درختوں کا بدلہ


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے بچے فہد کی جو اپنے دادا ابو کے ملنے گاؤں جا رہا تھا۔

’’امی !! دادا ابو کے گھر کے ساتھ بہت سارے درخت ہیں ناں!‘‘

’’جی بیٹا! وہ آم اور مالٹے کے باغ ہیں۔ میں آپ کو پھر سمجھا رہی ہوں کہ آپ نے درختوں سے پتے نہیں توڑنے۔ دادا ابو کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوں گے۔‘‘ امی نے کہا تو فہد نے سر ہلا دیا۔

وہ سوچ رہا تھا۔

’’وہاں کتنا مزہ آئے گا۔ ہو سکتا ہے میرے کچھ دوست بھی بن جائیں۔‘‘

جب وہ لوگ گاؤں پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔ فہد بہت تھک گیا تھا۔ سو رات کا کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ صبح اس کی آنکھ چڑیوں کی آوازوں سے کھلی۔

’’چوں چوں چوں! چوں چوں!!‘‘

فہد چھلانگ لگا کر بستر سے نیچے اترا ۔ پھر اس نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا اور ناشتہ کیا۔

’’امی میں باغ کی سیر کرنے جاؤں؟‘‘

’’ہاں! ہاں ! جاؤ اور مانی کو بھی ساتھ لے جاؤ۔‘‘

مانی فہد ہی کی عمر کا تھا اور اس کا چچا زاد بھائی تھا۔

جیسے ہی فہد مالٹے کے ایک درخت کے پاس پہنچا ، اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک جھکی ہوئی شاخ سے ڈھیر سارے پتے اتار کر نیچے پھینک دیے۔

’’ہائیں! یہ تم نے کیا کیا؟ ‘‘ مانی نے حیران ہو کر کہا۔

’’بس ایسے ہی۔میں تو اپنے سکول میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں۔ تمھیں پھر کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘


یہ کہہ کر فہد نے ایک اور شاخ پکڑی، پھر دوسرے ہاتھ سے مٹھی بنائی اورسارے پتے کھینچ کھینچ کر اتارنے لگا۔ مانی نے گھاس پر دیکھا۔ نیچے پتوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔

’’یہ تو اچھی بات نہیں فہد۔ دادا ابو کہتے ہیں درخت ہمارے دوست ہوتے ہیں اور۔۔‘‘ مانی کہہ ہی رہا تھا کہ فہد بول اٹھا۔

’’ہاہاہا! تم بھی امی کے جیسی باتیں کر تے ہو۔ جاؤ! تم میرے دوست نہیں بن سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر فہد جلدی سے ایک اور درخت پر چڑھ گیا۔ پھر اس کی شاخوں سے پتے اتار اتار کر نیچے پھینکنے لگا۔

’’فہد! یہ تم کیا کر رہے ہو! نیچے آؤ!‘‘

دادا ابو کی بھاری آواز سنتے ہی فہد اچھل کر رہ گیا۔ اس نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑے پتے ہوا میں اچھالے اور نیچے اتر آیا۔

’’جی ! جی ! دادا ابو!‘‘

’’فہد! درختوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔یہ ہمارے دوست ہیں۔ درخت ہمیں پھل اور سایہ دیتے ہیں۔ انسان اور جانور سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درخت نہ ہوں تو ہم سانس نہ لے سکیں۔  دیکھوتو! تم نے یہ پتے اتار کر اس بے چارے  درخت کا کتنا نقصان کر دیا ہے ۔ کیا تم جانتے ہو! درختوں کو درد بھی ہوتا ہے؟‘‘

’’جج! جی نہیں!!‘‘فہد نے سر جھکائے جھکائے جواب دیا۔ وہ سوچ رہا تھا۔

’’ دادا ابو تو بہت نرم سے ہیں۔ انہوں نے مجھے کوئی خاص  ڈانٹ ڈپٹ نہیں۔ ہاں اگر انہوں نے میری شکایت امی جان سے لگا دی تو پھر میری خیر نہیں۔ ‘‘

دادا ابو نے اسے کافی سمجھایا لیکن ان کی ایک بات فہد کو سمجھ نہ آئی۔

’’ہاں! اگر ہم درختوں کو جان بوجھ کر تنگ کریں ، ان کے پتے توڑیں یا ان کی شاخیں مروڑیں، تو وہ بدلہ بھی لے سکتے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن کیسے؟‘‘ فہد نے الجھن سے سوال کیا۔

’’بس! یہ تو درختوں کو معلوم ہو گا۔ میرا تو خیال ہے تمھیں اس بری عادت سے دور رہنا چاہیے بیٹا! تم تو بہت سمجھدار بچے ہو۔‘‘

یہ کہہ کر دادا ابو ان تین مالیوں کے پاس  دوسرے باغ میں چلے گئےجو درختوں کو پانی دینے میں مصروف تھے۔ یہ مالی دادا ابو کے پرانے ملازم تھے اور بہت محنت سے باغوں کی رکھوالی کرتے تھے۔

فہدنے ایک نظر درخت پر ڈالی۔ پتوں کے بغیر اس کی کئی شاخیں بہت عجیب  لگ رہی تھیں۔ وہ ہوا سے آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔ فہد کو ڈر سا لگنے لگااور وہ جلدی سے گھر کے اندر چلا گیا۔

اگلی صبح، فہد جب باغ میں پہنچا تو موسم بہت اچھا تھا۔ فہد نے دیکھا۔تینوں مالیوں نے ساری شام لگاکر  گھاس پر گرے ہوئے پتے اٹھا دیے تھے۔ سبز سبز گھاس صاف ستھری ہو کر بہت پیاری لگ رہی تھی۔ فہد ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ اچانک اسے  ہاتھوں میں بے چینی سی ہونے لگی۔ اس نے دونوں  ہاتھ ملے اور  ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچا۔

’’بس ایک دو شاخوں سے پتے توڑ لیتا ہوں۔ ‘‘

یہ سوچ کر اس نے ہاتھ بڑھایا اور ایک ساتھ دو شاخوں پر سے پتے اتارنے لگا۔ پھر اس نے نیچے دیکھا۔

’’ہونہہ! اتنے پتے تو ہوا سے بھی نیچے گر جاتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ کسی کو معلوم ہو سکے گا۔‘‘

یہ سوچ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ پھر اس نے اچھل اچھل کر کئی درختوں کی شاخوں کو پتوں سے خالی کر دیا۔

’’اتنا مزیدار کھیل ہے یہ! پتہ نہیں مانی یہ کھیل میرے ساتھ کیوں نہیں کھیلتا۔‘‘

فہد سوچتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ پتوں کو اچھال اچھال کر ہوا میں پھینکتا بھی جا رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ دادا ابو اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے بہت دیر سے دیکھ رہے ہیں۔

’’ہمم! میرا نہیں خیال اب درخت اس کو معاف کر سکیں گے۔ وہ ضرور بدلہ لیں گے۔‘‘ دادا ابو نے افسوس سے  کہا اور آہستہ سے کھڑکی بند کر دی۔

اس رات دو بجے کھٹ پٹ کی آواز سے فہد کی آنکھ کھلی گئی۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر اس کی نظر کھڑکی کی طرف گئی جو باغ میں کھلتی تھی۔

’’ارے! یہ کیسے کھل گئی! میں تو اچھی طرح بند کر کے سویا تھا۔ ‘‘

فہد نے حیرانی سے سوچا۔ اسے بہت سردی بھی لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ ابھی بند کر دیتا ہوں۔ اتنی ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔

پھر وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا۔ اچانک اس نے دیکھا۔ کچھ درخت بہت پاس پاس کھڑے تھے۔ وہ آپس میں سر جوڑے آہستہ سی آواز میں باتیں کر رہے تھے ۔ فہد کھڑکی سے چپک گیا اور اس نے کان لگا کر درختوں کی باتیں سننے کی کوشش کی۔

’’آج تو حد ہی ہو گئی۔ اس شرارتی لڑکے فہد نے پتوں کا ایک پورا ڈھیر میرے اوپر سے توڑ لیا۔‘‘ ایک درخت روتے ہوئے  کہہ رہا تھا۔

’’ہاں! میری توشاخیں اس زور سے کھینچیں کہ مجھے ابھی تک درد ہو رہا ہے۔‘‘ یہ ایک اور درخت تھا ۔

’’بھئی! میں تو کہتا ہوں۔ ابھی چلو! اس لڑکے سے بدلہ لیں۔ آج اس کو ایسا مزہ چکھائیں گے کہ یہ پھر کبھی ہمارے پتے نہیں توڑے گا۔‘‘

’’ہاں ! چلو! چلو!‘‘  چاروں درخت ایک ساتھ بولے۔ پھر وہ قطار بنا کر فہد کی کھڑکی کے پاس آنے لگے۔ اندھیرے میں ان کی ہلتی ہوئی  شاخیں بہت ڈراؤنی لگ رہی تھیں۔ فہد کو اتنا ڈر لگا کہ وہ کھڑکی بند کرنا بھی بھول گیا اور وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔

پھر ایک درخت کی شاخ کھڑکی سے اندر آئی اور اس نے فہد کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’ہمم! تو تم نے اسی ہاتھ سے میری شاخیں کھینچیں اور پتے توڑے۔ میرا خیال ہے مجھے بھی تمھارا ہاتھ اسی طرح توڑ دینا چاہیے۔‘‘ شاخ نے بھاری آواز میں کہا اور وہ فہد کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی۔

’’نہیں! نہیں! اب۔۔ اب میں ایسا نہیں کروں گا۔ مجھے معاف کر دو۔ پلیز! مجھے چھوڑ دو۔‘‘

فہد چلایا۔

’’نہیں! ہم تمھیں ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔تم نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔‘‘ یہ دوسری شاخ تھی جو اندر آتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

یہ کہہ کر اس نے فہد کا دوسرا ہاتھ پکڑلیا۔پھر  ایک اور شاخ نے آکر فہد کو کمر سے پکڑلیا۔ اب فہد کے منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔

’’فہد! فہد! کیا ہوا بیٹا! تم ٹھیک ہو!‘‘ یہ امی کی آواز تھیں جو درواز ہ کھٹکھٹا کر اب اندر آرہی تھیں۔ امی کی آواز سنتے ہی شاخیں  جلدی جلدی کھڑکی سے باہر نکل گئیں جیسے وہ کبھی اندر آئی ہی نہیں تھیں۔ فہد وہیں کھڑکی کے پاس کھڑا کانپ رہا تھا۔

’’پھر تم نے کوئی براخواب دیکھا ہے۔ میں نے کتنی بار کہا ہے اپنے اوپر آیت الکرسی پھونک کر سویا کرو۔ ‘‘ امی نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ فہد جانتا تھا وہ پوری طرح جاگا ہوا تھا اور یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ سچ مچ  ہی میں ایسا ہوا تھا لیکن وہ امی کو کچھ نہ بتا سکا۔

’’یہ دیکھو! کھڑکی پوری طرح کھلی ہوئی ہے۔ فہد! کیا تم نے سوتے وقت کھڑکی بند نہیں کی تھی؟‘‘ امی نے اسے بستر پر بٹھایا اور کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے بولیں۔ فہد نے ایک نظر کھڑکی سے باہر ڈالی۔ وہاں نہ کوئی درخت تھا نہ ہی شاخیں اور ان کی آوازیں۔ سب کچھ ایسے غائب تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

بچو! اگلی صبح فہد جب باغ میں گیا تو اس نے دیکھا۔ گھنے درخت اور ان کی شاخوں کو ابھی ابھی پانی دیا گیا تھا۔ پانی کے قطروں میں سے چمکتے ہوئے پتے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھا کر دیکھا۔ اسے لگا  جیسے درخت کہہ رہے ہوں۔

’’امید ہے! اب تمھیں اچھی طرح سمجھ آگئی ہو گی کہ درختوں کو بلاوجہ نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ ‘‘

’’ہاں! ہاں! مجھے سمجھ آگئی ہے۔ میں اب کبھی تمھارے پتے نہیں توڑوں گا۔ ‘‘ فہد نے بلند آواز میں درختوں سے کہا اور دادا ابو کے کمرے میں چلا آیا۔

عجیب سی بات تھی کہ دادا ابو گہری نیند سورہے تھے جیسے کہ رات بھر جاتے رہے ہوں۔ فہد کے قدموں کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھ بیٹھے اور فہد کو پیارکرنے لگے۔

’’دادا ابو! آپ کے بالوں میں پتے لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘ فہد نے کہا ۔

’’ہاں! ہاں! وہ بس ایسے ہی۔۔‘‘

دادا ابو نے جلدی سے کہا اور  سر پر ہاتھ پھیرا تو تین پتے نیچے آگرے۔ پھر وہ مسکرانے لگے اور فہد سے اس کے سکول سے متعلق  باتیں کرنے لگے۔

میرے پیارے بچو! اس رات دادا ابو نے اپنے تینوں ملازموں کے ساتھ مل کر فہد کو ایک گہر ا سبق دیا تھا۔ وہ یہ کہ درخت ہمارے دوست ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں بے حد فائدہ پہنچاتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ درخت نہ ہوں تو ہم زندہ نہ رہ سکیں۔ اور ہاں! میں نے فہد کو نہیں بتایا کہ وہ درخت اور ان کی آوازیں خود دادا ابو اور مالی بابا ہی تھے۔ آپ بھی نہیں بتائیے گا۔ ویسے ہو سکتا ہے یہ بدلے والی بات  فہد کو بڑے ہونے پر معلوم ہو جائے لیکن تب تک اس کو میری یہ کہانی یاد رہے، میں یہی چاہتی ہوں۔