ننھے سارس نےاڑنا کیسے سیکھا

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سارس کی جو ایک سبز جھیل کے کنارے بنے ہوئے پیارے سے گھر میں رہتا تھا۔ ننھے سارس کا گھر ایک بڑے سے ٹیلے کے اندر تھا۔ اس کے امی ابو آج کل ان سب بہن بھائیوں کو اڑنا سکھا رہے تھے۔ اس دن بھی جب سب بہن بھائی اڑ گئے تو امی سارس ، ننھے سارس کے پاس آئیں۔ وہ اپنے گھر کے سامنے اگی ہوئی گھاس پر اداس بیٹھا تھا۔ اسے اڑنے سے بہت ڈر لگتا تھا۔

’’پیارے بیٹے! اب تم بھی اڑنے کی تیاری کرو۔ دیکھو! گردن کو آگے کی جانب سیدھا کرو۔ ٹانگوں کو پیٹ کے ساتھ لگاؤ اور دونوں پر پھیلادو۔‘‘

ننھے سارس نے چھوٹی سی گردن آگے کو نکالی تو امی اس کے پاس آئیں اور اس کی گردن کو کھینچ کر اور باہر نکالا۔ ننھے سارس کو بہت درد ہوا لیکن امی کا کہنا تھا۔ایک اچھے سارس کو اڑنے کے لیے گردن کو پوری طرح سیدھا کرنا بہت ضروری ہے۔

پھر امی جان نے اس کے پر کھولے تو ننھا سارس تنگ آکر پیچھے ہٹ گیا۔


’’نہیں! امی جان! میں نہیں اڑوں گا۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ بس میں سونے کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘

اس نے کہا اور اچھل اچھل کر چلتا ہوا گھر  کے اندر چلا گیا۔

اگلے دن جب امی ابو اور سب بہن بھائی  اڑکر چلے گئے تو ننھا سارس اکیلا بیٹھا رہا۔ اچانک اسے ایک آواز آئی۔

’’بھائی جان! یہ ذرا اپنا پاؤں تو ہٹا ئیں ۔ آپ نے ہمارے راستہ روک رکھا ہے۔ ‘‘

ننھے سارس نے ادھر ادھر دیکھا ۔ اسے کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے غور کیا۔ یہ آواز ایک چیونٹی کی تھی جو اس کے پاؤں کے پاس کھڑی تھی۔ وہ چھوٹی سی چیونٹی تھی اور اس نے مچھلی کا کانٹا اپنی گردن پر اٹھا رکھا تھا۔

’’اوہ! سوری! آپ گزر جائیں۔ ‘‘ ننھے سارس نے اپنی لمبی ٹانگیں سمیٹ  کر کہا۔ چیونٹی آہستہ آہستہ اپنے گھر جارہی تھی۔ باربار مچھلی کا کانٹا اس کی گردن پر سے پھسل کر نیچے گر جاتا لیکن وہ رک کر اسے اٹھاتی اور پھر چل پڑتی۔ کانٹا بہت بھاری تھا اور چیونٹی بہت مشکل سے چل رہی تھی۔

’’یہ چیونٹی کتنی بہادر ہے۔ کتنی حوصلہ مند! اور ایک میں ہوں۔ اتنا بڑا ہو گیا ہوں اور ابھی تک اپنا کھانا خود نہیں لا سکتا ۔ میں کیا کروں۔ اف! اڑنا کتنا مشکل ہے ۔‘‘

ننھا سارس اداسی سے سوچتا رہا۔

’’لیکن میں تھوڑی سی کوشش تو کر سکتا ہوں۔ ‘‘ اچانک اسے ایک خیال آیا۔ یہ سوچ کر وہ ٹیلے پربنے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور نیچے کی جانب دیکھا۔پھر اس نے ساری ہمت جمع کی، گردن پوری طرح سیدھی کر لی اور دونوں پر پھیلا دیے۔ اب بس ٹانگوں کو سمیٹ کر پروں کو حرکت دینا تھی۔ پہلے تو ننھے سارس کا دل ڈر سے کانپتا رہا پھر اس نے سوچا۔

’’کوئی بات نہیں! گروں گا تو یہ نیچے ہی ۔ تھوڑی سی تو اونچائی ہے۔ اس میں بھلا ایسی کیا بات ہے۔‘‘

پھر اس نے اپنے دونوں پربار بار  اوپر نیچے کیے ۔ اچانک اسےمحسوس ہوا ۔ وہ تھوڑا اوپر اٹھ گیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس کی ٹانگیں پیٹ کے ساتھ جا لگیں۔

’’ارے واہ! کیا میں واقعی اڑرہا ہوں۔‘‘ ننھا سارساب اور اوپر اٹھ گیا تھا۔ وہ پروں کو بار بار حرکت دینے لگا۔ یوں وہ پہلی بار ہوا میں اڑ رہا تھا۔ لیکن وہ جوش میں آکر گردن سیدھی رکھنا بھول گیا۔ یوں کچھ ہی لمحوں میں وہ گھاس پر آگرا۔

’’ہاہ۔۔ ہپ! ہپ!‘‘ ننھے سارس کو اگرچہ تھوڑی سی چوٹ بھی آئی تھی لیکن وہ بہت خوش تھا۔ اس دن اس نے کئی بار ٹیلے پر چڑھ کر اڑنے کی کوشش کی۔

تھوڑی دیر بعد سارس امی  واپس آئیں تو ان کی چونچ میں تازہ مچھلی دبی ہوئی تھی۔ ننھے سارس نے خاموشی سے مچھلی کھالی اورامی کو کچھ نہ بتایا۔ وہ انہیں اچانک حیران کر دینا چاہتا تھا۔

اگلے دن جب سارس امی جانے لگیں تو انہوں نے ننھے سارس سے کہا۔

’’پیارے بیٹے! آپ کو اڑنا سیکھ لینا چاہیے۔ کچھ دنوں بعد ہم سائبیرا ہجرت کر جائیں گے۔ اگر آپ اڑنا نہیں جانتے تو آپ یہیں رہ جائیں گے بیٹا!‘‘

یہ سن کر ننھا سارس اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنے پروں سے گرد اتاری اور کہنے لگا۔

’’امی جان! یہ دیکھیں! میں اڑ سکتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پوری طرح باہر نکالی  ، اچھل کر ٹانگیں پیٹ کے ساتھ لگائیں اور دونوں پروں کو حرکت دینے لگا۔ سارس امی گھر کی صفائی بھول کر اسے حیرت اور خوشی سے دیکھتی رہیں۔ جب وہ گھاس پر گرا تو وہ تیزی کے ساتھ اڑتی ہوئی آئیں اور اسے اپنے سینے سے لگا کر کہنے لگیں۔

’’میرا پیارا بیٹا! شاباش! ‘‘

پھر سارس امی اسے گھر کے اندر لائیں اور کہنے لگیں۔

’’بس آپ نے اب ایک بات کا دھیان رکھنا ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی اڑنا شروع کریں، اپنے دل سے گرنے کا ڈرنکال دیں۔ آپ نیچے کی جانب دیکھتے رہتے ہیں اور آخر گر جاتے ہیں۔ نہیں! جب آپ اڑ رہے ہیں تو آپ نے اپنے سامنے دیکھنا ہے۔اس طرح کرنے سے آپ ہمیشہ اوپر اڑتے رہیں گے  اور کبھی نیچے نہیں گریں گے۔ ‘‘

ننھے سارس نے امی کی یہ بات دل میں بٹھا لی۔ اس دن وہ کئی بار امی کے ساتھ اڑا ا۔ ایک بار تو وہ اتنا اونچا اڑا کہ اسے سمندر پر اپنے بہن بھائی کھیلتے نظر آنے لگے۔

کئی دنوں کی کی کوشش کے بعد ننھے سارس کی اڑان بہت بہتر ہو گئی تھی۔ آج اس نے امی کا لایا ہوا ناشتہ ایک طرف رکھ دیا اور کہنے لگا۔

’’امی جان! میں بھی سمندر پر جانا چاہتا ہوں۔میں اپنے لیے اور آپ کے لیے خود اپنی چونچ سے مچھلی پکڑ کر لاؤں گا۔‘‘

سارس امی  مسکرانے لگیں ۔ ان کی  اتنے دنوں کی پریشانی ختم ہو گئی تھی۔

بچو! جس دن ننھا سارس اپنے امی ابو  کے لیے مچھلی پکڑ کر لایا ، وہ دن بہت خوبصورت تھا۔ ننھے سارس نے آخر کار اڑنا سیکھ لیا تھا۔ نیلا آسمان، سفید بادل اور ٹھنڈی ہوا کی ننھے سارس کے ساتھ دوستی ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! کیا آپ میرا یقین کریں گے کہ زندگی میں کوئی کام بھی مشکل نہیں ہوتا۔ہمیں بس کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ہمت جمع کرنی ہوتی ہے ۔ دل میں مضبوطی سے سوچیں اور کوشش شروع کر دیں۔ اللہ پاک کی مدد آجاتی ہے۔ بس! گرنے کا ڈر ، ہارنے کا ڈر ذہن سے نکال دیں۔ اللہ پر یقین رکھتے رہیں۔ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔