بی مکڑی اور الو میاں

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک بی مکڑی کی جنہوں نے ناشپاتی کے درخت میں اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ ایک دن جب زوروں کی آندھی چلی تو بی مکڑا کا کمزور سا جالا ٹوٹ گیا۔ جب تک بی مکڑی کی آنکھ کھلی ، ان کا جالاجگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا۔ پھر کیا تھا! بی مکڑی نے آستینیں اوپر کیں ، ایک گلاس پانی پیا اور اپنا گھر دوبارہ سے بنانا شروع کر دیا۔

’’ٹھک ٹھک ! ٹھک ٹھک!‘‘ بی مکڑی زور و شور سے ہتھوڑی چلا رہی تھیں کہ ان آوازوں سے الو میاں کی آنکھ کھلی گئی۔ وہ درخت کی سب سے اوپر والی شاخ پر سوئے ہوئے تھے ۔


’’بی مکڑی! ذرا آرام سے ہتھوڑی چلائیں۔ اتنے شور میں بھلا کیسے نیند پوری کر سکتا ہوں؟‘‘ الو میاں نے سرخ سرخ آنکھیں ملتے ہوئے کہا ۔

’’ام امم!  ایک منٹ!‘‘ بی مکڑی نے اپنے منہ میں دھاگے پکڑے ہوئے تھے جن سے وہ اپنا جالا بُن رہی تھیں۔ پہلے انہوں نے منہ سے وہ دھاگے نکالے ، پھر کہنے لگیں۔

’’معافی  چاہتی ہوں الو میاں! دراصل میرا گھر آندھی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔میرا سونے کا کمرہ،  کھانے کا کمرہ اور کچن سبھی کچھ خراب ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ دھوپ تیز ہو ، مجھے یہ جالا جلدی جلدی مکمل کرنا ہے۔‘‘

اپنی بات مکمل کر کے بی مکڑی نے اوپر دیکھا۔ الو میاں دوبارہ سو چکے تھے۔ شاید انہوں نے بی مکڑی کی پوری بات بھی نہ سنی تھی۔

’’اوم! امم! بات بھی نہ پوری سنی!‘‘ انہوں نے منہ میں دھاگے رکھتے ہوئے سوچا اور پھر سے جالا بُننے میں مصروف ہو گئیں۔

دوپہر تک بی مکڑی بہت تھک گئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے سارا کام وہیں چھوڑا اور آرام کرنے کے لیے لیٹ گئیں۔ سارے اوزار جوں کے توں پڑے تھے۔ بی مکڑی کی یہ پرانی عادت تھی۔ جب بھی جالا بُنتیں، کوئی  چیز اپنے ٹھکانے پر نہ رہتی۔ سب کچھ بکھرا بکھرا رہتا۔ بی مکڑی کوئی چیز ٹھکانے پر نہ رکھتی تھیں۔

’’ہائیں! یہ کیلیں کہاں گئیں؟‘‘ بی مکڑی اب اٹھ چکی تھیں اور ہاتھ میں ہتھوڑی پکڑے سارے جالے میں گھوم رہی تھیں۔

’’میں نے کھڑکی ہی میں رکھی تھیں۔ ام! ام! نہیں ! شاید الماری میں رکھ دی تھیں۔‘‘

’’اوہ ! یہاں پر بھی نہیں ہیں۔‘‘

’’اب کیا کروں؟‘‘ بی مکڑی نے الجھن سے سوچا۔ جالا تو تیار تھا بس  اس کے دروازے پر تھوڑی سی کیلیں لگنی رہ گئی تھیں۔ نئی الماری کے پیچ بھی کسنے تھے۔

کھانے کے میز کی طرف جاتے جاتے اچانک ان کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ وہ کیلوں سے بھرا ہو اتھیلا تھا۔

’’اوہ یہ رہا! یہ یہاں کیسے آگیا؟‘‘ بی مکڑی نے سوچا۔ پھر انہیں خود ہی یاد آگیا  کہ سونے سے پہلے انہوں نے ہی جلدی میں یہ تھیلا الماری میں رکھنے کی بجائے یہاں رکھ دیا تھا۔

خیر! انہوں نے جلدی جلدی دروازے میں کیلیں ٹھونکیں اور الماری کی طرف بڑھیں۔ پیچ کس اٹھانے کے لیے انہوں نے الماری کے اوپر ہاتھ مارا  لیکن یہ کیا! پیچ کس وہاں نہیں تھا۔

’’اب پیچ کس کہاں چلا گیا؟‘‘ بی مکڑی نے جلدی جلدی نہ صرف الماری کے اوپر بلکہ الماری کے اندر بھی دیکھ لیا لیکن پیچ کس نہ ملا۔

ابھی وہ پڑوس میں رہنے والی مکڑی  کے پاس جانے کا سوچ ہی تھیں کہ ان کی نظر الماری کے نیچے پڑی۔ پیچ کس وہاں پڑا ہوا تھا اور مٹی سے اٹ گیا تھا۔

’’اوہ ! یہ یہاں تھا! چلو شکر ہے! ‘‘ بی مکڑی نے اسے اٹھا یا کپڑے سے صاف کیا اورگرد والا  کپڑا یونہی کرسی پر رکھ کر الماری کی طرف بڑھ گئیں۔

’’کھیس! کھیس! ‘‘ اچھی طرح پیچ کسنے کے بعد بی مکڑی نے سوچا۔

’’اب کچھ کھالینا چاہیے۔ صبح سے میں نے صرف ایک مکھی کھائی ہوئی ہے وہ بھی بہت چھوٹی سی۔ چلو! اب کچھ مزیدار سا دیکھتی ہوں فریج میں!‘‘

فریج کھول کر انہو ں نے ڈبل روٹی اور پنیر کا پیکٹ نکالا۔ پیکٹ کا سرا کاٹنے کے لیے قینچی کی ضرورت تھی۔

’’قینچی!! قینچی!! ام! امم! میں نے کہاں رکھی تھی؟‘‘

بی مکڑی سوچتے ہوئے کمرے میں آئیں ۔

’’سی ! سی! ‘‘ اچانک ان کے منہ سے نکلا۔ انہوں نے نیچے دیکھا۔ ان کاپاؤں کسی کیل کے اوپر آگیا تھا اور اب تلوے  سے خون بہہ رہا تھا۔

بی مکڑی نے جلدی سے پاس کرسی پر پڑا ہوا گرد آلود کپڑا اٹھا کر زخم پر رکھ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’دیکھیں! آپ کا زخم کافی خراب ہو گیا ہے۔ اس میں گرد اور لکڑی کے ذرے چلے گئے ہیں۔  آپ کو کافی آرام کی ضرورت ہے۔زیادہ چلنے پھرنے کی کوشش نہ کریں۔زخم خراب ہو سکتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر بھالو نے بی مکڑی کو سمجھایا جو کچھ ہی دیر پہلے ان کے پاس پاؤں کے زخم کے لیے دوا لینے آئی تھیں۔بی مکڑی نے خاموشی سے دوا کا تھیلا اٹھایا اور لنگڑاتی ہوئی گھر کی طرف چلنے لگیں۔

اچانک انہیں الو میاں نظر آئے جو ان کے اوپر ہی اڑ رہے تھے۔ وہ جلدی سے اڑ کر نیچے کی طرف آئے اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

’’بی مکڑی! میں بھی گھر جارہا ہوں۔ میں ڈاکٹر بھالو سے اپنی خالہ جان کے لیے دوا لینے آیا تھا۔ ارے آپ کے پاؤں کو کیا ہوا؟‘‘

بات کرتے کرتے الو میاں کی نظر ان کے پاؤں پر پڑی ۔

’’وہ بس! ایسے ہی! کیل نیچے آگئ تھی۔ ‘‘ بی مکڑی نے اداسی سے جواب دیا۔ انہیں چلنے میں بے حد مشکل ہو گئی تھی۔ الو میاں ایک دم رک گئے اور اپنے پرپھیلا کر بولے۔

’’بی مکڑی ! آپ میرے اوپر بیٹھ جائیں ۔ آئیے! میں آپ کو گھر تک چھوڑ آؤں۔‘‘

 

جب وہ دونوں گھر پہنچے تو رات گہری ہو گئی تھی۔بی مکڑی دروازہ کھول اپنے جالے کے اندر داخل ہوئیں اور  اپنے گھر کو دیکھا۔ جگہ جگہ مختلف اوزار اور ٹوٹے ہوئے دھاگے بکھرےہوئے تھے۔ فریج کا دروازہ کھلا ہوا تھا  اور کرسیاں میز سے کہیں دور کونے میں آگے پیچھے پڑی تھیں۔

 الو میاں بھی ان کا گھر دیکھ چکے تھے ۔  انہوں نے بی مکڑی کو کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا اور اپنے گھر چلے گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد الو میاں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک خوبصورت باکس تھا۔

’’بی مکڑی! یہ باکس میرے ماموں میرے لیے لائے تھے۔ لیکن میں نے سوچا یہ آپ کے کام آسکتا ہے۔ اس لیے یہ میری طرف سے تحفے کے طور پر قبول کریں۔ آپ اس میں ہتھوڑی، قینچی اور  کیلیں وغیرہ سب آسانی سے رکھ سکتی ہیں۔ ‘‘

’’اوہ! یہ بہت پیارا ہے۔ تمھارا شکریہ الو میاں!‘‘ بی مکڑی نے کہا اور باکس ان کے ہاتھ سے لے لیا۔

پھر الو میاں کہنے لگے۔

’’پیاری بی مکڑی! کیا میں آپ کا گھر سمیٹنے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ میرے خیال میں آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ سن کر بی مکڑی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

بچو! پھرالو میاں نے بی مکڑی کا گھر صاف ستھراکیا، انہیں تازہ کھانا پکا کر دیا اور ان کے سب اوزار سمیٹ کر نئے باکس میں رکھے۔

پیارے بچو! بی مکڑی اب جب بھی ہتھوڑی ، قینچی ، پیچ کس یا کیلیں نکالتی ہیں، ان کو استعمال کر کے دوبارہ نئے باکس میں سمیٹ کر رکھ  دیتی ہیں۔ اس طرح  سے اوزار بکھرے ہوئے نہیں رہتے، جب ضرورت ہو تو مل جاتے ہیں اور نقصان بھی نہیں پہنچاتے۔ آپ بھی جب اوزار استعمال کریں تو انہیں واپس باکس میں ضرور ڈالیں۔ اگر آپ کے پاس اوزار کھنے والا باکس نہیں ہے تو آپ بھی خود بھی  بنا سکتے ہیں۔ جوتے کے ڈبے سے تو بہت پیارا ٹول باکس بن سکتا ہے۔ اور ہاں! اپنا نیا ٹول باکس بی مکڑی کی نظر سے بچا کر رکھیے گا کیونکہ یہ کہانی تو ہے  بہت دن پہلے کی۔ اب تو بی مکڑی کا باکس پرانا ہو گیا ہے اور انہیں نئے ٹول باکس کی شدت سے  تلاش ہے!