گوگو گھوڑے کے جوتے


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے سنہرے بالوں والے ایک پیارے سے گھوڑے ، گوگو کی جو اپنے مالک، اسلم  کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اسلم  کچھ دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ اب گوگو سامان اٹھانے کے قابل ہو گیا ہے ۔ سو ایک دن  اس نے گوگو کو لوہے کے بنے ہوئے مضبوط  جوتے پہنائے۔ پھر اسے گھوڑا گاڑی میں جوتا اورگاڑی کے پچھلے حصے میں اناج کی کچھ بوریاں رکھ دیں۔ پھر اسلم نے گوگو کی لگام سنبھالی اور اسے ایک جھٹکا دیا تو گوگو آہستہ آہستہ چلنے لگا۔

’’ٹک! ٹک! ٹک!!‘‘ جیسے ہی گوگو  کے جوتوں سے آواز آئی تو اس نے سر جھکا کر دیکھا۔ اس کے پاؤں لوہے کے جوتوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یہ جوتے اسے بالکل پسند نہیں آئے تھے۔

’’کاش! میں انہیں اتار سکتا۔ ان کے بغیر میرے پاؤں کتنے اچھے لگیں گے۔‘‘

گوگو نے اداسی سے سوچا۔

سڑک پر بہت سارے گڑھے تھے جن کی وجہ سے گوگو تیز نہیں چل سکتا تھا۔ چلتے چلتے اسے محسوس ہوا کہ اس کے جوتے کچھ ڈھیلے سے ہو گئے ہیں۔


’’آہا! اب میں انہیں اتار سکتا ہوں۔ مالک کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔‘‘

یہ سوچ کر گوگو نے اپنے جوتوں پر زور لگانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب ایک اور گڑھا آیا تو گوگو کا ایک جوتا اتر گیا۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی رسی اسلم کے ہاتھ میں تھی  ۔ اس وجہ سے وہ گردن موڑ نہیں سکا اور سامنے کی طرف دیکھتا ہوا چلتا رہا۔

تھوڑی دیر بعد گوگو کا دوسرا جوتا بھی اتر گیا تھا۔ اب وہ شہر میں آگئے تھے۔ اردگرد رکشوں اور گاڑیوں کے شور میں اسلم  کو بالکل پتہ  نہیں لگ سکا کہ گوگو کے پاؤں سے ’’ٹک ٹک‘‘ کی آواز بالکل نہیں آرہی۔

منڈی آ گئی تھی۔ یہاں اسلم  نے بوریاں اتار کر زمین پر رکھنی تھیں۔ ابھی اسلم  گھوڑا گاڑی روکنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک گوگو ہنہنایا۔

’’اِیں ہِیں ہِیں ہِیں!!‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ  خود ہی ایک جھٹکے سے رک گیا۔

اسلم بہت پریشان ہوا۔ وہ جلدی سے نیچے اترا تو اس نے دیکھا۔ گوگو کے پاؤں سے خون نکل رہا تھا۔

’’اوہ! اوہ! یہ کیا! گوگو! تمھارے جوتے کہاں گئے؟‘‘

گوگو نے اب آہستہ سی آواز نکالی۔

’’اِیں! ایِں ہِیں!!‘‘

اسلم کو ساری بات سمجھ آگئی۔ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا۔

’’گوگو! میں نے تو تمھارے پاؤں کی حفاظت کے لیے جوتے پہنائے تھے لیکن تم نے انہیں اتار دیا۔ اب دیکھو تمھارے پاؤں میں کانچ کے کئی ٹکڑے چبھ گئے ہیں۔ ‘‘

 پھر اسلم نے جلدی سے  اناج کی بوریاں گھوڑا گاڑی سے اتار کر زمین پر رکھیں۔ اب گوگو کو بوجھ بہت ہلکا ہو گیا تھا۔ لیکن اس کو پاؤں میں بہت درد ہو رہا تھا۔وہ کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔  اسلم نے گوگو کی رسی  ڈھیلی کر دی اور اسے صاف زمین پر بٹھا دیا۔

گوگو کے پاؤں سے خون رس رہا تھا۔ اسلم نے کانچ نکال کر اس کےپاؤں پر ایک پرانا سا کپڑا باندھ دیا تھا لیکن گوگو ابھی تک بے چین تھا۔ شاید کانچ کے کچھ ٹکڑے اس کے  زخم کے اندر ہی رہ گئے تھے۔

اسلم نےزمین پر ایک چٹائی بچھائی اور اس کے اوپر بوری سے سبزیاں نکال کر سجانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سوچ رہا تھا گوگو کو ہسپتال کیسے لے کر جائے۔

’’بھائی! ٹماٹر کا کیا ریٹ ہے؟‘‘ ایک آدمی نے پوچھا۔

اسلم جو لیموں نکال کر چٹائی پر رکھ رہا تھا، سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’سو روپے کلو ہیں۔ ‘‘

پھر اسلم نے اس آدمی کو غور سے دیکھا۔ اس نے بہت اچھا سا پینٹ کوٹ پہن رکھاتھا اور دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بریف کیس تھا۔ اچانک اسلم کے ذہن میں خیال آیا۔

’’بھائی صاحب! کیا آپ ڈاکٹر ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’ہاں! میں جانوروں کا ڈاکٹر ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اسلم کو بہت خوشی ہوئی۔

’’ڈاکٹر صاحب! میرا گھوڑا گوگو زخمی ہے۔ برائے مہربانی اس کی مرہم پٹی کر دیں۔‘‘

’’کیوں نہیں! ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا اور گوگو کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے گوگو کے زخم کو غور سے دیکھا۔ پھر بریف کیس سے کوئی دوا نکال کر اس پر لگائی اور پھر سفید پٹی باندھ دی۔ گوگو کو کافی سکون ملا اور اس نے ’’اِیں! ایِں ہِیں!!‘‘ کی آواز نکال کر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

اسلم نے ڈاکٹر صاحب کو فیس دی لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’اس کی ضرورت نہیں۔ اگر گوگو خود چل کر گھر چلاجائے تو یہی میری فیس ہو گی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔

وہ سارا دن اسلم بہت مصروف رہا۔ لوگ آتے رہے اور اس سے تازہ سبزیاں خریدتے رہے۔جب اندھیرا چھانے لگا تو اسلم نے واپس جانے کا سوچا۔ اس نے چٹائی اٹھائی، بچھی کچھی سبزیاں واپس بوری میں ڈالیں اور گوگو کو دیکھا۔

وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔

جب اسلم نے اس کی رسی تھامی تو گوگو چلنے لگا۔ اسلم خود گاڑی کے اوپر نہیں بیٹھا تھا تاکہ گوگو پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہ آسانی کے ساتھ چل سکے۔ گوگو کچھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا۔

یونہی چلتے چلتے دونوں گھر پہنچ گئے۔  اسلم نے گوگو کی رسی نکالی اور اسے آرام دہ بستر پر بٹھا دیا۔ پھر اس کے سنہری بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔

’’پیارے گوگو! سڑک پر چلتے ہوئے کبھی جوتے نہیں اتارتے ورنہ کانچ یا کوئی نوکدار پتھر ہمیں زخمی کر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے تم  میر ی بات سمجھ گئے ہو۔تم بہت اچھے گھوڑے ہو۔انشاء اللہ! تمھارا زخم جلد ی ٹھیک ہو جائے گا۔ اب تم آرام کرو۔‘‘

گوگو نے کہا۔

’’ ’’اِیں! ایِں ہِیں!!‘‘ اور چارہ کھانے لگا۔

بچو! کیا آپ کو معلوم ہے گوگو کی اس ’’اِیں! ایِں ہِیں!!‘‘ کا کیا مطلب تھا! اس کا مطلب تھا کہ اب میں کبھی جوتے نہیں اتاروں گا  کیونکہ مجھےسمجھ آگئی ہے کہ جوتے پاؤں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔

میرے پیارے بچو! ننگے پاؤں چلنا کبھی کبھی تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ گھاس یا فٹ پاتھ پر چل رہے ہیں تو پھر ہمیشہ جوتے پہن کر چلیں۔ پانی والی جگہ پر ہمیشہ چپل پہنیں ورنہ پاؤں پھسل سکتا ہے اور آپ کو چوٹ لگ سکتی ہے۔ جب آپ کے امی ابو آپ جو تے پہننے کا کہیں تو آپ فوراً پہن لیں۔اور میرا یقین کریں! امی ابو تو ہمیشہ ہمارے فائدے کی بات کہتے ہیں!