ریحان کا دایاں ہاتھ ناراض کیوں تھا


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے بچے ریحان کی جس کو ہاکی کھیلنا بہت پسند تھا۔ ریحان اپنے گھر کے صحن میں اپنے بھیا کے ساتھ ہاکی کھیلتا۔ اس کی ہاکی سرخ رنگ کی تھی اور لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ یہ ہاکی ریحان کے ابا تھوڑے دن پہلے ہی اس کے لیے لائے تھے۔

اس دن ریحان کی آپی جان کہنے لگیں۔

’’ریحان! اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ کل سے تم میرے ساتھ سکول جاؤ گے۔‘‘

’’آہا! سکول!‘‘ ریحان نے بائیں ہاتھ سے سیب کھاتے ہوئے کہا۔’’ آپی! کیا میں سکول  میں ہاکی کھیل سکتا ہوں؟‘‘

’’ہاں ! کیوں نہیں! لیکن تم پھر بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہو۔ ابھی تھوڑی دیر پہلےہی تو ابا نے تمھیں سمجھایا تھا کہ اچھے بچے سیدھے ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘

’’آں! ہاں! وہ۔۔ میں بھول جاتا ہوں آپی! ‘‘ پھر ریحان نے جلدی سے سیب کو دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بولا۔


’’بتائیں ناں! آپی! سکول میں ہاکی کھیلنے کے لیے بہت ۔۔ بڑی جگہ ہوتی ہو گی؟‘‘

’’جی بالکل! وہاں بڑا سا میدان ہے جو ہاکی فٹ بال اور کرکٹ کے ہی لیے بنایا گیا ہے ۔‘‘

’’ہمم!!پھر تو میں ضرور سکول جاؤں گا آپی!‘‘ ریحان نے سوچتے ہوئے کہا۔ اسی سوچ میں وہ پھر سے بائیں ہاتھ سے سیب کھانے لگ گیا تھا۔

آپی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے ہوم ورک میں مصروف ہو گئی تھیں۔

بچو! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ریحان شروع ہی سے لیفٹ ہینڈڈ تھا یعنی ہر کام بائیں ہاتھ سے کرتا تھا۔  کھانا کھانا، چیزیں پکڑنا، جھولے سے لٹکنا ، پانی کی بوتل اٹھانا  حتیٰ کہ ہاکی کھیلنا! سبھی کام وہ بائیں ہاتھ سے کرتا تھا۔

ابا جان اور امی جان دونوں ہی سمجھا چکے تھے کہ کھانا تو دائیں ہاتھ سے ہی کھانا چاہیے۔ ننھاریحان تھوڑی دیر کے لیے سمجھتا پھر بھول جاتا۔

آج ریحان کا سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے کلاس میں جاتے وقت ہاکی والا میدان دیکھ لیا تھا۔ ’’یہاں ہاکی کھیلنے کا کتنا مزہ آئے گا!‘‘

اس نےسوچا۔

پھر سکول جاتے جب دو ہفتے ہو گئے تو کھیلوں کا ہفتہ شروع ہو گیا۔ اس دن ایک نئی میڈم کلاس میں آئیں اور کہنے لگیں۔

’’جونئیر ہاکی کے لیے کون کون ٹیم میں آنا چاہتا ہے۔ اپنا ہاتھ کھڑا کریں۔‘‘

کچھ بچوں کے ساتھ ریحان نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا۔اردو کی میڈم جو پہلے سے کلاس میں موجود تھیں، کہنے لگیں۔

’’ریحان! تم بائیں ہاتھ سے ہاکی کھیلتے ہو بیٹا! اور ہاکی تو دائیں ہاتھ سے ہی کھیلی جانی چاہیے۔‘‘

اعلان کرنے والی میڈم نے یہ بات سنی تو لسٹ میں سے ریحان کا نام کاٹ دیا اور کہنے لگیں۔

’’کوئی لیفٹ ہینڈڈ بچہ ہاکی ٹیم میں شامل نہیں ہو گا۔‘‘

 یہ سن کر ریحان بہت پریشان ہوا۔ اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔وہ بہت اداس اور خاموش نظر آتا تھا۔

گھر آکر بھی ریحان خاموش ہی رہا۔ امی جان کو بہت حیرت ہوئی۔ ویسے تو وہ آتے ہی بیگ ایک طرف رکھتا اور سکول کی ڈھیر ساری باتیں امی کو بتاتا۔ لیکن آج اس نے خاموشی سے جوتے اتارے اور بیگ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

جب امی اسے کھانے کے لیے بلانے کے لیے گئیں تو ریحان اداس بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔

’’امی جان! میڈم کہتی ہیں کہ میں بائیں ہاتھ سے ہاکی نہیں کھیل سکتا۔ ‘‘

امی کہنے لگیں۔

’’ہاں بیٹا! ہاکی تو دائیں ہاتھ سے کھیلے جانے والا کھیل ہے۔ کوئی بات نہیں! تم کسی اور کھیل میں حصہ لے سکتے ہو۔ چلو! آؤ! اب کھانا کھا لو۔‘‘

ریحان  باہر چلا آیا اور نے میز پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگا۔

’’لیکن میں سارے کھیل بائیں سے ہی کھیل سکتا ہوں ناں!اور۔۔‘‘ ریحان نے یہ کہتے کہتے کھانا شروع کر دیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ بائیں ہاتھ سے روٹی کا نوالہ بنا رہا تھا۔

’’ریحان! میں نے کتنی بار سمجھایا ہے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اچھا! کیا تمھیں پتہ ہے کہ تمھارا دایاں ہاتھ تم  سے ناراض ہے؟‘‘

’’کک۔۔ کیا! نہیں تو!‘‘ ریحان نے ایک دم لقمہ پلیٹ میں رکھ دیا ۔ وہ سوچنے لگا۔

’’کیا واقعی میرا دایاں ہاتھ مجھ سے ناراض ہے؟‘‘

’’لیکن کیوں  امی جان!!‘‘ اس نے حیرانی سے پوچھا۔

’’اس لیے کہ تم کھانا کھاتے وقت ہمیشہ بائیں ہاتھ استعمال کرتے ہو۔ دائیں ہاتھ کا دل کرتا ہے کہ تم اس سے کھانا کھاؤ لیکن تم ایسا نہیں کرتے۔‘‘

یہ کہتے وقت امی مسکرائیں اور کچن میں چلی گئیں۔

کھانے کے بعد بستر پر جاتے وقت بھی ریحان یہی باتیں سوچ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کو نیند آگئی۔ نیند ہی میں اس کو ایسا لگا کہ اس کے دونوں ہاتھ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

’’ہاہاہا! تم نے دیکھا میں ہمیشہ جیت جاتا ہوں۔‘‘ یہ بائیں ہاتھ کی آواز تھی۔

’’کوئی بات نہیں! ایک دن آئے گا جب ریحان کھاتے وقت مجھے ہی استعمال کرے گا۔ تم دیکھ لینا!‘‘ دایاں ہاتھ بولا۔

’’جی نہیں! ریحان کو تو بس مجھے ہی استعمال کرنے کی عادت ہے۔ وہ ہمیشہ بائیں ہاتھ سے ہی کھاتا ہے۔ تمھیں تو وہ پوچھتا بھی نہیں! ہاہا!‘‘ بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔

دائیں ہاتھ سے کچھ نہیں بولا گیا۔ وہ بے حد اداس ہو گیا تھا۔

’’تم ہار گئے! ہی ہی ہی! تم ہار گئے!‘‘ بایاں ہاتھ چلا رہا تھا۔

’’نہیں! نہیں! دایاں ہاتھ نہیں ہارا۔ ۔۔ نہیں ہارا!!‘‘ ریحان نے چلاتے ہوئے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ خاموش تھے۔ ریحان پوری طرح جاگ گیا تھا۔ وہ بستر سے اترا اور کچن میں چلا گیا۔

’’امی! رات کا کھانا کب بنے گا؟‘‘

’’ہائیں! ‘‘ امی نے حیرانی سے اس کی طرف اور پھر گھڑی کی طرف دیکھا جہاں شام کے پانچ بج رہے تھے۔

’’مغرب کے بعد کھانا تیار ہو گا  بیٹا! ابھی تم جا کر کھیلو۔‘‘

’’اچھا۔۔! ٹھیک ہے!‘‘

یہ کہہ کر ریحان صحن میں آگیا۔ جب اس کی نظر سیڑھیوں کے ساتھ پڑی ہوئی ہاکی پر پڑی تو اسے سکول والی بات یاد آگئی۔اس کی آنکھوں میں آگئے۔

’’کیا میں کبھی ہاکی کی ٹیم میں شامل نہیں ہو سکوں گا؟‘‘

’’ریحان! آج رات کو تمھارے دادا ابو آرہے ہیں۔ وہ تمھارے کمرے میں رہیں گے۔ اپنے کھلونے سمیٹ کر الماری میں رکھو اور تکیہ اور چادر ٹھیک کر لو۔ ‘‘

’’آہا! دادا ابو!!‘‘ ریحان کو اپنی سب اداسی بھول گئی۔ وہ دادا ابو کو بہت پسند کرتا تھا اور آج تو وہ رہنے کے لیے آرہے تھے۔ سو وہ بہت خوش تھا۔ اس نے جلدی سے سیڑھیوں میں پڑی ہوئی ہاکی اور گیند اٹھائی، کمرے میں سےریل گاڑی ، بلاکس اور لڈو سمیٹی اور سب کچھ الماری میں رکھ دیا۔ پھر وہ تکیہ اور چادر درست کر کے رکھنے لگا۔

دادا ابو آچکے تھے اور سب مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ دادا ابو یہ دیکھ کر بہت  حیران ہوئے کہ ریحان دائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔

’’ارے! ریحان! تمھیں تو شاباش ملنی چاہیے۔ آج تم ماشاء اللہ! دائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہے ہو۔بہت اچھی بات ہے!شاباش!!‘‘

’’جی دادا ابو! وہ ناں۔۔ میرا دایاں ہاتھ مجھ سے ناراض ہو گیا تھا کیونکہ میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا۔اب میں ہمیشہ دائیں ہاتھ سے ہی کھاؤں گا۔‘‘

دادا ابو یہ سن کر مسکرانے لگے۔ ’’دائیں ہاتھ سے کھانا اور پینا پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ مجھے یقین ہے تم اس سنت پرہمیشہ عمل کرتے رہو گے۔‘‘

پھر دادا ابو نے پوچھا۔ ’’اچھا! تمھارا سکول کیسا جا رہا ہے؟‘‘

’’سکول! ہاں! وہ تو بہت اچھا جا رہا ہے دادا ابو! لیکن میں وہاں ۔۔ ہاکی نہیں کھیل سکتا۔‘‘ ریحان نے اداسی سے ساری بات بتا دی۔

’’اوہو! کوئی بات نہیں! میرے پاس اس کا حل موجود ہے۔ تم بالکل پریشان نہیں ہو۔‘‘ یہ کہہ کر دادا ابو اٹھے اور ہاتھ دھونے چلے گئے۔

اگلے دن اتوار تھا ۔ ریحان کی آنکھ دادا ابو کی آواز سے کھلی جو اسے صحن میں کھڑے بلا رہے تھے۔

’’آیا دادا ابو!‘‘ ریحان نے کہا اور چھلانگ لگا کر بستر سے نکل آیا۔ جب وہ دادا ابو کے ساتھ پچھلےوالے دالان میں پہنچا تو حیران رہ گیا۔ یہاں ایک بڑا سا سبز رنگ کا میز پڑا تھا جس کے درمیان میں سفید رنگ کی چھوٹی سی جالی لگی ہوئی تھی۔ جالی میز کے دائیں بائیں جانب سے باندھی گئی تھی۔ دادا ابو نے ریحان کے ہاتھ  میں ایک نارنجی رنگ کا چھوٹا سا ریکٹ پکڑایا اور کہنے لگے۔

’’میرے پیارے بیٹے! یہ ٹینس کی گیم ہے۔ یہ جسم اور دماغ دونوں کے لیے بہت اچھی ہے۔ آج سے تم ٹینس کھیلا کرو۔ ‘‘

’’لیکن۔۔۔ ! دادا ابو! کیا میں ۔۔ بائیں ہاتھ سے کھیل سکتا ہوں؟‘‘ ریحان نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔ اس نے واقعی ٹینس کا ریکٹ بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔

’’ہاں! کیوں نہیں! بڑے بڑے کھلاڑی جیسے ٹیمو بال، مشل میز اور شو شن دائیں ہاتھ سے ٹینس کھیلتے ہیں اور بہت سارے ایوارڈ بھی جیتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’آہا! زبردست! شکریہ دادا ابو!‘‘ ریحان نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا اور میز کی دوسری جانب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اگرچہ اس کا قد ٹینس کی میز سے کچھ ہی اونچا تھا لیکن  مجھے یقین ہے  بڑے بڑے ایوارڈز جیتنے کے لیے اس کا شوق اور حوصلہ کبھی چھوٹا نہیں پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچو! ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ’’جب تم میں سے کوئی کھائے تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پیے تو دائیں ہاتھ کے ساتھ پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ کھاتا ہے او ربائیں کے ساتھ پیتا ہے۔ (مسلم: 105)

اگر آپ لیفٹ ہینڈڈ ہیں تو کوئی بات نہیں۔ کوشش کریں کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھائیں اور دائیں ہاتھ سے ہی پانی پیئیں۔ریحان کے دادا ابو کی طرح مجھے یقین ہے آپ بھی  دائیں ہاتھ سے کھانے کی سنت پر ہمیشہ عمل کرتے رہیں  گے۔ پھر کھیل تو کوئی سا بھی ہواس کے لیے بس ہمت، حوصلہ  اور شوق چاہیے ہوتا ہے۔ ٹینس ہو یا کرکٹ! لیفٹ ہینڈڈ کھلاڑیوں نے اکثر میچ کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ بھی کوئی نہ کوئی کھیل لازمی کھیلیں تا کہ آپ جسمانی اور ذہنی طور پرتندرست  رہیں اورپیارے ملک کا نام بھی روشن کر سکیں۔