گوگو گلہری اور دادی جان

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھی منی سی گلہری  گوگو کی جواپنے اخروٹ کسی کو نہیں دینا چاہتی تھی۔ اسے مل کر کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ہوا یوں کہ گوگو کی دادی جان نے اتوار کے دن سب گلہریوں کی دعوت رکھی۔ دن کا وقت تھا ۔ سورج خوب چمک رہا تھا۔ رات کی بارش کی وجہ سے پتے اور پودے صاف ستھرے لگ رہے تھے۔ دادی جان نے آم کے درخت کو صبح صبح ہی سجا دیا تھا۔

پہلے تو انہوں نےتنے کے اندر بنے ہوئے کھلے سے سوراخ میں سب گلہریوں کے بیٹھنے کی جگہ بنائی ۔ لکڑی کی کرسیاں اور میز انہوں نے بندر میاں کی دکان سے کچھ مہینے پہلے ہی خریدی تھیں۔ پردے ٹھیک سے لگا کر اور میز پر سبز کپڑا بچھا کر انہوں نے سارے کمرے کو ایک نظر دیکھا۔ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اب اخروٹ کا حلوہ بنانے کی باری تھی۔ گوگو کی دادی جان کے ہاتھ کا بنا ہوا مزیدار حلوہ پورے جنگل میں مشہور تھا۔

بارہ بجتے ہی پاس پڑوس کی سب گلہریاں اکٹھی ہونے لگیں۔ سبھی کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ اخروٹ  اور بادام تھے جو وہ سب مل کر کھانے کے لیے لائی تھیں۔ گوگو کے پاس بھی خوبانیوں کا ایک بڑا سا تھیلا تھا۔ حلوہ کھانے کے بعد سبھی نے اپنے اپنے تھیلے کھولے اور ایک بڑے سے تھال میں سارے اخروٹ اور بادام الٹ دیے۔ پھر سب  گلہریاں مل کر کھانے لگیں لیکن دادی جان نے دیکھا۔ 


گوگو ایک کونے میں بیٹھی ہوئی چپکے چپکے کچھ کھارہی تھی۔ اس نے اپنا تھیلا بھی ایک طرف چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

’’گوگو! یہاں آؤ بیٹا! سب کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ۔‘‘ انہوں نے گوگو کو آواز دی۔

’’آں ہاں! آؤ آؤ بھئی ! دیکھیں تو سہی تمھارے پاس کیا ہے !‘‘ آڑو کے درخت والی گلہری نے بھی کہا۔   

لیکن گوگو نہ آئی۔ بلکہ وہ اور اپنا تھیلا اٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ درخت سے نیچے آکر وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ گئی اور خوب مزے سے خوبانیاں کھانے لگی۔

’’ہونہہ! میں کیوں شئیر کروں اپنی خوبانیاں! اتنی مشکل سے اکٹھی کی ہیں میں نے۔ کل کا سارا دن لگا کر۔ اب کیا سب میں بانٹ دوں؟ نہیں نہیں! یہ بس میری ہیں۔‘‘

یہ سوچتے ہوئے گوگو نے تقریباً ساری خوبانیاں کھا لیں۔ جب وہ کافی دیر بعد اپنے گھر واپس  آئی  تو سب گلہریاں جا چکی تھیں ۔ دادی جان بھی تھک کر سو گئی تھیں۔

گوگو بھی اپنے بستر پر لیٹ گئی لیکن اس کو پیٹ میں درد سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور سو گئی۔ شام کو اس کی آنکھ شدید درد سے کھل گئی۔

’’دادی جان! دادی جان!‘‘ اس نے دادی جان کو آواز دی تو وہ دوڑی چلی آئیں۔

’’کیا ہوا میری بیٹی کو!‘‘ انہوں نے پیار سے پوچھا تو گوگو کے آنسو نکل آئے۔

’’دادی جان ! میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘ گوگو کے دونوں ہاتھ پیٹ پر تھے۔

دادی جان نے فوراً اسے اٹھایا اور ڈاکٹر زیبرے کے پاس لے گئیں۔

’’بیٹا ! آپ نے دوپہر کو کیا کھایا تھا؟‘‘ زیبرے نے پوچھا۔

’’وہ ۔۔ خوبانیاں۔۔ کھائی تھیں۔‘‘ گوگو نے آہستہ سی آواز میں کہا۔

’’ہمم! خوبانیاں کھانے سے تو پیٹ خراب نہیں ہوتا۔ لگتا ہے گوگو بیٹی نے بہت ساری ایک ہی وقت میں کھا لی ہیں۔‘‘

گوگو نے سر اٹھا کر دادی جان اور پھر ڈاکٹر زیبرے کو  دیکھا اور ’’جی انکل‘‘ کہہ کر سر جھکا لیا۔

’’اچھا! چلو میں یہ دوا لکھ دیتا ہوں۔ یہ آپ نے صبح دوپہر شام تین وقت پابندی سے لینی ہیں۔ ‘‘ پھر ڈاکٹر زیبرے نے دادی جان سے کہا۔

’’انہیں نرم غذا کھلائیں۔اخروٹ وغیرہ سے مکمل پرہیز رکھیں۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے دوا کا نسخہ دادی جانے کے ہاتھ میں تھما دیا۔

گھر آکر گوگو چپ چپ سی رہی۔ دادی جان نے اسے دوا کھلائی،  بستر میں لٹایا، پردے برابر کیے اور رات کا کھانا بنانے کچن میں چلی گئیں۔

جب وہ گوگو کے لیے دلیہ  بنا کر لائیں تو گوگو کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ دادی جان نے تھوڑا سا پردہ ہٹایا  تو چاند کی چاندنی کھڑکی سے اندر آنے لگی۔

’’میری پیاری بیٹی گوگو! ‘‘ دادی جان نے کہا۔

’’کیا آپ کو پتہ ہے کہ چاند اتنا روشن کیسے ہے؟‘‘

گوگو نے منہ کھول کر دلیہ کی چمچ لی اور  ناں میں سر ہلایا۔

’’وہ اس لیے کہ سورج اپنی روشنی چاند کے ساتھ بانٹ لیتا ہے۔پھرچاند ساری رات روشن رہتا ہے اور چاندنی پھیلاتا  ہے۔ سمندر اپنا پانی بادلوں کے ساتھ بانٹتے رہتے ہیں اور یوں بارش ہو جاتی ہے۔پھول کبھی نہیں کہتے ہم اتنی مشکل سے کھِلے ہیں۔ ہم کسی اور کو اپنی خوشبو کیوں سونگھنے دیں۔ نہیں! وہ ایسا نہیں کہتے۔ بلکہ وہ اپنی خوشبو ہم سب کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔اور  اگر پتے سارا کھانا خود کھا لیتے ہوتے تو ہمیں کبھی مزیدار اخروٹ کھانے کو ملتے۔ نہیں! پتے اپنا آدھا کھانا پھلوں کے ساتھ بانٹتے  ہیں۔تبھی تو پھلوں میں ذائقہ آتا ہے۔‘‘

’’کیا واقعی!‘‘ گوگو یہ سب کر بہت حیران ہوئی۔

’’جی بالکل پیاری گوگو! ہمیں بھی مل بانٹ کر کھانا چاہیے۔ اگر ہم اکیلے اکیلے کھانے لگ جائیں تو ہم  سب اداس اور بیمارہو جائیں گے ۔‘‘

’’ٹھیک ہے دادی جان!‘‘ گوگو نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔

’’ میں نے خوبانیوں کے بیج بچا کر رکھے ہوئے ہیں۔ کل وہ میں اپنی ساری سہیلیوں میں بانٹوں گی۔ ‘‘

’’میری پیاری بیٹی!‘‘ دادی جان نے گوگو کو دلیہ کی آخری چمچ کھلائی ، اسے پیار کیا اور کمرے سے نکل گئیں۔ گوگو نے ایک نظر چاند کو دیکھا۔ کھڑکی کا شیشہ ابھی چاندنی سے چمک رہا تھا۔

’’اپنی چاندنی میرے ساتھ شئیر کرنے کا شکریہ!‘‘ گوگو نے کہا اور کروٹ بدل کر سو گئی۔ اسے پتہ نہیں لگ سکا چاند نے جواب میں اسے ہاتھ بھی ہلایا تھا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! مل کر کھانا بہت اچھی بات ہے۔ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مل کر کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز ہر جانور ہر درخت اور پودا اسی اصول پر چلتا ہے۔  اگر آپ کے پاس بھی کوئی مزیدار چیز ہے تو آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر کھائیں ۔

 تو کیا آپ وہ والے بسکٹ اپنی  بہنا کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں جو آپ نے کل سے اپنے بیگ میں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں!