میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے سیما اور راشد کے کھلونوں کی جو ایک چھوٹے سے کمرے میں بند تھے۔ رات کا وقت تھا سو دونوں نے اپنے کھلونوں کو کھیل والے کمرے میں چھوڑا اور اپنے اپنے بستر پر آکر لیٹ گئے۔
جب کھلونوں نے دیکھا کہ ہر طرف خاموشی چھا گئی ہے تو انہوں
نے سب سے پہلے بندوق کو اشارہ کیا۔ وہ سب
کھلونوں میں سب سے اونچی اور لمبی تھی۔
اس نے تھوڑا سا جھک کر دروازے سے باہر جھانکا۔ کوئی بھی نظر
نہیں آرہا تھا۔ رات گہری ہو گئی تھی ۔لاؤنج میں بس ایک ننھا سا بلب جل رہا تھا۔
’’ٹھِش! ٹھِش!‘‘
بندوق نے ہلکی ہلکی سی آوازیں نکالیں جن کا مطلب تھا اب ہم باتیں کر سکتے
ہیں۔
’’آہا!آہا! اوں اوں اوں!!! آؤ چلو!نئی گڑیا کا گھر دیکھ کر آئیں۔‘‘ ایک موٹی سی گڑیا
نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے گھونگھریالے
بالوں کو سمیٹے اور کہا۔ اس کے ساتھ پڑی ہوئی سنہرے بالوں والی گلابی رنگ کی باربی بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ٹک ٹک ٹک ٹک!‘‘
باربی نے گلابی ہی رنگ کے ننھے ننھے شوز پہنے ہوئے تھے۔اس
کے شوز کی آواز سے ٹینک والا فوجی بھی جاگ گیا اور اٹھ کر ٹینک پر کھڑا ہو گیا۔
پھر اس نے اپنی گن سنبھالی اور دائیں
بائیں دیکھنے لگا۔
دونوں گڑیائیں جب چلتی ہوئی نئے گھر کے پاس پہنچیں تو وہاں بھالو، ہیلی کاپٹر ، چھوٹے چھوٹے کپ، پلیٹیں اور
جگ گلاس پہلے ہی کھڑے ہوئے تھے۔
نئی گڑیا کا گھر بہت پیارا تھا۔ اس کی دیواریں سرخ اور سفید رنگ کی تھیں اور دروازے کا رنگ نیلا تھا۔ گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی سڑک تھی اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغ جس میں ایک ننھا سا خرگوش بیٹھا ہوا تھا۔ خرگوش کے ساتھ ننھی سی گڑیا کھڑی تھی جس کا نام پنکی تھا۔
باغ کی گھاس پر دو سفید کرسیاں تھیں جن پر دو لوگ بیٹھے
ہوئے تھے۔ یہ پنکی کی ماما اور پاپا تھے۔ پاپا ٹانگ پر ٹانگ پر رکھ کر بیٹھے تھے
اور ماما اون کی سلائیوں سے کچھ بن رہی تھیں۔
’’آنٹی! کیا آپ ہمیں اپنا گھر اندر سے دکھائیں گی؟‘‘
اچھلنے والے بندر نے ایک قلابازی لگائی
اور آگے ہو کر پوچھا۔
’’ہاں ! ہاں! میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ بھالو نے جھک کر
کہا۔
’’میں بھی!‘‘ باربی بولی۔
’’اور میں بھی!‘‘ گھونگھریالے بالوں والی اونی گڑیا بھی
ہاتھ ہلانے لگی۔
’’گھوں! گھوں ں ں ں!!یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟‘‘ یہ ٹینک والا
فوجی تھا جو ٹینک چلاتا ہوا نئے گھر کی طرف آرہا تھا۔
ننھی گڑیا پنکی کے چھوٹے سے پاپا، اخبار میز پر رکھ کر اٹھ
کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔
’’کچھ نہیں! فوجی بھائی! بس یہ کچھ دوست ہیں۔ جو ہمارا نیا
گھر دیکھنے آئے ہیں۔ آپ چاہیں تو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں اور پھر ہمارے ساتھ چائے
بھی پی کر جائیں۔‘‘
’’نہیں! میں چائے نہیں پیتا۔ یہ کڑوی ہوتی ہے۔ میں بس نیا
گھر دیکھو ں گا اور اس بات کا بھی خیال
رکھوں گا کہ کوئی آپ کے گھر کو نقصان نہ پہنچائے۔‘‘
’’زوں! زوں! اونہہ! بھلا ہم نے نئے گھر کو کیا نقصان
پہنچانا ہے۔ ‘‘ ریسنگ کار نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ وہ بہت نازک سی تھی اور اسے کوئی
بھی بات بری لگ جاتی تھی۔
’’کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ! کھٹ کھٹ!‘‘ یہ ہیلی کاپٹر کے پروں کی
آواز تھی جو یکدم چلنے لگے تھے۔
’’اوہو! بند کرو۔ ہیلی کاپٹر کو بند کرو پلیز۔‘‘ سب کھلونے
اس کے پروں سے ڈر کر پیچھے پیچھے ہٹ گئے تھے۔
’’کھٹ! کھٹ! کھ۔۔۔۔ٹ ٹ! اوہ! میں معذرت چاہتا ہوں۔ میرے
اندر بیٹھے پائلٹ کا ہاتھ غلطی سے سٹارٹ بٹن پر دب گیا تھا۔ دراصل وہ فوجی بھائی
کو ہاتھ ہلانا چاہ رہا ہے۔ ‘‘ ہیلی کاپٹر نے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے بتایا ۔
فوجی بھائی نے گن بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دائیں ہاتھ سے ہیلی کاپٹر والے پائلٹ کی
طرف ہاتھ ہلایا۔
اتنے میں پنکی کی ماما سب کمروں کے دروازے کھول چکی تھیں ۔
’’یہ دیکھیں! یہ پنکی کا کمرہ ہے۔ ‘‘ سب کھلونوں نے گھر کے
اندر جھانک کر دیکھا۔ ننھا سا گلابی رنگ کا بستر، ایک لیمپ اور سنگھار میز کے ساتھ
بہت ہی چھوٹی سی کرسی۔
’’اور یہ دیکھیں! یہ کچن ہے۔ یہ چولہا ۔ یہ برتن رکھنے کے
لیے شیلف۔ اوون اور۔۔‘‘ ابھی ماما بتارہی تھیں کہ ایک آواز آئی۔
’’آنٹی! کیا میں آپ کے کچن میں رہ سکتا ہوں؟‘‘
یہ ایک جگ تھا جو اپنے گلاسوں سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوا تھا ۔
’’نہیں پیارے جگ! آپ یہاں نہیں آسکتے۔ یہ جگہ تو بہت
چھوٹی ہے۔ ‘‘ پنکی کی ماما نے کہا اور پھر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھ گئیں۔
’’پنکی! پنکی! آہستہ ! آہستہ!‘‘ اچانک پنکی کے پاپا کی
آواز آئی جو بھاگتے ہوئے سڑک کی طرف
جارہے تھے۔ آگے پنکی دوڑ رہی تھی اور اس
کاخرگوش ان دونوں کے آگےآگے۔ پنکی کی پوری کوشش تھی کہ وہ اپنے خرگوش کو پکڑ لے۔
اس کوشش میں اسے بالکل دھیان نہیں رہا کہ وہ سڑک کے درمیان میں آگئی ہے۔
’’زوں!! زوں!!! چنچ چوں چنچ چوں چنچ چ چ چ !!!‘‘ ریسنگ کار جو
بہت ہی تیز بھاگتی ہوئی آرہی تھی، نے زور سے بریک لگائی۔
اتنے میں پنکی کے پاپا کار کے آگے آکر پنکی کو اٹھا چکے
تھے۔
’’میری بیٹی!تمھیں کچھ ہوا تو نہیں!‘‘ انہوں نے پنکی کو
پیار کرتے ہوئے پوچھا۔
پنکی کی ماما بھی آگئی تھیں ۔ پہلے وہ بھی بہت گھبرائیں
لیکن پھر پنکی کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر واپس کچن میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس
آئیں تو ان کے ہاتھ میں جوس کے گلاس
تھے جو وہ سب کھلونوں کے لیے لائی تھیں۔
سب کھلونے جوس پینے لگے سوائے ریل گاڑی کے۔
’’پوں!!! چھک چھک چھک !!‘‘ وہ چلتی ہوئی آئی اور اس نے جوس کا چھوٹا سا گلاس واپس نئے گھر کے
کچن میں رکھ دیا۔
’’دراصل میں اتنا ٹھنڈا جوس نہیں پی سکتی۔ ورنہ میرا انجن خراب ہو جائے گا۔‘‘ ریل
گاڑی نے کہا اور چھک چھک چھک کرتی واپس اپنے سٹیشن پر جا کر کھڑی ہو گئی۔
ریسنگ کار ایک طرف شرمندہ سی کھڑی تھی۔ آخرکار وہ پنکی کے پاپا سے کہنے لگی۔
’’مجھے معاف کر دیں ا نکل! میں بہت تیز رفتار کے ساتھ چل رہی تھی۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں! بیٹا! آئندہ خیال رکھنا۔ ‘‘ پنکی کے پاپا
نے کہا اور اخبار پڑھنے لگے۔
اب صبح ہونے لگی تھی۔اونی گڑیا کہنے لگی۔
’’میرے خیال سے اب ہم سب کو واپس چلنا چاہیے ۔‘‘
پھر سب کھلونے اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس اپنی اپنی جگہ جانے
لگے۔
’’زوں! زوں! ‘‘ ٹینک والا فوجی بھی ٹینک چلاتے ہوئے گھر جانے لگا۔ پہلے وہ پنکی کے
پاس رکا جو اپنے خرگوش کو پیار کر رہی تھی۔
’’پیاری پنکی!‘‘ فوجی کہنے لگا۔
’’کبھی بھی سڑک پر نہیں بھاگتے۔ پہلے دائیں دیکھتے ہیں پھر
بائیں! پھر سڑک پار کرتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوجی نے ٹینک سٹارٹ کیا۔
’’زوں! زوں! زوں! ‘‘ اور ٹینک چلاتا ہوا اپنی جگہ پر جا کر
کھڑا ہو گیا۔
جب راشد اور سیما ناشتہ کر کے کھلونوں والے کمرے میں آئے ،
تو سب کے سب کھلونے خاموش کھڑے تھے۔ راشد اور سیما مسکرائے اور باہر نکل گئے۔ انہیں
اپنی نانی جان کے ساتھ باغ کی سیر کو جانا تھا۔
اس روز ہمیشہ کی طرح راشد اور سیما سڑک پر یہاں وہاں بھاگتے
نہیں پھرے، بلکہ پورے دھیان کے ساتھ نانو کی انگلی پکڑے فٹ پاتھ پر چلتے رہے۔
کھلونے نہیں جانتے تھے ۔ راشد اور سیما تو سوئے ہی نہیں
تھے! وہ تو اونی گڑیا کی آواز ’’آہا! آہا! اوں اوں اوں!!‘‘ سن کر ہی جاگ گئے
تھے اور ان سب کی باتیں سن چکے تھے۔
میرے پیارے بچو! کبھی بھی سڑک کو بے دھیانی میں پار نہ
کریں۔ ٹریفک کے بیچ بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔ آرام اور آہستگی کے ساتھ سڑک پر
چلیں۔ اس پار جانے کے لیے پہلے دائیں دیکھیں پھر بائیں۔ پھر سڑک پار کریں۔ امید ہے
آپ ان سب باتوں کو خیال رکھیں گے۔ ہاں! گھر جا کراپنے ٹینک والے فوجی کو میرا سلام ضرور کہیں!