دادی جان کا تحفہ


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے ریحان کی جو رنگوں کو صحیح طرح دیکھ نہیں پاتا تھا۔ اس دن بھی جب دادی جان گاؤں سے آنے والی تھیں،امی جان نے ریحان سے کہا۔

’’بیٹا! جلدی سے اپنے کپڑے بدل لو۔ اور ہاں! میں نے تمھارے سارے کھلونے سمیٹ کر ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔ دوبارہ سے انہیں مت بکھیرنا۔‘‘

’’ٹھیک ہے امی جان!‘‘ ریحان نے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ امی کچن  میں مختلف کھانے بنانے میں مصروف ہو گئیں۔ ریحان تھوڑی دیر بعد واپس آگیا۔

’’امی! میں سرخ رنگ کی جرسی پہننا چاہتا ہوں۔جو آپ نے نکالی ہے وہ تو سبز رنگ کی ہے۔‘‘

ریحان نے الجھتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا! وہ سرخ رنگ کی ہی ہے۔ دراصل تمھیں وہ سبز دکھائی دے رہا ہے۔اب  تم اسے پہن لو۔ دیکھنا! دادی جان کہیں گی میرا  ریحان کتنا پیارا لگ رہا ہے اس جرسی میں۔‘‘


’’اچھا! امم۔۔۔۔ٹھیک ہے۔ ‘‘ ریحان نے  کچھ سوچ کر جواب دیا اور کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔

دادی جان آئیں تو اپنے ساتھ بہت سارے تحفے بھی لائیں۔ کھیتوں کا تازہ ساگ ، رس بھرے مالٹے اور ریحان کے لیے لکڑی کی بنی ہوئی ریل گاڑی جس کے ڈبے مختلف رنگوں کے تھے۔

’’آہا! میرا بیٹا! یہاں آؤ! ماشاء اللہ ! کتنا بڑا ہو گیا ہے!‘‘ دادی جان نے ریحان کو دیکھتے ہی پیار سے اس کو اپنے پاس بلایا۔ جب وہ پچھلی بار آئیں تھیں تب ریحان کی عمر صرف ایک سال تھی۔

’’بھلا کتنے سال کا ہو گیا ہے میرا بیٹا!‘‘ دادی جان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

’’پورے چھ سال کا !! اور پورے تین فٹ اور پچھتر انچ کا! یہ دیکھیں دادی جان!‘‘ ریحان اچھل کر ان کی گود سے اترا اور پنجوں کے بل کھڑا ہو گیا۔

’’آہاہا! کتنی پیاری باتیں کرتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ! سکول جانا شروع کیا؟‘‘

دادی جان بہت دیر ریحان کے ساتھ باتیں کرتی رہیں۔

رات کو جب امی جان دادی جان کا لایا ہوا ساگ صاف کرنے میں مصروف تھیں، تو ریحان بھی کچن میں چلا آیا۔ دادی جان بھی وہیں ایک کرسی پر بیٹھی امی کی مدد کروارہی تھیں۔

’’امی جان! یہ ساگ جلا ہوا کیوں ہے؟‘‘

’’ہائیں! نہیں نہیں! بھلا جلا ہوا کیوں ہونے لگا؟ اچھا بھلا تازہ تازہ توڑا ہوا ساگ ہے۔‘‘ دادی جان کچھ حیرت سے بولیں۔

’’نہیں دادی جان! یہ سیاہ رنگ کاہے۔ اس دن امی سے روٹی جل گئی تھی ۔ وہ بھی سیاہ رنگ کی ہو گئی تھی۔ یہ بھی ویسا ہی لگ رہا ہے۔ امی جان! کیا ساگ اسی رنگ کا ہوتا ہے؟‘‘ ریحان چمچ کے سٹینڈ سے کھیلتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

امی ، دادی جان کو دیکھ رہی تھیں جن کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پھر امی نے ریحان  سے کہا۔

’’ہاں! بیٹا! اب آپ جا کر ریل گاڑی سے کھیلو!‘‘

ریحان کے جانے کے بعد  وہ دادی جان سے کہنے لگیں۔’’خالہ جان! ریحان رنگوں کی صحیح پہچان نہیں کر پاتا۔اسے ہر سبز چیز سیاہ رنگ کی نظر آتی ہے۔ ‘‘

’’اوہ! اوہ!! ‘‘ دادی جان کے منہ سے نکلا۔ پھر وہ خاموش ہو گئیں۔

اگلے دن ریحان ریل گاڑی سے کھیل رہا تھا۔ دادی جان اسے کھیلتا ہوا دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔

’’دادی جان! یہ دیکھیں! یہ پہلا ڈبہ سیاہ رنگ کا ہے۔ دوسرا سرمئی اور تیسرا ہلکا سبز۔‘‘ ریحان نے فخر سے بتایا۔

’’مجھے امی جان نے سب رنگ یاد کروادیے ہیں۔ اب میں سڑک پارکرتے وقت دیکھتا ہوں۔ اشارے کی بتی کس رنگ کی ہے۔ جب وہ سفید رنگ کی ہوتی ہے تو ہی میں سڑک پار کرتا ہوں۔میں ٹھیک کرتا ہوں ناں دادی جان!‘‘

ریحان نے دادی جان گھٹنا ہلایا جو خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھیں۔

’’ہاں! بالکل ٹھیک کرتا ہے میرا ریحان! شاباش! اچھا! تمھارا ایک تحفہ تو باقی ہے۔ میں نے منگوارکھا ہے۔ کچھ دنوں میں آجائے گا۔مجھے یقین ہے تمھیں وہ تحفہ بہت پسند آئے گا۔‘‘

’’دادی جان! کیا واقعی! کیا وہ کوئی ریسنگ کار ہے پھر بیٹ بال!‘‘ ریحان نے پوچھا۔ وہ بہت خوش تھا۔

’’نہیں! یہ تو سرپرائز ہے بیٹا! اچھا چلو! یہ بتاؤ! آج میں تمھارے لیے کیا بناؤں؟‘‘

’’امم! وہ والے نوڈلز جس میں سرمئی  رنگ کی سبزیاں ہوتی ہیں۔ ‘‘

دادی جان سمجھ گئیں کہ ریحان سبزیوں والے نوڈلز کی  بات کر رہا ہے جن میں نارنجی  گاجریں، سبز مٹر اور شملہ مرچ ، سرخ ٹماٹر اور جامنی رنگ کے پیاز ڈالے جاتے ہیں لیکن ریحان کو ان سب رنگوں کی پہچان نہیں تھی۔ اسے ہر رنگ سرمئی، سیاہ اور ہلکا سبز نظر آتا تھا۔

اگلے دن پیر تھا۔ ریحان کا سکول میں یہ پہلا دن تھا۔ جب وہ واپس آیا تو بہت اداس تھا۔

’’امی! آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ میں ہر رنگ کو غلط کہتا ہوں۔ میرے نئے دوست نے کہا۔ ریحان اتنا بڑا ہو گیا لیکن اسے  گلاب ، سیب اور آسمان کا رنگ ہی نہیں پتہ!‘‘

امی کہنے لگیں۔

’’بیٹا! کوئی بات نہیں۔ میں آپ کی ٹیچر سے بات کروں گی۔ ‘‘

’’امی! گلاب سرمئی رنگ کا ہوتا ہے ناں۱‘‘

امی کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ دادی جان بھی ان کی باتیں سن رہی تھیں۔وہ کہنے لگیں۔

’’نہیں! بیٹا! گلاب گلابی یا سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ یہ لو! یہ میں نے تمھارے لیے نئی عینک منگوائی ہے۔یہ تمھارا  نیاتحفہ ہے۔ ‘‘ یہ کہہ دادی جان نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک ڈبے میں سے ایک سیاہ رنگ کی عینک نکالی اور ریحان کو تھما دی۔

’’آہا! یہ سن گلاسز ہیں ناں! شکریہ دادی جان! یہ بہت اچھا تٖحفہ ہے!‘‘ ریْحان نے خوشی سے نعرہ لگایا۔

’’ہاں! ہاں! وہی ہیں۔ ‘‘

ریحان نے دادی جان کے ہاتھ سے لے کر چشمہ آنکھوں پر لگالیا۔ لیکن یہ کیا! اب اسے کوئی ہی دنیا نظر آرہی تھی۔ دادی جان کی جامنی شال، امی کے ہاتھ میں نیلی ٹوکری،  سرخ اور سفید رنگ کی کرسیاں اور کھڑکی سے جھانکتا ہوا زرد امرودوں والا درخت!

’’آہا! اوہ! اوہ! امی جان! دادی جان! یہ ۔۔ یہ تو۔۔!‘‘ ریحان کے منہ سے نکلا اور وہ گم صم سا ہو کر باہر کیاری کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ آج وہ پہلی بار ان سارے پتوں اور پودوں کو سبز رنگ کا دیکھ رہا تھا جو اسے سرمئی اور سیاہ رنگ کے نظر آتے تھے۔ پہلی بار اس نے دیکھا کہ گلاب واقعی بہت خوبصورت رنگ کا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لگا ہوا گیندا  اور اسی کےساتھ پھیلی ہوئی بوگن بیل اور بھی پیاری! کیاری کے ساتھ لگی ہوئی اینٹیں نیلے رنگ کی تھیں اور ان کے ساتھ ساتھ  اگی ہوئی گہرے سبز پتوں کی باڑ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

بچو! ریحان اب اکثر یہ عینک لگا کر رکھتا ہے۔ اس کے بغیر ریحان کو رنگ صحیح طرح نظر نہیں آتے۔ سکول میں اس کی سب ٹیچرز کو یہ بات معلوم ہے اور وہ ریحان کی ہر معاملے میں مدد کرتی ہیں۔ ریحان کی امی جان نے اس کے لیے موبائل فون میں ایسی اپیس ڈاؤن  لوڈ کی ہیں جو ریحان کو صحیح رنگ بتانے میں مدد کرتی ہیں۔ دادی جان نے اسے کمرے کی چیزوں پر لیبل لگانا بتلایا ہے بلکہ وہ گاؤں جانے سے پہلے پہلے اس کے تمام کھلونوں اور کپڑوں کی الماری کی ریکس پر لیبل لگاکر گئی ہیں۔ جیسے  نیلی جرسیاں اس ریک میں دائیں طرف ہیں۔ سبز ٹی شرٹیں نچلے خانے میں بائیں طرف ہیں۔ آخری دراز میں سیاہ جرابیں ہیں۔ گلابی مفلر اور ٹوپی کیل کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔ریل گاڑی  کے ہر ڈبے پر بھی دادی جان نے  رنگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پیلی کاپٹر ہر نیلا، چھلانگیں لگانے والے بندر پر نارنجی ، ٹیڈی بئیر پر جامنی اور ریسنگ کار پر زرد لکھا ہوا ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو!اللہ پاک کا شکر ادا کریں اگر آپ اللہ پاک کی بنائی ہوئی دنیا کے سب رنگ ٹھیک ٹھیک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کتنی پیاری بات ہے کہ آپ سرخ گلاب ، نیلا پانی ، سبز گھاس اور سرمئی پہاڑ وں کو اپنے اصل رنگوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں تو آپ کو اس نعمت کے  لیے دل سے اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ 

اگر آپ کا کوئی دوست ان  رنگوں کو ٹھیک طرح دیکھ نہیں پاتا تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس کو بتائیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی دنیا کتنی خوبصورت ہے! دنیا کتنی رنگ برنگی اورپیاری ہے۔اس کی مدد کریں اور اس کا پورا ساتھ دیں۔اس کو کبھی یہ نہ کہیں تم میں کوئی کمی ہے۔ ہر انسان کو اللہ نے بنایا ہے اور ہر انسان اپنے آپ میں خوبصورت اور مکمل ہے۔  ہاں! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ریحان نے اب کانٹیکٹ لینس لگوا لیے ہیں جو اسے رنگوں کی پہچان میں گڑبڑ نہیں کرنے دیتے۔  وہ بڑا ہو گیا ہے اور میری یہ کہانی پڑھ کر مسکرا رہا ہے۔