سمجھدار بھورو

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے  ایک سفید رنگ کے بکرے، بھورو کی جواپنے بہت سارے دوستوں کے ساتھ ایک ٹرک  میں سفر کر رہا تھا۔ بھورو تھک گیا تھا اور اسے بھوک بھی لگ گئی تھی ۔ جب ٹرک کے ڈرائیور نے دیکھا کہ ہوٹل آگیا ہےتو اس نے زوں زوں کی آوازوں کے ساتھ ٹرک کو سڑک کے ساتھ روک دیا  ۔ پھر وہ دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔

 پہلے وہ ٹرک کے پچھلے حصے میں آیا۔ اس نے بھورو  اور دوسرے بکروں کوچارہ ڈالا اور ایک پلاسٹک کی بالٹی میں پانی ڈال کر ان کے آگے رکھ دیا۔ پھر وہ چھلانگ لگا کر  نیچے اتر ا اور ہوٹل کے اندر چلا گیا۔

بھورو نے بہت مزے سے چارہ کھایا ۔ ابھی کچھ چارہ باقی تھا  لیکن بھورو کا پیٹ بھر گیا تھا۔ اس نے صاف ستھرے چارے کوجان بوجھ کر ادھر ادھر پھیلا دیا اورکچھ  پتوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’بھورو! تم پھر کھانا ضائع کر رہے ہو۔‘‘ ایک بوڑھے بکرے، شیبو  نے بھورو کو دیکھ کر کہا۔


’’شیبوانکل! میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ یہ والا بچ گیا ہے۔ اس لیے میں اس سے کھیل رہا ہوں۔ ‘‘ بھورو نے پتوں کو پاؤں سے مسلتے ہوئے کہا۔ اچانک اس کی نظر پانی کی بالٹی پر پڑی۔

’’آہا!‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔ پھر وہ بھاگ کر دوسرے بکروں کے بیچ میں سے راستہ بناتا ہوا آیا اور ایک ٹانگ اٹھا کر بالٹی کے اندر ڈال دی۔

’’ارے ارے بھورو! یہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے ابھی پانی پینا تھا۔تمھیں معلوم ہے میں آہستہ آہستہ کھانا کھاتا ہوں۔‘‘ شیبو انکل نے کہا۔ ۔’’گندے بھورو! سارا پانی خراب کر دیا۔میں ڈرائیور سے تمھاری شکایت لگاؤں گا۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے اونچی آوازیں نکالیں۔ ’’بھے بھے! بھے بھے!‘‘

جب ڈرائیور ٹرک کے اندر آیا تو اس نے دیکھا۔  بھورو بکرے نے ٹانگ کی ٹھوکر سے بالٹی الٹ دی تھی اور سارا پانی ٹرک کے فرش پر بہہ گیا تھا۔

’’بھورو! تمھیں ایک دن ضرور سزا ملے گی۔ ‘‘ ڈرائیور نے ناراضی سے کہا اور کپڑا لے کر ٹرک صاف کرنے لگا۔ پھر اس نے دوبارہ صاف پانی سے بالٹی بھری  اور بکروں کے آگے رکھ دی۔

’’زوں زوں! زوںںں!‘‘ ٖڈرائیور نے ٹرک سٹارٹ کر دیا تھا۔ سفر پھر سے شروع ہو گیا۔ وہ ساری رات سفر کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو وہ منڈی پہنچ گئے تھے۔

ابھی ڈرائیور نے بھورو کو ٹرک سے اتارا ہی تھا کہ ایک گاہک کو بھورو پسند آگیا اور اسے لے کر اپنے گھر آگیا۔ یہاں آکر بھورو بہت خوش ہوا۔ صاف ستھرا فرش، سونے کے لیے الگ بستر اور چادر۔ وہ سفر سے بہت تھکا ہوا تھا سو مزے سے بستر پر سو گیا۔

جب وہ سو کر اٹھا تو اسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا سامنے ہی سرخ برتن میں سبز سبز پتے پڑے ہوئے تھے۔ کیلے اور سبزی کے کچھ چھلکے بھی تھے۔ ایک نیلے رنگ کے ٹب میں پانی بھی تھا۔ یہ سب دیکھ کر بھورو کے منہ میں پانی آگیا۔

وہ جلدی سے اٹھا اور تیزی سے کھانے کے برتن کی طرف بڑھا۔ اچانک اس کے پاؤں کو ایک جھٹکا لگا ۔ اس نے نیچے دیکھا تو اس کی رسی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی۔ بھورو نے رسی سے ٹانگیں چھڑانےکی بہت کوشش کی لیکن وہ اور تنگ ہوتی گئی ۔ اب بھورو برتن کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔رسی اس کی ٹانگوںمیں پوری طرح الجھ گئی تھی۔ وہ کھانا دیکھ رہا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکتا تھا۔

’’بھے ! بھے ے ے !‘‘ اس نے گھر والوں کو بلانے کی کوشش کی لیکن کوئی نہ آیا۔ شاید سب کہیں گئے ہوئے تھے۔

’’اب کیا کروں؟ اتنی بھوک لگی ہے اور میں برتن تک نہیں پہنچ پا رہا ۔‘‘ یہ سوچ کر بھورو کو بہت رونا آیا۔

وہ زور زور سے آوازیں نکالنے لگا۔

’’بھے بھے! بھے بھے! ‘‘

کئی گھنٹے گزر گئے۔ بھورو کو کمزوری ہونے لگی تھی۔ اب اسے حرکت کرنا بھی مشکل لگنے لگی تھی۔ اچانک گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔ پھر کچھ بچے دوڑ کر اس کی جانب آئے تو انہوں نے دیکھا۔ کھانا تو سب کا سب ویسے کا پڑا تھا۔

’’پیارے بکرے! تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟ کیا تم ناراض ہو؟‘‘ ایک بچے نے بھورو کو سر پرپیار کرتے ہوئے کہا۔

’’بھے  ے ے !‘‘ بھورو نے ایک کمزور سی آواز نکالی اور اپنی ٹانگ آگے کر کے دکھائی۔

’’اوہ ! اوہ! یہ رسی تمھاری ارد گرد لپٹ گئی ۔ اس لیے تم آگے نہیں جا سکے ! ‘‘ بچے نے افسوس سے کہا اور جلدی جلدی بھورو کی ٹانگوں سے رسی الگ کر دی۔

رسی سے آزاد ہو نے کی دیر تھی، بھورو بھاگ کر برتن کی طرف گیا اور اتنی تیزی سے کھانا کھانے لگا جتنی تیزی سے اس نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔

چارے اور پانی سے فارغ ہو کر بھورو نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ دیکھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح چارہ یہاں وہاں پھیلانا چاہا  لیکن پھر وہ رک گیا۔ اسے وہ وقت یاد آگیا جب وہ رسی میں الجھا ہوا تھا۔

پھر اس نے آہستہ سے اپنی ٹانگ پانی کے ٹب سے دور کر لی اور اپنے اگلے دونوں پاؤں سے چارے کے پتے سمیٹ کر برتن کے پاس رکھ دیے۔

بچو! اگلی صبح جب بھورو بچوں کے ساتھ سیر کو گیا تو اس نے شیبو انکل سے سوری کر لی جو ساتھ والے گھر کے گیٹ کے ساتھ بندھے ہوئے کھڑے تھے۔ اب اکثر شیبو انکل بھورو کو’’سمجھدار بھورو‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! کھانا ضائع نہیں کرتے۔ کھانا ہو یا پانی، سب اللہ پاک کا دیا ہوا رزق ہے۔ رزق قیمتی ہوتا ہے۔ اس کی قدر کریں۔ اس کو کبھی ضائع نہ ہونے دیں۔ ہاں  منڈی جاتے جاتے اگر آپ کی نظر کسی ایسے بکرے پر پڑے جو دونوں پاؤ ں سے چارہ سمیٹ کر برتن کے پاس رکھ رہا ہو تو جان لیں، وہ سمجھدار بھورو ہے!