عبدو کے ناخن


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے چھوٹے سے بچے عبدو کی جس کو ناخن کاٹنا بالکل پسند نہیں تھا۔ ایک دن جب عبدو کی آپی نے اسے نہلایا تو کہنے لگیں۔

’’ارے عبدو! یہ کیا! تمھارے ناخن اتنے بڑے بڑے اور گندے ہیں۔‘‘

پھر انہوں نے عبدو کی آنکھوں میں سرمہ لگایا  اور بولیں۔

’’ لاؤ! بھئی! میں تمھارے ناخن کاٹ دوں۔‘‘

یہ سنتے ہی عبدو نے ایک چھلانگ لگائی اور بستر سے اتر کر بھاگ گیا۔

آپا ہائیں ہائیں کرتی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے امی جان سے شکایت بھی کر دی۔ امی بھی عبدو کی اس عادت سے پریشان تھیں۔ وہ سب کام کر لیتا، کپڑے بھی صاف ستھرے پہنتا اور بالوں میں کنگھا بھی ، لیکن ناخن نہیں کٹواتا تھا۔

اگلے دن جب عبدو ناشتہ کر رہا تھا تو انڈے کی زردی پگھل کر پلیٹ میں بکھر گئی۔ یہ زردی عبدو کو بہت پسند تھی۔ اس نے جلدی جلدی انگلیوں سے ساری زردی کھا لی۔ پھر وہ انگلیاں چاٹنے  لگا تو ابو نے اس کے ناخن دیکھ لیے۔

’’عبدو! ناخن کتنے بڑے ہو گئے تمھارے۔ سیما! جلدی سے اس کے ناخن کاٹو۔‘‘

اب تو عبدو کی خیر نہیں تھی۔ ابو نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ ا ن کی بات سے پیچھے کیسے رہا جا سکتا تھا۔ سو عبدو اب سیما کی گود میں بیٹھا تھا۔ سیما آپی کے ہاتھ میں ناخن کٹر تھا اور دوسرے ہاتھ میں عبدو کا ننھا سا ہاتھ۔


’’آپا! پہلے کہانی سنائیں ناں!‘‘ عبدو نے ایک دم سے فرمائش کی۔

’’ہمم! پہلے تم ایک ہاتھ کے ناخن کٹواؤ ۔ پھر سناؤں گی، ٹھیک!‘‘

’’نہیں! نہیں! پہلے کہانی۔ ۔پہلے کہانی!!‘‘ عبدو مچل گیا۔

سیما آپی نے چپکے سے ابو کو دیکھا۔ وہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔

’’اچھا چلو! پھر سنو!ایک تھا ننھا منا سا کیڑا جو ۔۔ جو اس والے ناخن میں رہتا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر آپی نے عبدو کی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ کیڑا بہت خوش تھا۔ کیونکہ یہ بڑا ہو رہا تھا۔بہت جلدی جلدی! اسے  ناخن کے اندر رہتے رہتے  کئی ہفتے ہو گئے تھے۔ کیڑے کے تو بہت سارے دوست  بھی بن گئے تھے۔ وہ دوست اس کے ساتھ والے ناخنوں میں رہتے تھے۔ ‘‘

’’یہاں! یہاں رہتے تھے آپی!‘‘ عبدو نے تیسرے اور چوتھی انگلیوں اٹھا کر پوچھا۔

’’ہاں ہاں !بالکل! اور جانتے ہو!  یہ سب کیڑے سیر بھی کرنے جاتے تھے۔ جب عبدو ہاتھ سے چاول کھاتا تو یہ کیڑے ناخن سے نکل کر اس کے منہ میں چلے جاتے۔ پھر پیٹ میں جا کر خوب اچھل کود کرتے۔ یوں عبدو کو کبھی کبھی پیٹ میں درد بھی ہو جاتا تھا۔‘‘

آپی کہانی سناتی جارہی تھیں۔ عبدو سوچنے لگا ۔

’’اچھا! اسی لیے میرے پیٹ میں درد ہوتا تھا۔‘‘

’’پھر ایک دن ! ۔۔ ایک دن!‘‘ یہ کہتے ہوئے سیما نے عبدو کی پہلی انگلی پکڑی۔

’’عبدو کی آپی نے ان کیڑوں کی باتیں سن لیں۔ و ہ کہہ رہے تھے۔

’’آج ہم نے عبدو کی آنکھوں میں جانا ہے۔ جیسے ہی وہ آنکھیں مسلے گا میں اس کی آنکھ میں جا کر بیٹھ جاؤں گا۔‘‘

دوسرے کیڑے کی آواز آئی۔وہ انگوٹھے والے ناخن میں رہتا تھا۔

’’میں آج عبدو  کے گلے میں ٹھہر جاؤں گا۔ وہاں لمبی سی سیر کروں گا۔‘‘

ایک اور کیڑے نے کہا جو سب سے چھوٹی والی انگلی میں رہتا تھا۔

’’ہو سکتا ہے میں عبدو کے کان میں چلا جاؤں کیونکہ اس دن عبدو  چھوٹی انگلی سے ہی کان میں کھجلی کر رہاتھا۔‘‘

جب یہ باتیں  عبدو کی آپی نے سنیں تو انہوں نے جلدی سے عبدو کی پہلی انگلی پکڑ کر اس کا ناخن کاٹ دیا۔ایسے کر کے!!‘‘

یہ کہہ کر سیما نے عبدو کی شہادت والی انگلی کا ناخن کاٹ کر پھینک دیا۔

’’کیڑا دور جا گرا۔ اب وہ عبدو کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ پھر آپی نے دوسری ۔۔۔ اور پھر تیسری ۔۔ اور پھر چوتھی انگلی کا ناخن بھی کاٹ دیا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے سیما نے واقعی میں عبدو کی سبھی انگلیوں کے ناخن کاٹ دیے۔ عبدو کو اپنا ہاتھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ صاف ستھرا اور ہلکا پھلکا۔

’’پھر کیا ہوا! آپی!‘‘ اس نے اپنا ہاتھ الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’بس پھر ہونا کیا تھا! کیڑوں میں چیخ وپکار مچ گئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ یہ کس نے ہمیں نیچے پھینک دیا۔ ہم تو عبدو کے گلے ، پیٹ اور کان میں جانے والے تھے۔ ہم نے سیر کرنی تھی۔۔ کرنی تھی!!‘‘ لیکن عبدو کی آپی نے ان کی ایک ایک بات نہ سنی اور عبدو کے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن کاٹ ڈالے۔ ‘‘

اتنا کہہ کر سیما نے عبدو کو بایاں ہاتھ پکڑا اور ناخن کاٹنے لگی۔ اس بار عبدو نے کوئی شور نہ مچایا اور خاموشی سے اپنے ناخن کٹتے ہوئے دیکھتا رہا۔

جب بائیں ہاتھ کے سبھی ناخن کٹ گئے تو عبدو نے دایاں ہاتھ اٹھا کر سیما کو دکھایا۔

’’آپی! اس انگوٹھے کا ناخن تو رہ گیا۔‘‘

’’ہاں ! ہاں! یہ آخر میں کٹتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘ عبدو نے حیرانی سے پوچھا۔

’’کیونکہ پیارے نبی ﷺ بھی اسی ترتیب سے ناخن کاٹتے تھے ۔ سب سے آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی باری آتی تھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر سیما نے عبدو کا ننھا سا انگوٹھا پکڑ کر اس کا ناخن کاٹا۔ عبدو چھلانگ لگا کراس کی گود سے اترا۔ پھر اس نے نچے گرے ہوئے ناخنوں کو غور سے دیکھاجنہیں سیما اب اکٹھا کر رہی تھی۔

’’شکر ہے۔ یہ کیڑے مجھ سے دور چلے گئے! ہیں ناں آپی!‘‘

’’بالکل! بالکل! ناخن کاٹنا اور صاف ستھرے رہنا تو پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔‘‘ سیما نے کہا اور امی کو بتانے کچن میں چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچو! اگر آپ بھی بڑھے ہوئے ناخنوں کے ساتھ میری یہ کہانی سن رہے ہیں تو میرے خیال سے آپ کو سب سے پہلے اپنے ناخن کاٹنے چاہئیں۔ ہو سکتا ہے ان میں رہنے والے کیڑے بھی آپ کے پیٹ اور کان میں جانے کا پلان بنا رہے ہوں۔ اس سے پہلے کہ آپ کو امی جان کھانے کےلیے بلائیں، آپ جلدی سے آپی جان یا بھائی جان کے پاس جا کر ناخن  کٹوا لیں۔

کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ عبدو کے اب ناخن کبھی اتنے بڑے نہیں ہو پاتے۔ وہ ہر جمعہ کے دن سیما آپی سے ناخن کٹواتا ہے اور اپنے ہاتھ صاف ستھر رکھتا ہے۔ ہاں! اگر آپ بھی ناخن کٹوانے کے ساتھ ساتھ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جلدی سے یہ کرنیں کا یہ رنگ برنگا صفحہ اٹھا کر آپی جان کے پاس لے جائیں!