مونی کا انوکھا پزل


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھی سی بچی مونی کی جو اپنے بابا کو بہت یاد کرتی تھی۔ اس کے بابا جان فوج میں ہوتے تھے اور کئی سالوں سے وہ گھر نہیں آ سکے تھے۔ مونی روز اکثر امی جان سے پوچھتی۔اس دن بھی مونی نے پزل بناتے بناتے پوچھا۔

’’امی! بابا کب آئیں گے؟ جب وہ گئے تھے تب میں تین سال کی تھی۔اب دیکھیں ! میں اتنی بڑی ہو گئی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر مونی نے کھڑے ہو کر دونوں پاؤں اچکائے اور امی کو دیکھا۔

’’بیٹا!جب انہیں چھٹی ملے گی تو وہ آجائیں گے۔ اچھا! کیا تم نے اپنا پزل مکمل کر لیا؟‘‘ امی نے پوچھا۔

’’امم! نہیں! لیکن میں دوپہر تک  کر لوں گی ۔ امی! کیا آپ میری مدد کریں گی؟‘‘ مونی نے کہا۔

امی نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اون اور سلائیاں واپس رکھ دیں اور کہنے لگیں۔

’’ہاں کیوں نہیں! دیکھو! اگر ہم اس ٹکڑے کو یہاں رکھیں اور۔۔۔ اس والے کو یہاں۔ ۔۔ اور پھر سرخ ٹکڑے کو وہاں جوڑیں۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے امی نے سارا پزل ایک نئی ترتیب سے جوڑا اور پھر بورڈ کو پلٹ دیا۔ مونی نے دیکھا  ۔ 


وہاں بابا جان کی تصویر بن گئی تھی۔

ایک کندھے پر گن رکھے، فوج کی وردی میں مسکراتے ہوئے باباجان!!

’’ارے!!! یہ کیا! یہ تو۔۔ یہ تو بابا جان کی تصویرہے!امی ! آپ نے یہ کیسے کیا!‘‘ مونی تو اچھل ہی پڑی۔

امی مسکرائیں اور کہنے لگیں۔ ’’اس طرح سے پزل جوڑنا مجھے تمھارے بابا نے ہی سکھایا تھا۔ اس میں محنت زیادہ لگتی ہے اور یہ کچھ وقت لیتا ہے۔ اگر تم بھی کچھ دن پریکٹس کرو تو بہت جلدی سیکھ جاؤ گی۔‘‘

یہ کہہ کر امی نے اون سلائیاں دوبارہ اٹھا لیں اور دادی جان کے لیے مفلر بننے میں مصروف ہو گئیں۔

مونی کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اس کے ذہن میں خیال آیا۔

’’کیا ہی اچھا ہو اگر میں یہ پزل سکول میں ہونے والے ٹیلنٹ شو میں بنا سکوں! سارا اور مریم تو حیران ہی رہ جائیں گی!‘‘ مونی نے سوچا اور دل لگا کر پزل بنانے کی پریکٹس شروع کر دی۔

آخر کار ٹیلنٹ شو کی صبح بھی آ گئی۔ مونی نے پز ل کے ٹکڑے ایک بیگ میں ڈالے، امی نے بورڈ اٹھایا اور دادی جان کو بتا کر گھر سے نکل آئیں۔ سارا راستہ امی اسے دھیان اور توجہ کے ساتھ پزل حل کرنے کا کہتی رہیں۔

جب شو شروع ہوا تو سب سے پہلے عمر اورسنی نے جمناسٹک کے کرتب دکھائے۔ ہال میں بیٹھے سب بچوں نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ پھر راشداور زارا سٹیج پر آئے۔ انہوں نے بازووں تک پتلیوں والے دستانے چڑھا رکھے تھے۔ وہ منہ سے آوازیں نکالتے اور ساتھ ہی ساتھ ہاتھوں سے پتلیوں کو حرکت دیتے۔ ان کے مزیدار کرتب کو بھی سب لوگوں نے بہت پسند کیا۔پھر علی نے  موسم گرما پر نظم پڑھی لیکن وہ دیے گئے وقت سے پہلے اسے مکمل نہ کر سکا۔ یوں اسے سٹیج سے اترنا پڑا اور اس کے لیے کوئی خاص تالیاں بھی نہیں بجیں۔ مونی سوچنے لگی۔

’’کیا میں دیے گئے اس تھوڑے سے وقت میں اتنا بڑا پزل مکمل کرلوں گی؟‘‘

یہ سوچ سوچ کر اس کا دل پریشان سا ہو گیا۔ اس نے ساتھ بیٹھی ہوئی امی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑلیا۔ امی نے اس کے ہاتھ تھپتھپایا اور اس کو اپنے ساتھ لگالیا۔

 پھر کئی اور بچوں کے بعد مونی کی باری آہی گئی۔

مونی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔  بڑی کلاس کے ایک  لڑکے نے اس کا بورڈ اٹھا کر سٹیج پر پڑی ایک کرسی پر رکھ دیا۔ مونی نے پزل کے ٹکڑوں والا بیگ اٹھایا اور سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ آخری سیڑھی چڑھنے سے پہلے اس نے پہلی رو میں بیٹھی ہوئی امی جان کی طر ف دیکھا۔ وہ مسکرارہی تھیں ۔

مونی کو ان کی مسکراہٹ میں کچھ عجیب سا محسوس ہوا لیکن اس نے اپنا دھیان پزل کی طرف لگایا۔ وہ کرسی کی طرف بڑھی اور تیزی سے پزل کے ٹکڑے نکال نکال کر جوڑنے لگی۔ اس کی نظریں گھڑی پر بھی تھیں جس پر بڑی سی سیکنڈز کی سوئی حرکت کر رہی تھی۔

اور پھر آخری دس سیکنڈ رہ گئے۔

نو۔۔آٹھ۔۔سات۔۔ چھ۔۔ ۔

مونی کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ اتنی تیزی سے اس نے کبھی بھی پزل نہیں بنایا تھا۔

پانچ۔۔ چار۔۔ تین۔۔۔

مونی نے ٹکڑوں کی جانب دیکھا۔ ابھی بھی چار ٹکڑے باقی تھے۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں دو دو ٹکڑے اٹھا لیے اور تیزی سے پزل کی طرف بڑھی۔ اس تیزی میں اس کا پاؤں کرسی کے پاؤں سے ٹکرایا اور پزل  کا بورڈ۔۔ ایک زوردار آواز کے ساتھ زمین پر گر گیا۔

ہال میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ وہ بچے جو چیخ چیخ کراور تالیاں بجا بجا کر مونی کو ہمت دلا رہے تھے، ان کے ہاتھ رک گئے اور وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔

مونی کے دل کی کیا حالت تھی، یہ تو وہی جانتی تھی۔ لیکن اچانک! بالکل اچانک ہی سٹیج کے پچھلے پردے ہلے اور مونی کوبابا جان کی تصویر دکھائی دی جو مسکرارہی تھی۔ اسی طرح ایک کاندھے پر گن اٹھائے، فوج کی سبزی وردی پہنے اور مسکراتے ہوئے۔  مونی پزل کے گرنے کا غم، اور ساری کوشش ضائع جانے کا غم بھول کر بابا جان کی تصویر کو دیکھنے لگی۔ پھر اسے اچانک محسوس ہوا ۔ یہ تصویر حرکت کر رہی تھی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کی جانب آرہی تھی۔

اچانک بابا جان کی تصویر اس کے پاس آکر رک گئی۔ مونی نے آنسوؤں سے بھری پلکیں اٹھا کر اوپر دیکھا۔ پھر اس نے دوبارہ پلکیں جھپکیں اور غور سے دیکھا۔ یہ تو بابا جان کی تصویر نہیں تھی ۔۔ بلکہ یہ خود اس کے اپنے اور پیارے بابا جان تھے !

’’بابا جان!! بابا ! امی ! باباجان آگئے!!‘‘

مونی نے بے حد خوشی سے نعرہ لگایا۔ پھروہ  اچھل کر بابا کی گود میں چڑھ گئی۔ بابا جان نے اسے سینے سے لگالیا۔ بابا کے کندھے سے لگے لگے جلدی جلدی اپنے آنسو صاف کر لیے۔وہ اپنے آنسو ؤں سے بابا جان کو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یقیناً یہ ایک سرپرائز تھا،بہت خوبصورت سرپرائزجو امی نے سکول کے پرنسپل سے مل کر مونی کے لیے ترتیب دیا تھا۔ہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ کیا بچے کیا بڑے ، سبھی  ننھی منی مونی کے لیے خوش محسوس کر رہے تھے۔

بچو! اگر چہ اس ٹیلنٹ شو میں مونی کو پزل کے گر جانے کی وجہ سے کوئی انعام نہیں مل سکا، لیکن مونی کے بابا جان کا اچانک اس سے آملنا، یقیناً اس کے لیے انعامات کے ڈھیر سے بھی کہیں زیادہ تھا!! جی ہاں!!

میرے پیارے بچو! اگر آپ کے بابا جان بھی کہیں دور گئے ہوئے ہیں تو ابھی ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے اور ان کی خیرت کے لیے دعا کیجیے۔ اور اگر آپ کے بابا جان آپ کے پاس بیٹھے ہیں تو اٹھیے اور ان کے ہاتھ چومیے کیونکہ ہر خوشی ہر مسرت بابا جان کے بغیر ادھوری ہے!