میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے دو چھوٹے سے جھنڈوں کی جو ایک ننھے بچے احمر کی سائیکل پر لگے ہوئے تھے۔ چودہ اگست گزر چکی تھی اور دونوں جھنڈ ے، جن کے نام سنہرو اور سبزو تھے، انتظار کر رہے تھے کہ احمر انہیں کب اتارے گا۔
’’میرا خیال ہے احمر ہمیں سمیٹ کر اپنی
کھلونوں والی الماری میں رکھ لے گا۔مجھے احمر کے کھلونے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
سبزو
نے کہا۔
’’جی
نہیں! احمر ہمیں اپنی کتابوں والی الماری میں رکھے گا۔میں نے وہ الماری دیکھی ہے۔
اتنی بڑی سی ہے!‘‘ سنہرو نے اچک کر بتایا۔
لیکن
پندرہ اگست بھی گزر گئی ۔ سنہرو اور سبزو سائیکل پر لگے لگے تھک گئے۔ ان کا سفید
اور سبز کپڑا گرد والا ہو گیا۔ ان کی چھڑیاں کمزور ہونے لگیں اور وہ
آہستہ آہستہ دائیں بائیں جھکنے لگے۔
سولہ
اگست کی شام احمر جب سائیکل چلانے کے لیے آیا تو اس کی نظر جھنڈوں پر پڑی۔
’’اوہ!
یہ ابھی تک لگے ہوئے ہیں۔ میں تو انہیں اتارنا بھول گیا۔ ‘‘
یہ
کہہ کر احمر سنہرو کی طرف بڑھااور ایک جھٹکے سے اسے اتار کر وہیں صحن میں پھینک
دیا۔ پھر اس نے سبزو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
’’آہ!
اوہ اوہ! آہ!!‘‘
دونوں
جھنڈوں کو بے حد درد ہوئی لیکن احمر ان کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔
پھر
اس نے سائیکل پر بیٹھ پر پیڈل چلائے اور صحن سے نکل گیا۔
تھوڑی
دیر بعد دادی جان صحن میں آئیں تو فرش پر گرے جھنڈوں کو دیکھ کر بہت دکھی ہوئیں۔
انہوں نے آگے بڑھ کر سنہرو اور سبزو کو اٹھایا، انہیں پیار سے صاف کیا اور اپنے
شوکیس میں رکھ دیا۔
’’آہ
! آہ! دادی جان!‘‘
ابھی
دادی جان عصر کی نماز پڑھنے جا رہی تھیں کہ احمر لنگڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا ۔
اس کے ٹخنے سے خون نکل رہا تھا۔
’’ارے
! یہ کیا ہوا؟ آجاؤ! آجاؤ!یہاں آؤ!‘‘ دادی جان نے احمر کو سہارا دیتے ہوئے
کرسی پر بٹھایا۔
’’وہ۔۔
میں۔۔ میرا پاؤں چین میں سے ٹکرا گیا اور پھر بہت خون نکلنے لگا۔ ‘‘ احمر نے درد
سے کراہتے ہوئے بتایا۔ دادی جان اب اسے مرہم لگا رہی تھیں۔
تھوڑی
دیر بعد جب احمر ہلدی والا دودھ پی رہا تھا تو دادی جان نے کہا۔
’’پیارے
بیٹے! آپ کو پتہ ہے جھنڈے بھی جب گر تے ہیں تو انہیں چوٹ لگ جاتی ہے ۔ وہ بھی
زخمی ہوجاتے ہیں۔ انہیں نیچے نہیں گرنے نہیں دینا چاہیے۔‘‘
یہ
سنتے ہی احمر کی نظر کیاری کے پاس پڑ ی جہاں اس نے سنہرو اور سبزو کو پھینکا تھا۔
اب وہ وہاں نہیں تھے۔
’’وہ
! دادی جان۔۔ میں نے سوچا کہ یہ تو پرانے ہو گئے ہیں تو۔۔انہیں پھینک دوں۔‘‘
’’نہیں!
بیٹا! جھنڈے جتنے بھی پرانے ہو ں، وہ ہمیشہ قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں سنبھال کر رکھنا
ہے انہیں سر بلند رکھنا ہے کیونکہ۔۔۔ اس سبزجھنڈے کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں
دی ہیں۔ ‘‘
دادی
جان کہتی چلی گئیں۔ ان کی آنکھیں نم تھیں۔
احمر
اٹھااور کچھ مشکل سے چلتے ہوئے دادی جان کے کمرے میں گیا۔ وہاں سبزو اور سنہرو
شوکیس میں ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
’’دیکھا
! میں نے کہا تھاناں! دادی جان بہت اچھی ہیں۔ وہ ہمہیں سنبھال لیں گی۔‘‘ سنہرو کہہ
رہا تھا۔
’’ہاں
! لیکن احمر نے ہمیں نیچے کیوں پھینکا۔ مجھے تو ابھی تک درد ہورہا ہے۔‘‘ سبزو اداس
تھا۔
’’چلو!
کوئی بات نہیں! احمر بچہ ہے ناں۔ وہ سمجھ جائے گا۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ جھنڈے کو
سمیٹ کر الماری میں رکھتے ہیں۔‘‘
’’ہمم!
اچھا چلو! ہم احمر کی کھلونوں والی الماری میں چلتےہیں۔ جب وہ اپنے کھلونے لینے کے
لیے الماری کھولے گا تو کتنا حیران ہو گا ناں!‘‘ سبزو نے یہ کہا اور اٹھ کر
آگے آگے چلنے لگا۔
’’جی
نہیں! تم جاؤ کھلونوں کے پاس۔ میں تو احمر کی کہانیوں والی کتاب پڑھنے جا رہا
ہوں۔ مجھے ’’ننھی چڑیا اور چودہ اگست‘‘ والی کہانی بہت پسند ہے۔ ‘‘ سنہرو نے بھی
کہا اور پھر سبزو سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ٹھہرو!
ٹھہرو! تم گر جاؤ گے۔‘‘ احمر نے جب دونوں جھنڈوں کو شوکیس سے بہت زیادہ آگے
جھکتے دیکھا تو جلدی سے بولا۔
پھر
اس نے کرسی شوکیس کے ساتھ رکھی اور اس کے اوپر چڑھ کر دونوں جھنڈے ہاتھ میں
پکڑ لیے۔
’’ہائیں!
میرا ٹینک کہاں ہے؟ دادی جان آپ نے تو نہیں دیکھا؟‘‘ احمر الماری میں جھانکتے
ہوئے پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں
بیٹا! یہ رہا میرے کمرے میں۔ تم رات کو ادھر ہی کھیل رہے تھے ناں۔ ‘‘ دادی جان نے
قالین پر سے ٹینک اٹھایااور احمر کو تھما دیا۔
پھر
احمر نے سبزو کو ٹینک والے فوجی کے ہاتھ میں تھما دیا اور ٹینک اٹھا کر الماری میں
رکھ دیا۔ اب سنہرو کی باری تھی۔
احمر
نے کہانیوں والی کتاب سے ’’ننھی چڑیااور چودہ اگست ‘‘ والی کہانی ڈھونڈی اور سنہرو
کو نرمی سے تہہ کر اسی صٖفحے پر رکھا اور کتاب بند کر دی۔
بچو!
دونوں جھنڈے بہت خوش تھے۔ سبزو ساری رات فوجی کے ہاتھ میں کھڑا خوشی سے لہراتا رہا
تھا اور سنہرو نے وہ کہانی اتنی بار پڑھ لی کہ اب وہ سبزو کو یہ کہانی زبانی بھی
سنا سکتا تھا!
میں
آپ کو بتانا بھول گئی کہ چاہے وہ کتنا ہی پرانا ہو جائے،احمر نے پھر کبھی بھی کسی
جھنڈے کو نیچے گرنا نہیں دیا ۔ اور یہ بھی کہ سبزو اور سنہرو احمر کے پکے دوست بن
گئے ہیں۔
میرے
پیارے بچو! جھنڈا ہمیشہ اونچا رکھتے ہیں۔ اسے زمین پر نہیں پھینکتے۔ یہ تو سینے سے
لگانے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ تو دل و جان سے سنبھالنے کے لیے ہوتا ہے۔