ڈینو اور سارو اب اچھے دوست ہیں

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے دو چھوٹے چھوٹے  ڈائنو سارز کی جو ایک میوزم میں رہتے ہیں۔ ڈینو ڈائنو سار کا رنگ گلابی ہے ۔ وہ ایک شیشے کے گھر میں رہتا ہے۔ ڈینو کے گھر میں ایک طرف کچھ پودے ہیں۔ دوسرے کونے میں سرمئی رنگ کے پتھر پڑے ہیں۔ ایک جانب جھاڑیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ ڈینو ڈائنوسارکو اکیلا رہنا اچھا لگتا ہے۔ وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا۔

یہ اس رات کی بات ہے کہ جب نئے آنے والے سارو ڈائنو سار نے سوچا۔ مجھے آج باری باری سب کے گھر ملنے جانا چاہیے۔ وہ چاہتا تھا سب سے پہلے ڈینو کے گھر جائے۔ ڈینو کا گھر اس کے گھر کے ساتھ ہی تھا۔

’’ٹِک ٹِک! ٹِک ٹِک!!‘‘ سارو نے ڈینو کا شیشہ اپنے ناخن سے کھٹکھٹایا۔

ڈینو نے لیٹے لیٹے ہی ایک آنکھ کھول کر دیکھا۔ سارو دروازے کے باہر کھڑا ہاتھ ہلا رہا تھا۔

’’اف! یہ کہاں سےآ گیا۔کیا اب مجھے اس کے لیے کھانا بنا پڑے گا۔‘‘ ڈینو نے تنگ ہوتے ہوئے سوچا اوراٹھ کر بیٹھ گیا۔


پھر وہ آہستہ آہستہ دم ہلاتا ہوا آیا اور دروازہ کھول دیا۔

’’اوہ! ڈینو! میں نے سوچا کئی دن ہوئے مجھےآئے ہوئے۔ تو میں آج تم سے مل ہی لوں۔کیسے ہو تم؟‘‘ سارو نے مسکراتے ہوئے ڈینو سے ہاتھ ملایا اور کہا۔

’’ہونہہ! آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔‘‘ ڈینو نے دل ہی دل میں سوچا اور برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہوں میں۔‘‘

پھر اسے خیال آیا۔

’’اچھا! تم بیٹھو ۔ میں تمھارے لیے پتوں کا حلوہ لاتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر ڈینو نے سارو کو ایک میلی سی کرسی پر بٹھا دیا۔

’’امم ! نہیں نہیں! ڈینو! تمھیں معلوم ہے ناں میں۔۔‘‘ لیکن ڈینو نے سارو کی پوری بات سنی ہی نہیں اورایک طرف بنے ہوئے چھوٹے سے  کچن میں چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں حلوے کی پلیٹ تھی۔

’’ڈینو دوست!سوری ! میں یہی بتانا چاہ رہا تھا کہ میں تو گوشت کھاتا ہوں۔میں پتے اور سبزیاں نہیں کھا سکتا۔ جب میں آیا تھا تو میوزم کے مینجر نے اعلان کیا تھا ناں۔ تم نے نہیں سنا؟‘‘

یہ سن کر پہلے تو ڈینو نے گوشت بنانے کا سوچا پھر اس نے دل میں کہا۔

’’اب کون اتنی مشکل ڈش بنائے ۔ رہنے دو۔ یہ حلوہ ہی سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ‘‘ یہ سوچ کر اس نے پلیٹ  سارو کے سامنے میز پر رکھ دی۔

پھر اس نے حلوے کی پلیٹ کو غور سے دیکھا اور کہا۔

’’اوہ! مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ خیر تم یہ حلوہ کھا کر تو دیکھو۔ میں نے بہت دل سے بنایا ہے ابھی ابھی! بالکل تازہ ہے!‘‘ ڈینو نے یہ کہہ کر حلوے کی پلیٹ سارو کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

’’امم! یہ۔۔ اچھا چلو ٹھیک ہے۔ ‘‘ سارو پہلے تو ہچکچایا پھر اس نے ایک چمچ لے کر منہ میں ڈالی۔

لیکن یہ کیا! حلوہ بے حد کھٹا اور کڑوا تھا۔ دراصل یہ ڈینو  نے دو دن پہلے بنایا تھا۔ آج کئی گھنٹے  میوزم کی بجلی بھی نہیں تھی۔ اب  حلوے میں سے ہلکی ہلکی سی بو آرہی تھی۔

سارو نے بہت مشکل سے ایک ہی لقمہ لیا اور پلیٹ واپس رکھ دی۔

’’تمھارا شکریہ! اچھا اور سناؤ! تم کہاں سے آئے ہو۔ ‘‘ سارو نے پوچھا۔

ڈینو نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ لمبی سی گردن موڑ کر شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔

’’یہ پتہ نہیں کب جائے گا۔ مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ یہ جیسے ہی جائے گا میں پھلوں کی چاٹ بنا کر کھاؤں گا۔ اور سوپ بھی پیوں گا۔ اور۔۔۔ ‘‘ ڈینو سوچتا جا رہا تھا۔

’’لگتا ہے ڈینو! تمھیں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔‘‘

سارو نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ڈینو پھر بھی منہ بنائے ہوئے بیٹھا رہا۔ وہ بس سارو کے جانے کا انتظا ر کر رہا تھا۔ سارو نے خاموشی سے اپنے ساتھ لائے ہوئے گلاب کے پھول میز پر رکھے اور اپنی دم سمیٹ کررینگتا ہوا  ڈینو کے گھر سے نکل گیا۔

اگلا دن ڈینو کے لیے کچھ اچھا نہیں تھا۔ جیسے ہی صبح ہوئی تو ایک سکول کے  بچے میوزم کی سیر کے لیے اندر آنے لگے۔ ان میں کچھ بچے بہت شرارتی تھے۔جیسے ہی وہ ڈینو کے گھر کے سامنے سے گزرے ، انہوں نے زور زور سے اس کے شیشے کے گھر کو دھکے دینا شروع کر دیے۔

میڈم نے بچوں کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن شرارتی بچے مسلسل ڈینو کا گھر ہلا رہے تھے۔

’’ارے ارے ! نہیں کرو۔ رک جاؤ! میں گر جاؤں گا۔‘‘ ڈینو اندر سے چلاّ رہا تھا لیکن کسی نے اس کی بات نہ سنی۔

جب تک میوزم کا مینجر آیا، ڈینو گر چکا تھا اور ا س کا شیشے کاگھر ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ خود ڈینو کو بھی کافی چوٹیں آئیں۔ مینجر نے ڈینو کو اٹھا کر بہت احتیاط سے ایک شوکیس میں رکھ دیا۔ پھر وہ ملازموں کے ساتھ مل کر کانچ سمیٹنے لگا۔

شوکیس میں گرد اور چیونٹیاں تھیں۔ ڈینو کو چوٹوں میں بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ انتظار کررہا تھا کہ کب اس کا نیا گھر بنے گا۔

بہت دیر تک ڈینو سر جھکا کر شوکیس میں  بیٹھا رہا۔سب ڈائنو سارز نے ڈینو کو شوکیس میں بیٹھے دیکھا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ کیونکہ خود ڈینو کسی کی مدد کو نہیں جاتا تھا نہ وہ کسی مہمان کے آنے کو پسند کرتا تھا۔

تھوڑی دیر بعد سارو کی آواز آئی جو اپنی کھڑکی میں کھڑا اس کو بلا رہا تھا۔

’’ڈینو! ڈینو! تم میرے گھر آجاؤ۔ میں نے تمھارے لیے بہت اچھا سا بستر تیار کر لیا ہے۔‘‘

ڈینو نے دیکھا۔ سارو اس کو بہت خوشدلی سے بلا رہا تھا۔ وہ  کچھ اٹھا اور آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے سارو کے گھر چلا گیا۔

وہاں پہنچ کر ڈینو سوچ رہا تھا۔ جب سارو اس کے گھر آیا تھا تو اس نے کیا کیا تھا۔ یہ سوچ سو چ کر وہ شرمندہ تھا۔

’’پیارے ڈینو! تمھارا کمرہ تیار ہے۔ آؤ وہاں آرام کرو۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے سہارے سے ڈینو کو اٹھایا اور پکڑ پکڑکر اس کو کمرے میں لے گیا۔ ڈینو نے دیکھا۔ ایک بہت خوبصورت بستر پر صاف ستھری چادر پڑی ہوئی تھی۔ ساتھ والی تپائی پر گرماگرم کھانا بھی موجود تھا۔

’’معاف کرنا میں یہ سارا انتظا م کرنے میں مصروف تھا۔ بس اسی لیے مجھے دیر ہو گئی۔ تم یہاں آرام کرو۔اگر کوئی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دینا۔خود سے نہ اٹھنا۔ تمھاری چوٹیں ابھی تازہ ہیں۔‘‘

بچو! کچھ دن لگے ڈینو کا نیا گھر بننے میں  اور تب تک وہ سارو کے گھر رہا۔ دونوں بہت اچھے دوست بن چکے ہیں۔

میرے پیارے بچو!مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتے ہیں۔ جب آپ کے گھر مہمان آئیں تو آپ مسکرا کر ان سے ہاتھ ملائیں۔ گھر میں پکی ہوئی سب سے اچھی چیز ان کے کھانے کے لیے رکھیں۔ کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ  ُاس واقعہ کے بعد سے ڈینو ڈائنو باقی ڈائنو سارز سے  الگ تھلگ نہیں رہتا۔  نہ صرف وہ ہر ایک سے اچھی طرح ملتا ہے بلکہ وہ ایک اچھا میزبان بھی بن چکا ہے۔ اگر آپ اس میوزم میں جائیں تو اندر داخل ہوتے ہی  دائیں ہاتھ شیشے کا سب سے پہلا گھر ڈینو ڈائنو سار کا ہے۔ اس بار وہ آپ کو واقعی تازہ حلوہ کھلائے گا اور ہاں! گلاب کے پھول لے کر جانا نہ بھولیے گا کیونکہ اس کے پتے ڈینو کی پسندیدہ  خوراک ہیں!