ث ۔ ثابت قدم کو ہر جگہ ٹھاؤں

جب سے طارق میاں کی نوکری گئی تھی، گھر بھر میں پریشانی سی پھیلی ہوئی تھی۔ اماں کا مزاج اگر اداس اداس تھا تو ان کی بہو سلمی کاموڈ درہم برہم۔ بچے الگ سوچ میں تھے کہ اب کیا ہو گا۔ ابا ان کے سکول کی فیسیں کہاں سے لائیں گے اور نئی کتابوں کاپیوں کا خرچہ کیونکہ اٹھائیں گے۔

یہ نہیں تھا کہ طارق میاں کوئی کام چور ورکر تھے لیکن کورونا اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک صاحب کی فیکٹری کئی ماہ سے گھاٹے میں جار ہی تھی۔ سو کئی ایک ملازمین کو جواب دے دیا گیا کہ فیکٹری کا اکاؤنٹ ان کی تنخواہوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکا تھا۔

طارق میاں سوچ میں تھے اب کیا کیا جائے۔


 فیکٹری کی یہ  نوکری ان کی جوانی کے دس سال کھا گئی تھی۔ ابا کے یکدم  جانے کے  بعد وہ بی اے کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر فیکٹری کا یونیفارم پہن کر مشینوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے۔ شادی ہوئی بچے ہوئے لیکن بس ایک چیز نہ ہوئی۔ وہ تھی ان کی ترقی۔ ایک عام سے ورکر سے وہ تجربہ کار ورکر تو بن گئے تھے لیکن ملک صاحب  سے پروموشن لینے کے لیے خوشامد اور رشوت دونوں کی ضرورت تھی۔  سیدھے سادے طارق میاں کے پاس دونوں کی ہی کمی تھی  ، سو  دس سال تک وہیں مشینوں کے سامنے کھڑے پسینے میں بھیگی قمیص نچوڑتے رہے۔

لیکن اب تو معاملہ یکدم الٹ ہو گیا تھا۔ یہ کڑی مشکل دراصل  یہ طارق میاں کے اعصاب اور خداداد صلاحیتیوں کا ایک امتحان تھا۔ اعصاب تو ان کے مضبوط تھے ہی، تبھی تو سیف الماری کے اندرونی خانے میں گنتی کے چند نوٹوں کے باجود اماں ، سلمیٰ اور بچوں سبھی کو تسلی دیے ہوئے تھے۔ ہاں صلاحیت انہیں ایک بچپن سے ہی ملی تھی۔ وہ تھی ، سائیکل ٹھیک کرنے کا ہنر۔ لڑکپن میں جب ابا نے سہراب سائیکل لے کر دی تو اگلے دن سب کیا دیکھتے ہیں، پرزہ پرز ہ سائیکل کا صحن میں بکھرا پڑا ہے اور طارق میاں ایک پیڑھی پر بیٹھے گہری  سوچوں میں گم !

ابا تو ڈنڈا اٹھانے لگے تھے لیکن سلمیٰ بیگم آگے آگئیں اور انہیں سمجھا بجھا کر فیکٹری بھیجا۔

شام کو ابا واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں وہی سائیکل جس کا انجر پنجر ناشتے کےسمے الگ الگ دیکھ کر گئے تھے، طارق میاں اور ان کی چھوٹی بہن ننھی کو لیے صحن میں چکر لگا رہی ہے۔ ابا میاں دل ہی دل میں حیران اور پھر خوش ہوئے کہ بیٹا ذہین نکلاتھا۔ بس پھر کیا تھا، پنکچر لگانے سے لے کر  چین کی الجھی غراریاں سلجھانے تک، طارق میاں سبھی کچھ خود ہی خود سے سیکھ چکے تھے ۔ دوست یاروں کی سائیکل بھی ٹھیک کر دیا کرتے اوریو ٹیوب سے مزید جانکاری بھی حاصل کرتے رہتے۔

اب جبکہ ان کو قدرت نے موقع دے دیا تھا، تو وہ اسے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ سو ، اماں کی دعائیں اور ایک زنگ آلود ٹول باکس لیے  وہ کرائے کی  ایک چھوٹی سی دکان میں داخل ہوئے اور سائیل مرمت کا کام شروع کر دیا۔

سلمیٰ کو اس کام پر اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس کا ذاتی خیال تھا، طارق میاں بہت جلد اس کام سے اکتا جائیں گے۔ کیونکہ ایک تو اس میں آمدنی کم تھی دوسرا محنت بہت زیادہ۔یہ بات تو خود طارق میاں بھی خوب جانتے تھے یہ  سائیکل کوئی فیکٹری میں چلنے والی مشین تو ہے نہیں کہ بس بٹن دبایا اور چلنے لگی ، نہ ہی ٹیوب اور ٹائر کسی خودکار سسٹم کے تحت ازخود اپنا پنکچر لگا سکتے ہیں۔ سو اس دکان کو چلانے کے لیے بہت زیادہ محنت، لگن اور ثابت قدمی درکار تھی۔ سو طارق میاں لگے رہے ۔

چند مہینے بعد ہی جب دکان کے مالک نے کرایہ بڑھانے کی بات کی تو طارق میاں سوچ میں پڑ گئے۔ ان کا خیال تھا اب مرمت کے ساتھ ساتھ نئی سائیکلوں کا کاروبار شروع کیا جائے۔ دوستوں کا ادھار تو وہ کب کا واپس کر چکے تھے، سو تھوڑی بہت بچت سے وہ دو نئی سہراب سائیکلیں لے کر آئے۔

اگلے دن ہی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑاجب ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ آیا اور گئیر والی ماؤنٹین سائیکل دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ طارق میاں تو تب سمجھ میں آئی  سہراب کا سہراتو کافی  پرانا ہو گیا تھا۔ اب تو ماؤنٹین بائیک اورجاپانی سائیکلوں کا دور دورا تھا۔ سو انہوں نے بھی دونوں سائیکلیں  واپس کیں اور ان دونوں کی قیمت میں ایک چمکتی ہوئی جاپانی سائیکل خرید لائے۔ اسے اوور آل کیا ، یعنی سارے کس بل ٹھیک کیے، گدی اور ہینڈل  کو کپڑے سے خوب چمکایا اور شام کو اسی بچے کو وہ سائیکل مناسب منافع کے ساتھ بیچ دی۔ ساتھ ہی تین ماہ کے لیے مفت مرمت کی گارنٹی دی جس پر بچے نے تو کوئی دھیان نہ دیا البتہ اس کے والد بہت خوش ہوئے جس کا پتہ ان کے گرم جوش خداحافظ سے چل رہا تھا۔

آج طارق میاں گھر جاتے ہوئے بچوں کے لیے بیکری سے ان کا پسندیدہ کیک لے کر گئے جو ان کے لحاظ سے  مہنگا تو تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ اندر سے کتنے خوش تھے۔ انہیں قدرت نے آگے بڑھنے کا راستہ سجھا دیا تھا۔

بس پھر کیا تھا! طارق میاں ایمان داری اور محنت کے جوتے پہن کر کامیابیوں کے زینے چڑھتے گئے۔ بہت بار ایسا بھی ہوا اور جو ہر کاروبار میں اکثر ہوتا رہتا ہے کہ منافع کی بجائے نقصا ن اٹھانا پڑ گیا۔

اکثر گلی میں سے گزرتے ہوئے ان کے پرانے دوست یار چھیڑتے۔

’’یار طارق! یہ میلے کپڑے اور گندے ہاتھوں میں سارا دن کیسے گزارتے ہو۔ ہماری مانو تو کوئی ڈھنگ کا کام شروع کرو جس میں عزت بھی ہو اور دھن بھی خوب برسے۔‘‘

لیکن طارق میاں خوب سمجھتے تھے۔ رزق حلال عین عبادت ہے اور اپنے زور بازو کی کمائی عین عزت اور سعادت۔ رہ گیا دھن کا برسنا تو وہ تو برسے گا ہی۔ کیونکہ یہ اللہ کا قانون ہے۔ ہر انسان کو اس کی کوششوں  کے مطابق ضرور ملتا ہے۔

کئی بار انہوں نے سوچا اس کاروبار کی بجائے کہیں نوکری ہی نہ کر لوں،لگی بندھی آمدنی آتی رہے گی ۔ لیکن پھر خیال آتا کہ بندہ اپنے کاروبار کا بادشاہ ہوتا ہے اور اگلے کے کاروبار کا ملازم یا بعض اوقات ملازم سے بھی بدتر۔ سو طارق میاں لگے رہے۔

یہ ان کی  ثابت قدمی ہی تھی جو ہر گھاٹے کے بعد انہیں اس کا روبار کو نئے سرے سے آگے بڑھانے پر مجبور کر دیتی تھی۔دھوپ ہوتی یا حبس کا موسم، طارق میاں کی دکان کا ایک ہی موسم رہتا۔ وہ تھا مسقتل مزاجی اور ثابت قدمی کا موسم۔ بارش میں بھیگتے ہوئے آنا پڑتا یا سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے سائیکلیں ٹھیک کرنی ہوتیں، طارق میاں نے کبھی ہمت اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آہستہ آہستہ لوگ ان کو نام اور کام دونوں پہچاننے لگے۔ ان کی مرمت کی ہوئی سائیکلیں ، اگر اچھے طریقے سے چلائیں جائیں، تو اچھا خاصا عرصہ بغیر چوں چراں کے  نکال جاتی تھیں ۔ ان کی نئی سائیکلیں ہاتھوں ہاتھ بکتی تھیں کیونکہ لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا طارق میاں بے ایمانی نہیں کر سکتے۔ ہمیشہ اچھی چیز دیں گےچاہے کچھ دام  زیادہ  ہی لے لیں۔

 یوں ان کا نام بنتا چلاگیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ ملک صاحب اپنے بیٹوں کے لیے سائیکلیں خریدنے کے لیے ان کی دکان پر چلے آئے اور اپنے حقیر سے ورکر طارق کو مالکانہ لہجے میں بات کر تے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ وہ طارق جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہ کی تھی اس وقت جب وہ ان کی فیکٹری کو دس سال کا خون پسینہ دے رہا تھا اور نہ ہی اس وقت جب انہوں نے بغیر کسی نوٹس کے اسے نوکری سے نکال باہر کیا تھا، وہی طارق آج چمکتی دمکتی نئی نکور سائیکلوں کے  ایک طرف اونچی سی کرسی پر بیٹھا  ملازموں کو ہدایات جاری کر رہا تھا۔ملک صاحب نے چپ چاپ بیٹوں کے لیے سائیکلیں لیں اور آہستگی سے سیڑھیاں اتر گئے۔

طارق میاں پہچان تو چکے تھے  لیکن وہ وضعدار اوراعلیٰ ظرف بھی تھے، سو نہایت خوش اخلاقی سے اٹھ کر ملے تھے اور پانچ پانچ سو دونوں سائیکلوں کی قیمت میں سے چھوڑ بھی دیے تھے۔

کبھی مال روڈ سے گزرنا ہو تو ’’طارق سائیکلز اور سپئیر پارٹس‘‘ پر ضرور جائیں۔جب آپ دکان کے اندر جائیں گے تو سامنے والی بڑی دیوار پر ایک جملہ لکھا ہوا ہے۔ یہ جملہ طارق میاں کو ان کے ابا میاں اکثر کہا کرتے تھے۔

’’ ثابت قدم کو ہر جگہ ٹھاؤں!‘‘

 ثابت قدم جہاں بھی جائے،  کامیابی اور کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔