہ سبھی اندر آ گئیں۔ مانو آپا تو کمزوری سے کانپ سی رہی تھیں۔ وہ زیادہ دیر کھڑی بھی  نہیں رہ پا رہی تھیں۔ سو وہ جلدی سے  بستر پر لیٹ گئیں۔

’’معاف کرنا بچو! مجھے کمزوری ہو رہی ہے ورنہ میں تمھارے کھانے کے لیے مزیدار مچھلی بناتی۔ ‘‘

’’نہیں! مانو آپا! ہم تو آپ کی عیادت کرنے آئے ہیں۔ آپ آرام کریں۔ میں اور بھوری صفائی کیے دیتے ہیں۔ پینو تم جلدی سے جا کر ڈاکٹر زیبرے سے دوا لےکر آؤ۔ اور ہاں ! آتے ہوئے ساتھ والی دکان سے گرم گرم سوپ بھی لیتی آنا۔ ٹومی! تم مچھلی پکانے کے لیے اوون میں رکھو۔ میں بھی آتی ہوں۔‘‘ سفیدو نے سب کو کام بتائے اور خود بھی جھاڑو اٹھا کر مانو آپا کا کمرہ صاف کرنے لگی۔

مانو آپا کو ان سب پر بہت پیار آیا ۔ پھر  اچانک انہیں یاد آیا۔

’’ارے وہ نئی بلی جو ہمارے جنگل میں آئی ہے وہ نسواری سے دھبوں والی ، وہ نہیں آئی؟ تم لوگوں کے ساتھ ہی تو رہتی ہے۔بھلا کیا نام ہے اس کا؟‘‘

یہ سن کر سفیدو خاموش سی ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ پھر وہ بولی۔

’’وہ۔۔ وہ مانو آپا! اس کانام پارو ہے۔ وہ بہت مصروف تھی۔۔ شاید! اس لیے نہیں آسکی۔‘‘

’’آں ہاں! اپنا نیا گھر سیٹ کرنے میں مصروف ہو گی ناں۔ ابھی ابھی تو آئی ہے۔‘‘

سفیدو نے جواب میں بس سر ہلا دیا۔ وہ مانو آپا کو کیا بتاتی کہ ان سب نے کئی مرتبہ پارو کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ لیکن پارو ہر بار منہ بنا کر بولتی۔

’’ہونہہ! میں کیا کروں تم لوگوں کی خالہ بیمار ہیں تو۔ میں نے تو ان کو بیمار نہیں کیا۔ مجھے کوئی شوق نہیں ان کے گھر جا نے کا۔ تم ہی لوگ جاؤ۔ میں تو اپنے دوستوں  چڑیا اور گلہری کے ساتھ سیر کرنے جارہی ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر سب بلیاں خاموش ہو گئی تھیں۔

خیر! مانو آپاکھانا اور دوا کھا کر سو گئیں تو سب بلیاں خاموشی سے ان کے گھر سے باہر آ گئیں۔

’’اچھا ! چلو! اب گھر چلتے ہیں۔ کل صبح پھر مانو آپا کا حال پوچھنے آئیں گے۔ ‘‘ ٹومی نے کہا تو سبھی نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔

جب سفیدو اپنے گھر پہنچی تو اسے ساتھ والے گھر سے کچھ آوازیں آئیں۔

’’آہ! اوہ! آہ! آہ!!‘‘

’’ہائیں! یہ کیا! یہ تو پارو کی آواز ہے۔ اسے کیا ہوا؟‘‘

اس نے جلدی سے کھڑکی سے اندر جھا نک کر دیکھا ۔ پارو کی ایک ٹانگ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ درد سے کراہ رہی تھی۔ اس نے سفیدو کو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھا تو بولی۔

’’اوہ شکر ہے ! سفیدو! تم آ گئیں۔ یہ دیکھو میں مالٹے کے درخت سے چھلانگ لگاتے ہوئے پتھر سے جا ٹکرائی ۔ اف! میری ٹانگ میں اتنا درد ہو رہا ہے ۔ میں نے خود سے پٹی تو باندھی ہے لیکن درد ختم نہیں ہو رہا۔  کیا تم ڈاکٹر انکل کے پاس جانے میں میری مدد کرو گی؟ ‘‘

پارو بولتی چلی گئی۔  

اگرچہ سفیدو بہت تھک گئی تھی لیکن وہ پارو کو درد میں دیکھ کر رہ نہ سکی۔ اس نے  کہا۔

’’ہاں چلو آؤ! جلدی کرو۔ لگتا ہے تمھارا خون بھی نکلا ہے۔ ایسے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے پاروکو سہارا دیا اور اسے لے کر ڈاکٹر زیبرے کے پاس لے گئی۔ انہوں نے اسے نئے سرے سے پٹی باندھی اور کھانے کے لیے دوا بھی دی۔ پھر دونوں گھر آئیں تو سفیدو کہنے لگی۔

’’پارو! اب تم آرام کرو۔ میں نے صبح مانو آپا کے گھر جانا ہے۔ لیکن میں پہلے تمھیں دیکھنے آؤں گی۔ اگر تمھیں رات کو کوئی چیز ضرورت ہو تو کھڑکی بجا دینا ۔ مجھے آواز آجائے گی۔اچھا پھر! شب بخیر!‘‘

پارو کچھ نہ بولی۔وہ مانو آپا کے بارے میں کچھ سوچ رہی تھی۔  

صبح ہوتے ہی سفیدو نے مانو آپا کے لیے سوپ بنایا اور کچھ سوپ پیالے میں ڈال کر پارو کو دینے چل دی۔ اس نے سوچا ۔

’’پارو چل تو نہیں سکتی۔ وہ دروازہ کیسے کھولے گی۔ میں خود ہی اندر چلی جاتی ہوں۔‘‘

 یہ سوچ کر پارو نے اندر جانے کے لیے قدم بڑھائے لیکن یہ کیا!

سامنے پارو کھڑی تھی۔

’’سفیدو! میں بھی تمھارے ساتھ مانو آپا کے گھر جاؤں گی۔ ‘‘ پارو نے کہا۔ اس کی ٹانگ پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔

’’لیکن ۔۔۔ تم تو ٹھیک طرح چل نہیں سکتی۔ تمھیں درد ہو گا۔ ابھی تم آرام کرو۔‘‘

’’نہیں! نہیں! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ دیکھو! میں چل سکتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر پارونے آہستہ آہستہ چل کر دکھایا۔

سفیدو مسکرانے لگی۔

’’اچھا! ٹھیک ہے۔ چلو ۔ٹھہرو! میں یہ سوپ تمھاری فریج میں رکھ دوں۔ ‘‘

پھر وہ دونوں جب مانو آپا کے گھر پہنچیں تو انہوں نے دیکھا۔ مانو آپا اب بہت بہتر تھیں۔ ان کا بخار ٹھیک ہو گیا تھا اور اب انہیں زیادہ سردی بھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ پارو سے مل کر خوش ہوئیں اور کہنے لگیں۔

’’اچھا! تم ساتھ والے جنگل سے آئی ہو۔ ہمیں وہاں کی کہانیاںسنایا کرو جب بھی تم یہاں آؤ۔ اور ہاں! نئے گھر کے لیے تمھیں کمبل اور بستر کی ضرورت ہو گی ۔ میرے پاس دو نئے بستر پڑے ہیں اور ایک کمبل بھی فالتو ہے۔ وہ تم لے لینا۔ میں سفیدو اور ٹومی سے کہوں گی وہ تمھارے گھر چھوڑ آئیں گی۔‘‘

یہ سن کر پارو کو رونا آگیا۔ وہ سوچنے لگی۔

’’کل میں نے مانو آپا کے بارے میں اتنی بدتمیزی سے بات کی تھی۔ یہ تو اتنی اچھی ہیں۔ اور اتنے پیارسے بات کرتی ہیں۔مجھے ان سے معافی مانگ لینی چاہیے۔‘‘

پھر پارو کہنے لگی۔

’’مانو آپا! مجھے معاف کر دیجیے۔ میں کل آپ کی عیادت کرنے نہیں آئی۔ وہ اصل میں۔۔‘‘

’’اوہ! کوئی بات نہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔‘‘ مانو آپا نے پارو کی پوری بات سنے بغیر ہی بولیں۔’’ مجھے پتہ تھا تم مصروف ہو گی۔کوئی بات نہیں۔ویسے بھی میں  اب بالکل ٹھیک ہوں اور جلد ہی تمھارے گھر بھی آؤں گی۔‘‘ انہوں نے گرم گرم نوڈلز پلیٹوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ بہت مزے کے نوڈلز بناتی تھیں۔ سفیدو ، ٹومی ، پینو اور بھوری سب خوش تھیں۔

مانو آپا کو ٹھیک دیکھ کر اور ان کے ہاتھ کے مزیدار نوڈلز کھا کر۔

اور رہی پارو تو میرے بچو!  اس نے اپنے آپ سے پکا وعدہ کر لیا تھا کہ جب بھی جنگل کا کوئی جانور بیمار ہو گا تو وہ اس کی عیادت کرنے ضرور جائے گی۔ کیونکہ بیمار اگر اکیلا ہو تو وہ کتنی مشکل اور تکلیف محسوس کرتا ہے ، اس کا اندازہ تو پارو کل کی پوری شام ہو ہی  گیا تھا۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ کا بھی کوئی دوست یا رشتہ دار بیمار ہے تو اس کی عیادت کرنے یعنی اس کا حال چال پوچھنے ضرور جائیں۔ اس کے گھر جا کر اس کی خدمت کریں اور کاموں میں بھرپور مدد کریں۔ ایسا کرنے سے اللہ پاک بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنی بے پایاں رحمتیں عیادت کرنے والے پر نچھاور کرتے ہیں۔ پھر آپ کب جارہے ہیں اپنے اس دوست کے گھر چکن کارن سوپ لے کر ، جو بخار کی وجہ سے دو دن سے سکول نہیں آرہا؟  وہاں پہنچ کر اپنے دوست کو میری طرف سے بھی سلام اور دعائیں ضرور پہنچائیے گا!