پُن پُن پانڈے کی ذہانت

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے پانڈے کی جس کا نام پُن پُن تھا ۔ پُن پُن پانڈا اپنے امی ابو کے ساتھ سبز سبز بانسوں سے بنے ہوئے گھر میں رہتا تھا۔ ایک دن پُن پُن پانڈے کے دادا جان  ان کے گھر رہنے آئے۔وہ بہت بوڑھے تھے اور آہستہ آہستہ چلتے تھے۔

پُن پُن پانڈے نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے ان کا سامان والا تھیلا لے لیا۔ ابو نے داداجان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں گھر کے اندر لے آئے۔ گرمی بہت تھی ۔ پُن پُن پانڈے نے بانس سے بنا ہوا پنکھا لیا اور دادا جان کو جھلنا شروع کر دیا۔

’’ارے واہ! میرا پُن پُن تو بہت سمجھدار ہو گیا ہے۔ جاؤ ذرا میرا تھیلا تو لے کر آؤ۔‘‘


پُن پُن پانڈا بھاگ کر گیا اور دادا جان کو ان کا تھیلا لا کر دیا۔ دادا جان نے اس میں سے بانس سے بنی ہوئی ایک کھلونا جہاز نکالا۔

’’یہ لو ! تمھارے لیے میں نے خود بنایا ہے۔‘‘ دادا جان نے بتایا۔

’’آہا! زبردست! بہت شکریہ دادا جان! آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ پُن پُن پانڈے نے ان کے ہاتھ سے جہاز لے لیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔

’’شوں! شوں ں ں!‘‘ ابھی پُن پُن پانڈا جہاز سے کھیل رہا تھا کہ امی کی آواز آئی۔

’’ پُن پُن! دروازہ بند کر لو۔ میں ساتھ والی پانڈے آنٹی سے شکر لینے جارہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔ ‘‘

’’ جی اچھا! امی جان!‘‘ پُن پُن نے کہا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔

’’ابو کہاں ہیں۔ انہیں اپنا جہاز دکھاتا ہوں۔‘‘ پُن پُن پانڈے نے کمرے میں آتے ہوئے سوچا۔ پھر اچانک اسے یاد آیا وہ بھی گھر پر نہیں تھے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ، داد ا جان کے لیے ان کی پسندیدہ   سٹرابری اور لیچی کی تازہ شاخیں لانے بازار گئے تھے۔

پُن پُن پانڈا صحن میں کھیلنے لگا اور امی ابو کا انتظار کر نے لگا۔ اچانک اسے دادا جان کی آواز آئی۔

’’ پُن پُن! پانی لا دو۔‘‘

پُن پُن نے فریج کھولی اور بوتل سے ٹھنڈا پانی گلاس میں ڈال کر دادا جان کو لا دیا۔ پھر وہ دوبارہ صحن میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے دادا جان کے کھانسنے کی آواز آئی۔

’’اوہوں! اوہوں! اوہوں ں ں!‘‘

’’اوہ! اوہ!‘‘ پُن پُن پانڈا دوڑتا ہوا کمرے میں آیا تو دادا جان بری طرح کھانس رہے تھے۔ پُن پُن نے ان کی کمر تھپتھانے کی کوشش کی لیکن وہ گھبرا گیا تھا۔

اچانک اسے خیال آیا۔ ڈاکٹر بھالو کو فون کرتا ہوں۔دادا جان کی کھانسی بڑھتی جا رہی تھی۔

پُن پُن پانڈا نے ڈاکٹر بھالو کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کی۔

’’ صفر تین ایک۔۔۔ چار دو۔۔ آ۔۔۔ نہیں نہیں! دو آٹھ۔۔ او ہو! یہ تو میرے گھر کا نمبر ہے۔ اوہ! مجھے ڈاکٹر انکل کا نمبر یاد نہیں آرہا۔ ‘‘

پُن پُن پانڈے نے اپنے سر پر ہاتھ مارا ۔

’’ام م م! صفر تین ایک۔۔ آٹھ ایک صفر دو۔۔۔ ام م ! اس کے آگے کیا آتا ہے۔ کیا آتا ہے؟‘‘

’’اونہوں! اونہوں! اونہوں ں ں ں! اونہوں‘‘ دادا جان  کھانستے جارہے تھے۔ ان کی حالت خراب ہو گئی تھی۔

’’اب کیا کروں؟ کیا کروں؟ امی ابو کب آئیں گے؟ پتہ نہیں!‘‘ پُن پُن پانڈے نے پریشانی سے سوچا۔

’’ایسا کرتا ہوں۔ بھاگ کر جاتا ہوں اور ڈاکٹر انکل کو بلا کر لے آتا ہوں۔‘‘ یہ خیال آتے ہی اس نے تیزی سے  دروازہ کھولا تو سامنے ہی ابو جان کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ اور رسیلی شاخوں کا ایک بڑا سا تھیلا تھا۔

’’ابو وہ ! دادا جان!‘‘ پُن پُن پانڈے نے دادا جان کے کمرے کی طرف اشارہ کیا  اور بتانا چاہا لیکن گھبراہٹ میں اس کے منہ سے کوئی بات نہ سکی۔

’’کیا! کیا ہوا انہیں! ‘‘ ابو جان نے تھیلا ایک طرف رکھا اور جلدی سے دادا جا ن کے کمرے میں گئے۔ وہ ابھی تک کھانس رہے تھے۔ ابو جان نے جلدی جلدی ڈاکٹر انکل کا نمبر ملایا۔ تھوڑی ہی دیر میں بھالو ڈاکٹر آچکے تھے۔ انہوں نے ایک انجکشن اور کچھ دوائیں دیں۔ اب دادا جان کو کافی آرام آگیا تھا۔

’’صفر تین ایک! دو پانچ چار آٹھ دو تین سات!‘‘

’’صفر تین ایک! دو پانچ چار آٹھ دو تین سات!‘‘

’’ یہ کیا کر رہے ہو بیٹا!‘‘ ابو جان دادا جان کو دوا کھلا کر کمرے سے باہر آئے تو پُن پُن پانڈا امی جان سے پوچھ پوچھ کر ڈاکٹر انکل کا نمبر یاد کر رہا تھا۔

’’ابو جان! آج مجھے پتہ لگا ہے کہ ڈاکٹر کا نمبر یاد کرنا کتنا ضروری ہے۔ ابوجان! اگرمیں بھالو انکل کو جلدی بلالیتا تو دادا جان کی طبیعت زیادہ خراب نہ ہوتی۔ مجھے معاف کر دیں۔‘‘

’’چلو کوئی بات نہیں! ہاں ! دادا جان کو ٹھنڈاپانی نہیں دینا چاہیے تھا۔ بے شک گرمی کا موسم ہے لیکن بہت  ٹھنڈا پانی ان کے لیے نقصان دہ تھا۔ ‘‘

’’جی ابو جان! اس بات پر تو میں نے امی جان کی ۔۔۔ کافی ساری ڈانٹ کھائی ہے۔ ‘‘پُن پُن پانڈے نے آہستہ سی آواز میں  ابو کو بتایا تو وہ مسکرانے لگے۔

’’چلو آؤ! جب تک دادا جان سو کر اٹھتے ہیں ان کے لیے تازہ پتوں کا سوپ تیار کرتے ہیں۔‘‘

پُن پُن پانڈا جہاز اڑاتے ہوئے کچن میں چلا گیا۔

بچو!ہو سکتا ہے آپ کو کچھ دیر پُن پُن پانڈے کے جہاز کی شوں شوں ں ں والی آواز نہ آئے کیونکہ دادا جان سو رہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ کوبھی ڈاکٹر انکل کا نمبر یاد نہیں ہے تو جلدی سے یاد کر لیں۔ اللہ نہ کرے کبھی کوئی بیمار ہو جائے اور جلدی سے انہیں ہسپتال لے جانا پڑے تو آپ کو ڈاکٹر بلکہ ایمبولینس والے انکل کا نمبر بھی یاد ہونا چاہیے۔ ایمبولینس وہ گاڑی ہوتی ہے جو بیمار کو بہت تیزی کے ساتھ ہستپال پہنچا دیتی ہے۔

اور ہاں! اگرآپ کے  دادا جان  سو رہے ہوں  تو شور نہیں مچانا چاہیے۔ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھیں۔ ان کے ساتھ صبح کی دھوپ میں چہل قدمی کرنے جائیں۔ میری بات یاد رکھیے! بزرگ کے وجود سے  گھر میں برکت اور سکون  ہے ۔ بزرگ کی خدمت کریں اور ان کا خیال رکھیں  تو جنت اپنی ہے۔