جمی اور ٹمی

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے جمی چوہے کی جو اپنے کزن ٹمی سے ملنے جارہا تھا۔ جب سے جنگل سے کورونا بیماری دور ہوئی تھی، سبھی جانور بہت خوش تھے۔ ہاتھی، بھالو اور بندر اپنے رشتہ داروں سے ملنے ساتھ والے جنگل جارہے تھے۔ چڑیوں اور میناؤں نے اپنی سب سہیلیوں کی زبردست سی دعوت کر رکھی تھی ۔ ایسے میں جمی چوہے نے سوچا میں بھی ٹمی سے مل کر آتا ہوں۔

ٹمی جنگل کے آخر میں اگے ہوئے آڑو کے درخت کے اندر رہتا تھا۔ جمی کافی دیر چلتا رہا آخر کار آڑو کا درخت آہی گیا۔جمی نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے زمین پر رکھ دیے اورچھوٹے سے گول دروازے پر دستک دی۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

کچھ دیر گزر گئی لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔

جمی نے دوبارہ دستک دی۔

’’ٹھک ٹھک! ٹھک ٹھک!‘‘

اب اس نے خوب زور سے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔

تھوڑی دیر بعد دروازہ کھل گیا۔ جمی نے دیکھا۔ ٹمی دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مل رہا تھا ۔ لگتا تھا وہ خوب گہری نیند سے اٹھا ہے۔

’’السلام علیکم ٹمی! کیا اندر آنے کا نہیں کہو گے؟‘‘ جمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’اوہ! اوہ! تم ! جمی! میرے پیارے کزن اور میرے سب سے اچھے دوست! آؤ آؤ۔ معاف کرنا میں ذرا سو رہا تھا اس لیے دروازہ کھلنے میں دیر ہو گئی۔ ‘‘

جمی نے اندر آتے ہوئے دیوار پر لگے گھڑیال کو دیکھا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے۔

’’بھلا یہ کون سا سونے کا ٹائم ہے ٹمی! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟‘‘ جمی نے حیرت سے پوچھا۔

’’آں ہاں! میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ وہ بس! رات کو سوتے سوتے دیر ہو گئی۔‘‘ ٹمی نے ایک بڑی سی جمائی لیتے ہوئے کہا۔


جمی نے سر ہلا دیا۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا یہ تو ٹمی کا روز کا معمول تھا۔ وہ ہر رات دیر تک کھیلتا رہتا کبھی کہانیوں کی کتابیں پڑھتا اور کبھی گھاس ہر جگنوؤں پکڑتا ۔ پھر سورج نکلتے ہی سو جاتا۔

’’ٹمی!تم بہت سست ہو گئے ہو۔ ۔۔ اور موٹے بھی!‘‘ جمی نے ہاتھی میاں کی سونڈ سے کھیلتے ہوئے کہا۔ یہ شام کا وقت تھا۔ ٹمی اور جمی دونوں ہاتھی میاں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وہ اپنی سونڈ پر انہیں اٹھا کر اپنی کمر پر بٹھا لیتے۔ وہاں سے پھسل کر ان دونوں نے نیچے آنا ہوتا تھا۔

’’جی نہیں! یہ دیکھو! میں کتنی تیزی کے ساتھ نیچے آتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ٹمی نے تیزی کے ساتھ پھسلنے کی کوشش کی۔ لیکن ا س کو اپنی ٹانگوں میں درد اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بہت اونچائی سے گھاس پر آگرا۔ اسے بہت چوٹ آئی۔

’’ارے ارے میاںٍ! اس عمر میں آپ کمزور پڑ گئے۔ ابھی تو آپ کے اچھلنے کودنے کے دن ہیں۔ ‘‘ ہاتھی میاں نے پیار سے کہا اور اپنی سونڈ سے ٹمی کو اٹھا کر کھڑا کر دیا۔

’’لو بھئی! سورج غروب ہونے کو ہے ۔ میں چلا اپنے گھر۔ تم بھی جا کر آرام کرو۔‘‘

یہ کہہ کر ہاتھی میاں دم ہلاتے ہوئے آہستہ آہستہ وہاں سے چلے گئے۔

’’مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔ پہلے تو میں کبھی ایسا نہیں تھا۔ ‘‘ ٹمی نے اپنی شرٹ کے بازو کھینچ کر نیچے کرتے ہوئے کہا جو تنگ ہونے کی وجہ سے بار بار اوپر چڑھ جاتے تھے۔

’’مجھے ہر وقت بھوک لگی رہتی ہے۔ اور نیند بھی آئی رہتی ہے۔ ‘‘ ٹمی اداسی سے کہہ رہا تھا۔

’’پیارے ٹمی!تم نے اپنی روٹین خراب کرلی ہے۔ اگر تم ہر روز رات کو جلدی سویا کرو اور صبح جلدی اٹھو تو تمھاری ساری سستی دور بھاگ جائے گی۔"

"اچھا! واقعی!"

"ہاں ٹمی! تمھاری ہر وقت کی بھوک بھی ختم ہو جائے گی۔ میرا یقین کرو۔ چلو آو اب سوتے ہیں۔ رات ہو گئی ہے۔"

یہ کہہ کر جمی اپنے بستر کی طرف بڑھ گیا۔ ٹمی بھی رات کا لباس پہننے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

پیارے بچو! جب کورونا وائرس ختم ہو جائے گا تو یقینا آپ سیر کرنے نہر کنارے بھی جائیں گے۔ اگر آپ کو جنگل کے بالکل شروع میں اگے ہوئے آڑو کے درخت کا نظر آئے تو آپ وہاں ضرور جائیں اور چھوٹے سے دروازے پر دستک دیں۔

اس بار ٹمی فورا دروازہ کھول دے گا کیونکہ وہ اب رات دیر نہیں جاگتا اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی اٹھ جاتا ہے۔

آپ ٹمی کے ساتھ ناشتہ بے شک نہ کیجیے گا لیکن اس کے ساتھ ایک دوڑ ضرور لگائیں۔ وہ بہت ایکٹو ہو گیا ہے اور اس کو دوڑ لگانے کا بہت شوق ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بچو! اللہ پاک نے ہمارے جسم کو سورج کے حساب سے بنایا ہے۔ جب ہم سورج کے ساتھ اٹھ جاتے ہیں اور سورج غروب ہوتے ہی آرام کرنے چلے جاتے ہیں تو ہمارا جسم ٹھیک ٹھیک کام کرتا رہتا ہے۔ ہم چست صحت مند اور خوش باش رہتے ہیں۔

اگر ہم سورج غروب ہونے کے بعد بہت دیر تک جاگتے رہیں تو ہمارا جسم اور دماغ تھک جائے گا اور اگلا سارا دن ہم نیند اور سستی محسوس کرتے رہیں گے۔

بس اب رات ہو چلی! دائیں کروٹ لیٹیں آنکھیں بند کریں اور جلدی سے سو جائیں۔ شب بخیر!