گوشو اور بنٹو

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے  ایک خرگوش گوشو کی جو اپنے دوست بنٹو کے گھر رہنے کے لیے جا رہا تھا۔ گوشو کو چلتے چلتے کافی دیر ہو گئی تھی۔ مالٹے کا درخت، پھولوں والا تالاب اور چیونٹیوں والا ٹیلہ، سبھی گزر چکے تھے۔ابھی تک بنٹو کا گھر نہیں آیا تھا۔ گوشو کو بہت بھوک لگ گئی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ بنٹو کے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے کھانا کھاؤں گا پھر کھیلوں گا۔

آخرکارسبز جھاڑیوں والا میدان آہی گیا۔ یہاں بنٹو کا گھر تھا۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

گوشو نے زور زور سے دروازے پر دستک دی۔


بنٹو گوشوکا انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا ۔ وہ دستک سن کر اٹھ گیا اور اس نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔

’’آہا! میرا دوست آگیا!‘‘ بنٹو نے گوشو کو گلےلگایا اور خوشی سے کہا۔

’’ہاں! میں۔۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔۔ اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہے۔‘‘ گوشو نے رک رک کر کہا۔

’’ہاں ہاں میں نے کھانا تیار کر لیا ہے۔ بس گرم کرنا ہے۔ تم یہاں آرام سے بیٹھو۔میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ بنٹو نے کہا اور گوشو کو صوفے پر بیٹھنے کا کہہ کر کچن میں چلا گیا۔

گوشو نے ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے صحن میں ایک طرف فریج رکھی تھی۔ گوشو نے سوچا۔ جب تک یہ کھانا گرم کرے گا میں کیوں نہ فریج سے گاجر نکال کر کھا لوں۔ اس نے جلدی سے فریج کھولی۔ سامنے ہی تازہ اور سرخ گاجریں پڑی تھیں۔ ساتھ ہی ٹوکری میں انگور بھی رکھے تھے۔ گوشو نے ایک ہاتھ میں انگوروں والی ٹوکری اور دوسرے ہاتھ میں گاجریں اٹھائیں اور واپس صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد بنٹو کی آواز آئی۔

’’گوشو! جلدی سے آجاؤ۔ کھانا لگ گیا ہے۔‘‘

گوشو جواب نہ دے سکا۔ اس نے منہ میں بہت سارے انگور بھر لیے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دے پاتا، بنٹو کمرے میں آگیا۔

’’ارے! تم ۔۔ ‘‘ بنٹو گوشو کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سارے صوفے پر گاجریں اور انگور بکھرے ہوئے تھے۔ ٹوکری ایک طرف الٹی ہوئی پڑی تھی۔ بنٹو نے کہا۔

’’آؤ گوشو! کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ پھر وہ واپس چلا گیا۔

’’آہا! کھانا بہت مزے کا تھا۔  میرے سونے کی جگہ کہاں ہے۔ اف مجھے بہت نیند آرہی ہے۔‘‘ گوشو یہ کہہ کر کھانے کی میز سے اٹھ گیا  اور کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔

بنٹو نے سارے برتن اٹھائے، کچن میں رکھے ۔  میز صاف کیا اور کھانے کی چیزیں فریج میں رکھیں۔ کچھ دیر بعد گوشو اٹھا کچن مین چلا گیا۔ جب وہ کچن سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں حلوے کی بڑی سی پلیٹ تھی۔ بنٹو یہ دیکھ کر خاموش سا ہو گیا کیونکہ یہ پلیٹ اس نے ساتھ والی بلی مانو کو دینے کے لیے رکھی تھی۔

پھر اس نے سوچا گوشو مہمان آیا ہے۔ مجھے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

’’گوشو!آؤ کھیلنے چلتے ہیں۔ میں تمھیں اپنے نئے دوستوں سے ملاتا ہوں۔‘‘ بنٹو نے کہا۔

’’نہیں! نہیں! تم جاؤ۔ میں تو بس آرام کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ گوشو نے تیز تیز حلوہ کھاتے ہوئے کہا۔

دو دن  اسی طرح گزر گئے۔ آج گوشو کو بنٹو کے گھر آخری دن تھا۔

’’گوشو! تم یہ تھیلا اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اس میں میں نے تمھارے لیے ڈبل روٹی، پنیر اور گاجریں رکھی ہیں۔ ‘‘بنٹو نے کہا۔ پھر اسے کچھ یاد آیا۔

’’ایک منٹ! گوشو! تم یہیں ٹھہرو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘

جب بنٹو اندر گیا ، گوشو نے سوچا۔ اتنی چھوٹی سی ڈبل روٹی سے میرا کیا بنے گا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو سامنے ہی میز پر  ایک بڑی موٹی سی، گرم گرم روٹی پڑی ہوئی تھی۔ گوشو نے وہ روٹی اٹھا کر تھیلے میں ڈال لی۔

اتنے میں بنٹو واپس آگیا ۔ اس کے ہاتھ میں گتے کی بنی ہوئی پیاری سی ٹوکری تھی۔

’’گوشو! یہ تمھارے لیے میری طرف سے تحفہ ہے۔ تم اس میں اپنے کھلونے رکھ سکتے ہو۔ ‘‘

’’اوہ! تمھارا شکریہ! اب میں چلتا ہوں۔‘‘ گوشو نے جلدی جلدی  بنٹو کو خداحافظ کہااور باہر نکل گیا۔

کچھ دیر چلنے کے بعد اس نے سوچا۔ سب سے پہلے روٹی کھاتا ہوں۔ پتہ نہیں بنٹو نے اتنی بڑی سی روٹی کیسے بنائی ہے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلے میں سے روٹی نکالی اور کھانے لگا۔

دو تین منٹ بعد ہی اس کے پیٹ میں درد ہونے لگا ۔

’’آہ! آہ! یہ کیا! یہ کیوں درد ہو رہا ہے۔ اوہ!‘‘ گوشو نے تھیلا ایک طرف رکھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ لیا۔ تین دن سے وہ بس  بہت سارا کھانا کھاتا  رہاتھا۔ اس نے کوئی ورزش یا کھیل کو د نہیں کی تھی حتیٰ کہ بنٹو کی بھی کسی کام میں مدد نہیں کروائی تھی۔ اب اسے بدہضمی بھی  ہو رہی تھی۔

یہ تو اچھا ہوا کہ وہاں سے ہاتھی میاں گزر رہے تھے۔ انہوں نے گوشو کی یہ حالت دیکھی تو اسے جلدی سے اپنی سونڈ سے اٹھا کر اپنی کمر پر بٹھا لیا۔ پھر وہ اسے ڈاکٹر بھالو کے پاس لے گئے۔

’’گوشو! بیٹا! آپ نے کیا کھایا تھا؟‘‘ ڈاکٹر بھالو نے پیٹ چیک کرتے ہوئے پوچھا۔

’’وہ۔۔ ایک روٹی کھائی تھی۔ موٹی سی۔۔ یہ رہی! ‘‘ گوشو نے بتایا اور تھیلے میں سے روٹی نکال کر ڈاکٹر بھالو کو دکھائی۔

’’ارے! یہ ! یہ تو خمیری روٹی ہے جو چڑیوں کو ڈالنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ خرگوش اسے کھائیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔چلو شکر ہے تم نے تھوڑی سی کھائی ہے۔ بس اب تم یہ دوا صبح اور شام لو اور تازہ سبزیاں اور پھل کھاؤ۔‘‘

پھر ڈاکٹر انکل نے دوا کی ایک خوراک اسے کھلا دی اور باقی دوا اس کے تھیلے میں ڈال دی۔

’’جی ٹھیک ہے! ڈاکٹر انکل!‘‘ گوشو نے آہستہ سی آواز میں کہا اور کلینک سے باہر آگیا۔ ہاتھی میاں ابھی تک وہیں کھڑے تھے۔

’’آؤ! تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آؤں۔‘‘ ہاتھی میاں نے کہا اور سونڈ نیچے لٹکا لی تاکہ گوشو آسانی سے ان کی کمر پر بیٹھ جائے۔

’’ام م م! نہیں! ہاتھی انکل! آپ مجھے میرے دوست بنٹو کے گھر چھوڑ آئیں۔ اس کا گھر وہاں سب جھاڑیوں کے پاس ہے۔‘‘ گوشو نے اشارے سے بتایا اور اچھل کر ہاتھی میاں کی سونڈ سے لٹک گیا۔ وہ دوا کھانے کے بعد بہتر محسوس کر رہا تھا۔  

جب وہ بنٹو کے گھر پہنچا تو اس نے دروازے پر دستک دی ۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

’’ارے تو گوشو کی دستک لگتی ہے۔‘‘ بنٹو نے سوچا۔ وہ ابھی ابھی سبزیوں کا سوپ بنا کر فارغ ہوا تھا۔

’’گوشو! تم ! خیر تو ہے۔ ‘‘

’’ہاں ! میں تمھاری ایک چیز واپس کرنے آیا ہوں۔ بلکہ۔۔ میں تم سے سوری کرنے بھی آیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر گوشو نے تھیلے سے روٹی نکال کر میز پر رکھ دی  اور اسے اپنے پیٹ درد کا بھی بتایا۔ ساری بات سن کر بنٹو  کہنے لگا۔

’’اوہ!اچھا!  میں کب سے سوچ رہا ہوں کہ میں نے خمیری روٹی کہاں رکھ دی۔ چلو! کوئی بات نہیں! ‘‘

’’بنٹو! تم بہت اچھے ہو۔ مجھے معاف کر دو۔میں اتنے دن تمھارے گھر رہا اور تمھارا بہت سارا کھانا کھا لیا اور تمھاری مدد بھی بالکل نہیں کی۔‘‘

’’کوئی بات نہیں گوشو!چلو  آؤ اندر چلو۔ میں تمھیں سبزیوں کا سوپ پلاتا ہوں۔‘‘ بنٹو نے پیار سے کہا۔

’’نہیں! میں اب اپنے گھر جاؤں گا۔ اور ہاں! یہ کیلے میں تمھارے لیے لایا ہوں۔ ہاتھی میاں نے توڑ کر دیے ہیں۔ بہت میٹھے ہیں۔پیارے بنٹو! یہ میری طرف سے تمھارے لیے تحفہ ہے! ‘‘  گو شو نے کیلوں کا ایک بڑا سا بنڈل بنٹو کے میز پر رکھا اور اسے خداحافظ کہہ کر باہر نکل آیا۔

اس دن گوشو گھر جاتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ اب کبھی کوئی چیز بغیر  گھر والوں سے پوچھے نہیں کھاؤں گا۔

میرے پیارے بچو! جب آپ کسی کے گھر مہمان بن کر جائیں، تو بس وہی کھانا کھائیں جو گھر والوں نے آپ کے لیے رکھا ہے۔ بار بار فریج نہ کھولیں، الماریوں میں نہ جھانکیں۔ یہ اچھی بات نہیں ۔ ایسے کرنے سے میزبان کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور ہاں! جہاں تک ہو سکے میزبان کی مدد کریں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ گوشو آج کل پھر سے بنٹو کے گھر مہمان آیا ہوا ہے۔ دونوں کچن میں کھڑے ہیں۔ بنٹو سٹرابری کے پتے اتار رہا ہے اور گوشو کھیرے کاٹ رہا ہے۔ پھر دونوں مل کر سوپ اورپھلوں کا سلاد بنائیں گے۔ کچھ دیر بعد دونوں کھانا کھا چکیں گے تو بنٹو برتن دھوئے گا اور گوشومیز صاف کر کے بستر لگائے گا۔ارے واہ! گوشو کتنا اچھا مہمان ہے !