ننھے ہدہد اور نیا گھر

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پیارے سے پرندے ہدہد کی جو کچھ دنوں سے اپنے بچوں کے لیے نیا گھر بنا رہا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا، زمین پر سے کچھ کیڑے چن چن کر کھاتا اور کچھ کیڑے مکوڑے اپنے بچوں کے پاس لے جاتا۔ اس کے دونوں بچے ساتھ والے جنگل میں ایک سوکھے ہوئے تنے میں رہ رہے تھے۔اس جنگل میں بہت دنوں سے بارش نہیں ہوئی تھی۔پتے اور پھول مرجھا گئے تھے اور سبھی  تالاب سوکھنے لگے تھے۔ ہدہد نے سوچا ۔ اب مجھے  دوسرے جنگل میں جا کر گھر بنانا چاہیے۔ یہ جنگل سرسبز اور آباد تھا۔ یہاں پانی بھی خوب سارا تھا اور درخت بھی مضبوط تھے۔ سو ہدہد نے ایک برگد کے  ہرے بھرے درخت کو چن لیا اور اس کے تنے میں نیا گھر بنانا شروع کر دیا۔

ہر روز ہدہد اپنے بچو ں کو ناشتہ کھلا کر  واپس  دوسرے جنگل چلاجاتا ۔ برگد کے درخت کے پاس پہنچ کر وہ نئے گھر کی شکل وصورت کو غور سے دیکھتا، پھر تنے پر مضبوطی سے اپنے قدم جماتا اور چونچ سے کھدائی شروع کر دیتا۔

ایک دن  ننھے ہدہد پوچھنے لگے۔


’’بابا! نیا گھر کب بنے گا؟‘‘

ہدہد نے جواب دیا۔ ’’بہت جلد ! بیٹا! تم دونوں اپنا خیال رکھنا۔ اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘

اتنا کہہ کر اس نے بچوں پیار کیا اور برگد کے درخت پر آگیا۔ آج اس نے اپنا کام ختم کرنا تھا۔ وہ سورج غروب ہونے تک اپنی چونچ سے تنے کے اندر کھدائی کرتا رہا۔

رات ہوئی تو ہدہد کا گھر بن چکا تھا۔ اس نے بچوں کے کمرے میں رنگ برنگا کپڑا بچھایا، کھڑکی کے اندر پھولوں والے گلدان رکھے  اور بستر پر پروں کے بنے ہوئے تکیے سجا دیے۔

پھر وہ اڑکر پرانے جنگل میں اپنے  بچوں کے پاس آیا اور انہیں آواز دی۔

’’ہانی ! دانی! چلو میرے ساتھ!  نیا گھر بالکل تیار ہے۔‘‘

ہانی دانی کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔ ہدہد پریشان  ہو گیا۔ وہ جلدی سے اڑکر تنے کے پاس پہنچا۔ ہانی اور دانی دونوں ایک طرف بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔

’’بیٹا! آجاؤ! نئے گھر چلیں۔ یہاں  مزید رہنا خطرناک ہے۔ ‘‘

’’نہیں ! بابا! اصل میں....ہمیں یہ ہی گھر اچھا لگنے لگا ہے۔ ہم یہاں سے جانا نہیں چاہتے۔‘‘ دونوں ہدہد نے سر ہلا کر بولے۔ ہدہد کو بہت غصہ آیا۔

’’کیسی باتیں کرتے ہو؟ یہاں تو پانی بہت کم رہ گیا ہے۔ ہم پانی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔جو پانی رہ گیا ہے وہ کچھ ہی دنوں میں بڑے جانور پی کر ختم کر دیں گے۔ ‘‘

’’نہیں! نہیں! بابا! پتہ ہے ہم روز زرافے انکل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ وہ تو بہت کم پانی پیتے ہیں۔‘‘ دانی نے کہا ۔

’’جی ہاں! میں نے کل ان کی گردن پر چڑھ کر دیکھا تھا۔ تالاب میں تو ابھی پانی تھا بابا! میرے خیال سے تو ہمارے لیے کافی ہو گا۔ ‘‘ ہانی بھی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

 ہدہد مسکرایا اور کہنے لگا۔

’’بیٹا! میں دیکھ سکتا ہوں یہاں کے تالاب اور نہریں  نیچے سے سوکھ چکے ہیں۔ بس یہ تھوڑا بہت پانی زمین کے اوپررہ گیا ہے جو بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ ہمیں اب ساتھ والے جنگل میں ہی رہنا ہو گا۔‘‘

’’لیکن ہم جانا نہیں چاہتے۔ یہاں ہمارے بہت سارے دوست ہیں ۔ ہم ان سے دور کیسے رہ سکتے ہیں۔‘‘ ننھے ہدہد اپنی ضد پر قائم تھے۔

ہدہد نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے۔

آخر وہ اکیلا واپس چلا گیا۔ وہ بہت اداس اور پریشان تھا۔

اگلے دن جب ننھے ہدہد زرافے میاں کے پاس کھیلنے کے لیے گئے تو انہوں نے دیکھا۔ زرافے میاں بہت مشکل سے گردن جھکا کر کھڑے تھے۔ وہ پانی پینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن تالاب میں پانی بہت کم رہ گیا تھا۔

’’انکل! کیا میں آپ کو پانی پینے میں مدد کروں؟‘‘ ہانی نے کہا۔

’’ہاہا! بھئی میں تو بہت سارا پانی پینا چاہتا ہوں۔ تمھاری چھوٹی سی چونچ میں تو ایک بس ایک قطرہ ہی آئے گا جو میرے لیے بالکل بھی کافی نہیں۔‘‘

’’انکل! آئیں ناں ! میرے ساتھ کھیلیں۔‘‘ دانی نے اچھل کر کہا۔

زرافے میاں نے کوئی جواب نہ دیا۔انہوں نے ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔  وہ بہت اداس لگ رہے تھے۔

ہانی اور دانی دونوں گھر چلے آئے۔رات ہوئی تو اچانک ہانی کو پیاس لگنے لگی۔ گرمی بھی آج خوب پڑی تھی۔سورج غروب ہو گیا تھا لیکن دھوپ کی تپش ابھی بھی باقی تھی۔

’’دانی! میرے ساتھ چلو! تالاب سے پانی پی کر آتے ہیں۔‘‘

جب وہ دونوں تالاب کے کنارے پہنچے تو وہاں پانی سارا کا سارا سوکھ گیا تھا۔

’’یہ کیا!‘‘

وہ دونوں گھر واپس آگئے ۔ پیاس سے ان کا برا حال تھا۔

اگلی صبح برگد کے درخت پر بنے نئے گھر میں ہدہد نےپینٹ کرتے کرتے کھڑکی سے باہر دیکھا۔دور سے دو ننھے ہدہد اڑتے چلے آرہے تھے۔ ہدہد نے اپنی عینک ٹھیک سے پہنی اور دوبارہ غور کیا تو ان کے بچے ہانی اور دانی ہی تھے۔ دونوں آتے ہی ان کے گلے سے لگ گئے۔

’’بابا! سوری۔ آپ ٹھیک کہتے تھے۔ تالاب کا پانی سوکھ گیا ہے۔ ہم وہاں نہیں رہ سکتے۔‘‘ دانی نے اپنے پر بابا کے پروں سے رگڑتے ہوئے کہا۔

’’جی بابا! ہمیں معاف کر دیں۔ ہمیں پتہ لگ گیا ہے۔ جو آپ کہتے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے لیے ٹھیک اور بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘

بابا ہدہد نے دونوں کو خوب پیار کیا اور ان کو ان کے کمرے دکھانے لگے۔  

بچو! جب کبھی آپ برگد کے درخت میں دو گول گول سے سوراخ دیکھیں تو سمجھ جائیں یہ ہدہد کا گھر ہے۔جبکہ  شاخوں  کے نیچے کھڑے زرافے میاں جو پتوں کو خوب چپا چپا کر کھارہے ہیں یہ مانی اور دانی کے دوست ہیں اور اب انہی کے ساتھ رہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو!  آپ کے بابا آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ کے لیے محنت و مشقت کرتے ہیں تا کہ آپ خوب آرام و سکون سے رہیں اور اچھا اچھا پڑھ سکیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان کی ہر بات بہت غور سے سنیں اور اس پر ہمیشہ عمل کریں۔ ہاں!کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ بابا کی بات غلط اور ہماری بات صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ بابا ہمارے بڑے اورہمارے خیر خواہ ہیں ۔  ان کی بات ماننے سے  ہمیں ہمیشہ فائد ہ ہوگا۔ بابا کبھی آپ کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ میرا یقین ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہیں اور اپنے بابا کے پاس جا رہے ہیں۔ برائے مہربانی میری یہ کہانی ان کو ضرور پڑھوائیں!