میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک لمبے بھورے بالوں والی بلی مانو کی جو جنگل کے کنارے رہا کرتی تھی۔ مانو روز صبح سویرے اٹھتی اور کھانا ڈھونڈنے یہاں وہاں نکل جاتی۔ اکثر اسے جنگل کے اندر ہی سے کھانے کو گوشت مل جاتا۔
آج کل مانو نے ایک عجیب سی عادت بنا لی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ نہ
کچھ کھاتی رہتی تھی۔ اس دن بھی مانو نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ یہ ببر شیر کا
چھوڑا ہوا شکار تھا۔ مانو نے اس میں سے کچھ بچی ہوئی بوٹیاں رات کے لیے اٹھا لیں
اور اپنے گھر لے گئی۔
رات کو اس نے اپنا بستر ٹھیک کیا جو بھالو میاں نے اسے تحفے میں
دیا تھا۔ یہ گھاس پھونس اور روئی سے بنا ہوا تھا اور اس میں مانو کو بالکل بھی
سردی نہیں لگتی تھی۔
"آہا!
کتنا اچھا بستر ہے۔ میرا خیال ہے مجھے بھی بھالو میاں کو کوئی اچھا سا تحفہ دینا
چاہیئے۔ اممم۔۔۔ کچھ کھانے کی چیز ۔۔ جیسے۔۔ جیسے۔۔!"
کھانے کی چیز کا سوچ کر مانو کو وہ بوٹیاں یاد آگئیں جو وہ آج
جنگل سے لائی تھی۔
"ایسا
کرتی ہوں انہیں کھا لیتی ہوں۔ ہو سکتا ہے صبح تک خراب نہ ہو جائیں۔"
حالانکہ سردی اتنی تھی کہ گوشت تو دو دن تک بھی خراب نہ ہو پاتا
لیکن مانو کو بار بار کھانے کی جو عادت پڑ چکی تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ اٹھی اور
اس نے انگیٹھی جلا کر اس میں گوشت کو ہلکا ہلکا سا بھونا۔ جب مانو بوٹیاں اپنی
پلیٹ میں ڈالیں، خوشبو ہر طرف پھیل گئی تھی۔
ایک ننھا سا سیاہ رنگ کے چیونٹے نے یہ خوشبو سونگھی تو وہ اپنے
بل میں سے باہر آگیا۔ اس نے دراصل مانو کی الماری کے پیچھے اپنا گھر بنا رکھا تھا۔
آج چیونٹا بغیر کھانا کھائے سو گیا تھا۔ اب اسے شدید بھوک لگ
رہی تھی۔
"مانو
بہن! کیا تم مجھے گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کھانے کو دو گی؟ اف توبہ! کتنی سردی
ہے ناں! تمھاری انگیٹھی تو بڑی اچھی سلگ رہی ہے۔"
چیونٹا کہتے کہتے انگیٹھی کے پاس آ گیا تھا۔ وہ اگلی دونوں
ٹانگیں آپس میں ملنے لگا۔ اسے واقعی بہت ٹھنڈ لگ رہی تھی۔
مانو نے منہ بنا کر چیونٹے کو دیکھا اور کہنے لگی۔
"بھئی!
یہ تو میرا کھانا ہے۔ میں تمھیں اس میں سے کچھ نہیں دے سکتی۔"
"ہائیں!
تمھارا کھانا؟ لیکن تم تو کھانا کھا کر آئی تھی آج۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ تمھارا
پیٹ اتنا بھرا ہوا تھا کہ تم سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ "
یہ سن کر مانو کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔
"آں
۔۔ ہاں ہاں! وہ تو پورے ایک گھنٹہ پہلے کی بات ہے۔ مجھے پھر سے بھوک لگ گئی ہے۔"
"یہ
کیسے ہو سکتا ہے۔ ابھی تو بس ایک گھنٹہ۔۔۔۔" چیونٹا کہہ ہی رہا تھا کہ مانو
نے اس کی بات کاٹ دی۔
"اچھا
جاو جاو! اپنا کام کرو۔ مجھے تنگ مت کرو۔ تم اپنے گھر جاو۔"
یہ سن کر چیونٹا اداس ہو گیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے بل
میں واپس چلا گیا۔
صبح آنکھ کھلتے ہی مانو نے سوچا۔
"آج
مجھے دریا پر جانا چاہئیے۔ وہاں مزیدار مچھلی کھاوں گی اور کچھ مچھلیاں اور بھالو
میاں کو تحفے میں دے دوں گی۔"
پھر مانو نے بستر سمیٹ کر ایک طرف رکھا، گھر کے دروازے کو تالہ
لگایا اور دریا کی طرف چل پڑی۔
وہاں پہنچ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ رنگ برنگی مچھلیاں تیز تیز دریا
میں تیر رہی تھیں۔ مانو نے ہاتھ بڑھا کر دو مچھلیاں ایک ساتھ پانی سے نکال لیں۔
پھر اس نے انہیں جلدی جلدی کھا لیا۔
"آہا!
تازہ مچھلی تو بہت مزے کی ہوتی ہے۔ چلو اب بھالو میاں کے لیے پکڑتی ہوں۔ مجھے پتہ
ہے جب وہ تازہ مچھلیاں دیکھیں گے تو وہ بہت خوش ہوں گے۔"
یہ سوچ کر مانو نے جلدی سے قدم بڑھایا تو اچانک اس کے منہ سے
"سی ی ی" کی آواز نکل گئی۔
"آہ!
آہ! یہ کیا ہے۔۔ اوہ! یہ تو۔۔ شاید۔۔ کوئی کانٹا چبھ گیا میرے پاوں میں!"
مانو نے پاوں اٹھا کر دیکھا۔ واقعی وہاں مچھلی کا چھوٹا سا
کانٹا چبھا ہوا تھا۔ اگرچہ کانٹا چھوٹا تھا لیکن مانو کو بہت درد ہونے لگا تھا۔
"آہ۔۔
آہ!!" اس نے واپس مڑتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔
"ابھی
واپس گھر چلتی ہوں۔ باقی مچھلیاں کل پکڑ لوں گی۔"
پھر وہ بہت مشکل سے آہستہ آہستہ گھر کی طرف چل پڑی۔ گھر کی طرف
۔ اسے ایک پاوں اٹھا کر چلنا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے اب اس کی ٹانگ میں درد ہونے
لگا تھا۔
"اف!
اف! اب کیا کروں؟ چلا تو جا نہیں رہا۔ اوہ! میں رات کو کیا کھاوں گی؟" مانو
نے بہت مشکل سے گھر کا دروازہ کھولتے ہوئے سوچا۔
جب وہ گھر میں ہوئی تو اس کی آہ آہ۔سن کر چیونٹا اپنے گھر سے
باہر آگیا۔ وہ الماری کے ایک پائے کے پیچھے چھپ کر مانو کو دیکھتا رہا۔ وہ لنگڑا
کر چل رہی تھی۔ پھر وہ اپنے کمرے میں گئی اور بستر بچھائے بغیر یونہی ٹھنڈے فرش پر
لیٹ گئی۔ آج اسے کچھ کھانے کا بھی بالکل ہوش نہیں تھا۔
جب چیونٹے نے غور سے دیکھا تو اسے مانو کے اگلے پاوں میں چبھا
ہوا کانٹا نظر آ گیا۔ کانٹے کے آس پاس سے اس کا گلابی پاوں نیلا ہو رہا تھا۔
"ہمم!
تو یہ بات ہے۔" چیونٹے نے کہا اور پھر کچھ سوچ کر وہ سوئی ہوئی مانو کی طرف
بڑھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کس طرح مانو نے کل رات اس کو بھوک کے باوجود کچھ بھی
کھانے کو نہیں دیا تھا۔ صرف یہ نہیں بلکہ اسے زور سے ڈانٹا بھی تھا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا مانو کے پاوں کے پاس آیا۔ پھر اس نے
اپنی اگلی ٹانگیں اٹھائیں اور بہت نرمی سے، مانو کے پاوں میں چبھا ہوا کانٹا پکڑ
کر نکال دیا۔
"آہ!
آہ! یہ کون ہے بھئی! اچھا تم! دیکھو چیونٹے بھائی۔۔ " مانو کہتے کہتے ایک دم
رک گئی۔
اسے اچانک محسوس ہوا کہ اب اس کے پاوں میں درد بہت کم ہو گیا
تھا۔
"ارے!
کانٹاکہاں گیا؟" مانو کے منہ سے نکلا۔ پھر اس نے دوبارہ چیونٹے کو دیکھا۔ وہ
ابھی تک اگلی ٹانگوں میں کانٹا پکڑے کھڑا تھا۔
"اوہ!
اوہ! شکریہ چیونٹے بھائی! بہت شکریہ تمھارا! تم نے مجھے درد سے نجات دلا دی۔ یقین
کرو! جب میں مچھلیاں پکڑ رہی تھی تو مجھے یہ کانٹا نظر نہیں آیا تھا۔"
چیونٹے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کانٹا اٹھائے ٹوکری پر چڑھا
اور اس میں پھینک کر نیچے اتر گیا۔ اب وہ اپنے گھر جا رہا تھا۔
"سنو
سنو!" مانو نے اسے آواز دی تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ مانو ہاتھ میں میٹھے
بسکٹ اٹھائے اس کی طرف آرہی تھی۔
"یہ
بسکٹ میری طرف سے تحفہ ہیں۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ وہ۔۔ میں نے کل تمھارے ساتھ۔۔۔
اچھا نہیں کیا۔"
مانو نے رک رک کر کہا۔
"چلو
کوئی بات نہیں۔ بسکٹ کے لیے شکریہ۔ یہ تو میرے پسندیدہ ہیں۔"
چیونٹے نے مسکرا کر کہا اور بسکٹ کا ایک کونا کتر کتر کا کھانے
لگا۔
بچو! اس دن کے بعد سے مانو صرف اتنا ہی کھانا کھاتی ہے جس سے اس
کا پیٹ بھر جائے۔ باقی کھانا وہ اپنے دوست چیونٹے اور درخت کے اوپر رہنے والی
گلہری کو خوشی خوشی دے دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! سب مزیدار چیزیں اکیلے اکیلے ہی کھاجانا تو
کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیشہ شئیر کر کے کھائیں۔ خاص طور ان بچوں کو اپنے کھانے میں
ضرور شامل کریں جو اچھا اور صاف ستھرا کھانا نہیں خرید سکتے۔ اور ہاں! مانو اب بہت
خوش رہتی ہے۔ بھلا کیوں؟ وہ اس لیے کہ شئیر کر کے کھانے پینے سے جو خوشی ملتی ہے
وہ بہت میٹھی اور دیر تک رہنے والی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اپنی فریج
میں رکھا ہوا کیک اس بچے سے ضرور شئیر کریں جو اپنے بابا کے ساتھ آپ کے لان میں
لگے ہوئے پودوں کو پانی دینے آتا ہے!