میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے بچے ، عمر کی جس نے نیا نیا سکول جانا شروع کیا تھا۔ عمر جب بھی سکول جانے کے لیے اٹھتا، اسے بہت نیند آتی۔ امی جان کی ڈانٹ سے اسے ڈر لگتا تھا سو اسے اٹھنا ہی پڑتا۔عمر جب پہلے دن سکول گیا تو بر آمدے میں سے گزرتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑے سے کمرے پر پڑی جس کا دروازہ شیشے کا تھا ۔ عمر نے اپنی امی کا ہاتھ چھوڑا اور جلدی سے دروازے میں سے جھانک کر دیکھا۔ ایک بڑی سی آرام دہ کرسی، ایک بڑی سی چمکتی ہوئی میز کے پیچھے پڑی تھی۔ میز پر خوبصورت سا لیمپ ، ڈائری اور پین سجے ہوئے تھے۔ ایک طرف کچھ پودے اور دوسری طرف خوبصورت پردے لگے ہوئے تھے۔
’’امی! یہ کون سا کمرہ ہے؟‘‘
امی نے اس کی انگلی پکڑی اور دوبارہ چلتے ہوئے بولیں۔
’’یہ پرنسپل کا کمرہ ہے۔‘‘
’’امی ! پرنسپل کون ہے؟‘‘
’’پرنسپل سارے سکول کا ہیڈ ہوتا ہے۔‘‘
اسی سوال جواب میں عمر کی کلاس آگئی۔ دروازے پر لکھا تھا۔
’’پلے گروپ۔ گرین۔ خوش آمدید!‘‘
عمر کو اپنی میڈم بہت پسند آئیں۔ وہ بہت اچھی تھیں اور سب بچوں میں مزے مزے کی چیزیں تقسیم کر رہی تھیں۔ عمر سوچتا رہا۔
’’ پرنسپل کا کمرہ کتنا اچھا تھا! اور وہ بڑی سی کرسی اور میز پر رکھا سنہری قلم!‘‘
چھٹی کے بعد بھی عمر پرنسپل صاحب کے کمرے کے باہر سے گزرا۔ اسے یہ یہ کمرہ بہت اچھا لگا تھا۔
’’کاش میں اس گھومنے والی کرسی پر بیٹھ سکوں اور خوب سارے جھولے لے سکوں!‘‘ اس نے سوچا۔
اگلے دن جب عمر سکول پہنچا تو وہ حیران رہ گیا۔ سب ملازم اسے سلام کر رہے تھے۔
’’سر السلام علیکم! سر پلیز یہاں آجائیں۔‘‘
ایک ملازم نے کہا تو عمر اس کےپیچھے چل پڑا۔ وہ اندر ہی اندر اتنا حیران تھا کہ بس!
ملازم اسے پرنسپل کے کمرے میں لے آیا ۔
’’سر آپ بیٹھیں! میں چائے لے کر آتا ہوں۔آُ پ چائے کے ساتھ کیا لینا پسند کریں گے؟‘‘
عمر جو بڑی سی آرام دہ کرسی کی ہینڈل پر بازو جمانے کی کوشش کر رہا تھا،ایک لمحے کے لیے رک کر سوچنے لگا۔
’’امی جان تو چائے بھی نہیں پینے دیتیں۔ کتنا اچھا دن ہے آج !‘‘
’’ اممم! تم کیک لے آؤ وہ چاکلیٹ اور چیری والا۔‘‘ عمر نے کہا اور ملازم جی اچھا سر کہہ کر چلا گیا۔
عمرنے ملازم کے جانے کے بعد میز کی طرف دیکھا۔
’’سر ! آج کے لیے کیا کیا حکم ہے؟‘‘ ایک اور ملازم نے اندر آکر پوچھا۔
عمر نے گھومنے والی کرسی پر جھولے لینا بند کیا اور چھوٹی چھوٹی کہنیاں بمشکل میز پر ٹکا کر بولا۔
’’سب بچوں کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے گھر سے اپنی پسند کے کھلونے لا سکیں۔‘‘
’’لیکن سر!اس طرح تو۔۔‘‘ ملازم نے کہنا چاہا۔
لیکن عمر بولتا رہا۔
’’اوربریک ٹائم میں بچے ساتھ والے پارک جا کر جھولے لیں گے۔ انہیں کوئی نہ روکے۔ ‘‘
’’جج۔۔ جی ۔۔ سر!!‘‘ ملازم نے پریشانی سے عمر کی بات سنی اور کمرے سے نکل گیا۔
اگلے دن جب عمر نے اپنا بریف کیس ملازم کو تھمایا اور اچھل کر کرسی پر بیٹھا تو شور کی آواز آنے لگی۔
’’پاں! پاں! چھک چھک چھک!!‘‘
’’زوں! زوں!! زوںںں!!‘‘
’’آہا! آہا! اوں اوں آہا آہا آہا! ماما پاپا بے بی فیڈر!‘‘
عمر نے ایک دم پریشان ہو کر ملازم کو دیکھا۔
’’یہ! یہ کیسا شور ہے؟‘‘
’’سر! آئیے کلاس روم میں چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ ملازم نے کہا تو عمر فوراً اس کے ساتھ چل پڑا۔ جب وہ پلے گروپ میں پہنچا تو اس نے دیکھا۔بچے اپنے گھر سے کئی کئی کھلونے لائے ہوئے تھے۔ سبھی اپنے کھلونوں سے کھیل رہے تھے ۔میڈم کچھ کہنے کی کوشش میں تھیں لیکن کوئی بچہ ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ راشد چابی سے چلنے والی ٹرین چلا رہا تھا۔ احمد ریسنگ کار کو یہاںوہاں گھما رہا تھا۔ننھی دانیہ اپنے ساتھ بولنے والی گڑیا لائی ہوئی تھی۔ ایک بچہ ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے جانور اپنی میز پر سجا رہا تھا۔ ایک اور بچے نے رنگ برنگے بلاکس سے طرح طرح کی چیزیں بنائی ہوئی تھیں۔
عمر تیزی سے آگے بڑھا تو اس کا پاؤں بلاک سے بنے ہوئے مینار سے ٹکرا گیا۔
’’دھڑام‘‘ آواز آْئی اور مینار کے بلاکس فرش پر بکھر گئے۔
’’میڈم! پرنسپل عمر نے میرا مینار توڑ دیا۔ اوں ہوں ہوں!!‘‘ اتنا کہہ کر بچے نے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا۔ ابھی عمر اس کو خاموش کر وانے کا سوچ رہا تھا کہ احمد نے راشد سے لڑنا شروع کر دیا۔
’’مجھے بھی ٹرین سے کھیلنے دو۔ میں نے بھی کھیلنا ہے ناں!! مجھے دو بس مجھے دو!‘‘
راشد نے ہاتھ سے ٹرین پیچھے کر لی تو دونوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔
عمر اس سب سے گھبرا کر کلاس روم سے باہر نکل آیا۔ ابھی وہ ملاز م کے ساتھ اپنے آفس جا ہی رہا تھا کہ کچھ لوگ اس کی طرف تیزی سے بڑھے۔ وہ ان بچوں کے والدین تھے جن کے بچے پارک میں سیر کرنے گئے ہوئے تھے۔وہ سب بہت ناراض لگتے تھے۔
’’کیا آپ پرنسپل ہیں عمر صاحب!‘‘ عمر نے گھبرا کر ملازم کو دیکھا۔ وہ ناں میں سر ہلانا چاہتا تھا لیکن ملازم نے کہہ دیا۔
’’جی جی یہی پرنسپل ہیں۔‘‘
’’جناب! ہمارے بچے بریک ٹائم میں پارک گئے تھے ابھی تک واپس نہیں آئے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کلاس روم میں کیوں نہیں ہیں۔‘‘
ایک اور صاحب منہ بنا کر بولے۔’’ ہم نے انہیں پڑھنے کے لیے بھیجا تھا پارک میں کھیلنے کے لیے نہیں۔‘‘
’’جناب آپ ۔۔ ‘‘
’’جناب ہمارے بچے۔۔‘‘
وہ لوگ کہتے جارہے تھے ۔
عمر وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا لیکن نہ جانے کیوں ملازم نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑا ہوا تھا۔ عمر نے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔
’’میرا ہاتھ چھوڑو۔ میں پرنسپل نہیں ہوں۔ میں تو عمر ہوں پلے گروپ میں پڑھتا ہوں۔ہاتھ چھوڑو! ہاتھ چھوڑو۔۔!‘‘
’’عمر! عمر!! اٹھ جاؤ! یہ لو میں نے ہاتھ چھوڑدیا۔لیکن دیکھو تم بیڈ سے گرنے لگے تھے!‘‘
آپی کی آواز آئی تو عمر نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ تو بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ ملازم ، لڑتے ہوئے بچے اور بچوں کے والدین سب غائب ہو گئے تھے۔ وہ سکول کا برآمدہ اور پرنسپل کا آفس بھی کہیں چلا گیا تھا اور وہ تو اپنے کمرے میں موجود تھا۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹے ہوئے تھےاور صبح کےتقریباً سات بج رہے تھے۔
’’ہاہ! شکر ہے! آپی! وہ سب خواب تھا۔آہا! ‘‘ عمر نے نعرہ لگایا اور بستر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
آپی کو اس کی بات بالکل سمجھ نہ آئی۔ وہ اسے جلدی جلدی یونیفارم پہننے کا کہہ کر کچن میں چلی گئیں۔ اس دن بھی عمر اپنی کلاس کی طرف جاتے ہوئے پرنسپل کے آفس کے سامنے سے گزرا ۔ آج اس نے سوچا۔
’’یہ کرسی تو دادی جان کے گھر بھی موجود ہے۔ میں ان کے گھر جا کر بھی اس پر جھول سکتا ہوں۔ لیکن شکر ہے! میں پرنسپل نہیں ہوں!‘‘
بچو! عمر نے اس دن سے دل لگا کر پڑھنا شروع کر دیا ہے اور اب وہ اپنے کھلونے سکول لے کر جانے کی ضد نہیں کرتا۔ہاں !اس کی کیا وجہ ہے ، امی اور آپی نہیں جانتیں۔ لیکن میں اور آپ تو جانتے ہی ہیں! کبھی آپ عمر کی آپی سے ملیں تو انہیں ضرور بتائیں!