میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس وقت کی جب سیما اور اس کی سہیلیوں نے مینا بازار میں حصہ لینے کا سوچا۔
"امی!
ہمارے سکول میں مینا بازار ہو رہا ہے۔ میں ردا اور تانی... ہم بھی سٹال لگانا
چاہتے ہیں۔" اس دن سیما نے گھر آتے ہی امی کو بتایا۔
"یہ
تو بہت اچھی بات ہے۔ پھر کیا سوچا؟" امی نے پوچھا۔ ساتھ ہی وہ اس کے لیے
کھانا گرم کر رہی تھیں۔
"ہم
وہ والا سوپ بنائیں گے جو آپ نے میری برتھ ڈے پر بنایا تھا۔ وہ۔۔ امم۔۔۔!"
سیما نے سوچتے ہوئے کہا۔
"آں
ہاں! چکن کارن سوپ! یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے۔"
"امی!
آپ ہمیں بس سوپ بنا دیں۔ ہم اس میں انڈے، ساس اور ہری مرچوں والا سرکہ خود ڈالیں
گے۔"
"چلو
ٹھیک ہے۔ اب کھانا شروع کرو۔" امی نے کہا تو سیما اچھل کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
کھانا کھاتے ہوئے بھی وہ چکن کارن سوپ اور مینا بازار کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
آخر
مینا بازار والا دن آگیا۔ سیما صبح سے ہی پرجوش تھی۔ وہ تیز تیز ناشتہ کر رہی تھی۔
"امی!
جلدی کریں ناں! ہم نے سٹال پر پھول بھی سجانے ہیں۔"
اس
نے دودھ کا آخری گھونٹ لیا تو امی کچن سے باہر آ گئیں۔ انہوں نے سارا سامان بھیا
کے ہاتھوں گاڑی میں رکھوایا۔ ایک چھوٹا سا چولہا، سوپ سے بھری ہوئی دیگچی، چلی
ساس، سویا ساس اور سرکہ کی بوتلیں۔
انڈوں
کا باکس اور رومال ردا لے کر آرہی تھی۔سٹال پر بچھانے کے لیے۔صاف شیٹ، کپ اور
چمچیں تانی کی ذمہ داری تھی۔
جب
تینوں سہیلیوں نے سٹال لگا لیا تو اچانک سیما کو یاد آیا۔
"وہ پھول تو رہ ہی گئے۔ اوہ!"
"کون
سے پھول" ردا نے شیٹ کو کناروں سے سیٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
اتنے
میں پیچھے سے آواز آئی۔
"سیما!
تم یہ پھول گاڑی میں ہی چھوڑ آئی تھی۔"
سیما
ردا اور تانی اچھل ہی پڑیں۔
یہ
بھیا تھے جو گاڑی سے پھول لے آئے تھے۔
"اوہ
شکریہ بھیا! آپ بہت اچھے ہیں۔"
"اچھا
میں چلتا ہوں۔ یاد ہے ناں! پہلے انڈے اچھی طرح پھینٹنے ہیں پھر سوپ والی دیگچی میں
ڈالنے ہیں۔"
"جی
بھیا! مجھے یاد ہے۔" سیما نے کہا۔
کیا
آپ سوپ نہیں چکھیں گے؟" تانی نے پوچھا تو بھیا کہنے لگے۔
"نہیں
مجھے کالج سے دیر ہو رہی ہے۔"
یہ
کہہ کر وہ چلے گئے۔
ساڑھے
آٹھ بجتے ہی بچے اور بڑے آنا شروع ہو گئے۔ سیما نے جلدی سے برنر آن کیا۔ ردا نے
انڈوں کو باکس سے نکالا اور پیالے میں ڈال کر پھینٹنے لگی۔
"آہا!
یہ تو بڑے مزے کا کام ہے۔" اس نے زور زور سے پیالے میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا۔
"تن
ٹنن ٹنن"
پیالے
میں چمچ ہلانے سے آوازیں بھی آ رہی تھیں۔
"لاو
مجھے دو اب۔ میں بھی پھینٹوں گی۔" سیما نے اس کے ہاتھ سے چمچ لینا چاہی۔
"جی
نہیں! یہ میں نے باکس سے نکالے ہیں۔ تم دو اور نکال لو۔ اور دوسرے پیالے میں پھینٹ
لو۔"
پھر
کیا تھا! تانی کا بھی دل کرنے لگا کہ وہ بھی انڈے پیالے میں انڈیل کر زور زور سے
چمچ ہلائے اور ٹن ٹن ٹن کی آواز آئے۔
تھوڑی
دیر بعد پہلے ردا نے دو پھینٹے ہوئے انڈے دیگچی میں انڈیلے، پھر دو انڈے سیما نے
اور پھر ردا نے۔
یوں
سوپ والی چھوٹی سی دیگچی میں چھ انڈے ڈالے جا چکے تھے۔
سیما
نے کچھ دیر بعد ڈھکن ہٹا کر دیکھا۔ سوپ سفید رنگ کا ہو گیا تھا۔
"امم!
امی والا سوپ تو اس رنگ کا نہیں تھا۔"
پھر
ردا اور تانی نے بھی دیگچی میں جھانک کر دیکھا۔ انہیں سمجھ نہ آئی کہ سوپ کا رنگ
اتنا سفید کیسے ہو گیا تھا۔
"سیما!
مجھے ایک کپ سوپ دے دو۔ اس کی کیا قیمت ہو گی؟"
یہ
سیما کا کلاس فیلو علی تھا۔ اس نے اچک اچک کر دیگچی کے اندر دیکھنے کی کوشش کی تو
سیما نے جلدی سے ڈھکن بند کر دیا۔
"دس
روپے"
"پورے
دس روپے! اچھا! ٹھیک ہے۔" علی نے کہا اور اپنی جرسی کی جیب میں سے پانچ پانچ
کے دو سکے نکال کر میز پر رکھ دیے۔ تانی نے سکے اٹھا کر منی باکس میں ڈالے۔
سیما نے پیالے میں سوپ انڈیلا اور ردا نے اس میں ساس اور سرکہ کے دو دو قطرے
ٹپکائے۔
"
ہمم! مزے کا لگ رہا ہے۔" علی نے خوشی سے کہا اور بھاپ
اڑاتا ہوا پیالہ تانی کے ہاتھ سے لے لیا۔جیسے ہی اس نے پہلا چمچ لیا اس کے
منہ سے نکلا۔
"آخ
تھو!! یہ کیسا سوپ ہے؟ اتنا کڑوا!" ابھی علی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ پیالہ اس
کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔
"چٹانک"
کی آواز آئی۔
سیما
ردا اور تانی کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سوپ کڑوا
کیسے ہو گیا۔
"میرے
پیسے واپس کرو۔ مجھے نہیں پتہ!" علی نے یہ کہہ کر رونا شروع کر دیا۔
"جی
نہیں۔ تم نے ہمارا پیالہ توڑا ہے۔ ہم تمھارے پیسے واپس نہیں کریں گے۔"
ابھی
علی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ علی کی امی وہاں آگئیں۔ انہوں نے پیالہ ٹوٹنے پر سیما
ردا اور تانی سے معذرت کی اور علی کو وہاں سے لے گئیں۔
ردا
نے علی کی امی کے جانے کے بعد سوپ تھوڑا سا چکھا۔
"یہ
تو واقعی کڑوا ہے۔"
یہ
سننا تھا کہ سیما اور تانی نے بھی ایک ایک چمچ سوپ پیا۔ لیکن پیتے ساتھ ہی انہیں
ابکائی آ گئی۔
"یہ
کیسے ہو گیا۔" سیما کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"اب
کیا کریں؟" تانی نے اداسی سے سوپ والی دیگچی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کیا
ہو رہا ہے بچو!" سیما کی اردو کی میڈم وہاں سے گزریں تو پوچھنے لگیں۔ سیما نے
جلدی جلدی سب بتایا تو وہ کہنے لگیں۔
"تم
لوگ پریشان نہ ہو۔ سیما میں تمھاری امی کو فون کر کے ساری صورتحال بتاتی ہوں۔"
پھر
تھوڑی دیر بعد سیما کی امی جان ایک اور دیگچی میں سوپ لے آئیں۔
"شکر
ہے میں نے کچھ سوپ گھر کے لیے بھی بنا رکھا تھا۔ سیما! اب جلدی سے اس مین انڈے
پھینٹ کر ڈالو۔"
"امی!
امم۔۔۔۔ کتنے انڈے!" سیما نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
"دو۔۔۔
لیکن کیا مطلب! کیا تم لوگوں نے باکس کے سارے انڈے پھینٹ کر ڈال دیے تھے؟"
اچانک امی نے پوچھا تو سیما ردا اور تانی نے سر جھکا لیا۔
امی
ہنسنے لگیں۔
"
اس دیگچی میں تو بس دو ہی انڈے ڈالنے چاہیے تھے۔ شاید انڈوں کے
زیادہ ہونے کی وجہ سے سوپ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔"
"چلو
کوئی بات نہیں! چلو ردا آپ پیالے کے ساتھ ٹشو پیپر سیٹ کرو اور تانی آپ چمچ اور
ساس کی بوتلیں ٹھیک کر کے رکھ دو۔"
بچو!
اس دن سیما ردا اور تانی نے سیکھا کسی بھی چیز کی زیادتی اچھی نہیں ہوتی۔ اور جب
بھی کچھ پکانا ہو تو بڑوں کی ہدایت کو غور سے سنیں۔
ارے!
کیا آپ چکن کارن سوپ پینے جا رہے ہیں جو امی نے ابھی ابھی آپ لے لیے پیالے میں
انڈیلا ہے اور جس سے بھاپ اور مزیدار خوشبو آرہی ہے۔ ٹھہریے! پیالہ اٹھانے سے پہلے
امی جان کا شکریہ ادا کیجیے جو اتنی محنت سے آپ کے لیے مزے مزے کے کھانے بناتی
ہیں۔