مانی شانی کا باغ


جب سے سکول بند ہوئے ، مانی اور شانی  کا بوریت سے برا حال تھا۔
’’دادا ابو! ہم کیا کریں۔ ہوم ورک بھی کوئی نہیں ملا اور گھر کے اندر ہی رہ ر ہ کر ہم تھک گئے ہیں۔‘‘
مانی نے دادا ابو سے پوچھا جو آرام کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ آج کل مانی شانی کے پر زور اصرار پر ان کے گھر رہنے آئے ہوئے تھے۔
مانی اور شانی روز ان کے ساتھ لڈو کھیلتے کوئی مزیدار سی کہانی سنتے۔ اس کے باجودوہ کچھ ہی دنوں بعد پھر سے بوریت محسوس کرنے لگے تھے۔
’’ہمم! تو یہ بات ہے۔ لاؤ بھئی اپنی کتابیں۔ میں تمھیں حساب سمجھاتا ہوں اور پھر بیس بیس سوال تم دونوں نے حل کرنے ہیں۔‘‘ دادا ابو چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے بولے۔
’’نہیں نہیں دادا جان!‘‘ بیس سوال حل کرنے کا سوچ کر دونوں کی جان ہی نکل گئی۔
’’اصل میں ہمارا یہ مطلب یہ نہیں تھا ۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ ۔۔۔۔‘‘ مانی کہتے کہتے رک گیا۔


’’ہم چاہتے ہیں کہ ہم پودے لگائیں۔‘‘  شانی نے جلدی سے مانی کی بات مکمل کر دی۔
’’آں ہاں!کیا زبردست خیال ہے بھئی!‘‘ دادا نے اخبار لپیٹ  کر میز پر رکھ دی اور کہنے لگے۔
’’اس کے لیے کھرپی اور بیج میں آج ہی لے آتا ہوں۔ تم دونوں مل کر پچھلا صحن اور کیاری صاف کر کے رکھو۔اور ہاں! اگر ہمارا یہ پچھلا صحن صاف ستھرا ہو جائے تو ہم یہاں بیڈمنٹن اور کرکٹ بھی آسانی سے کھیل سکتے ہیں۔‘‘
’’یاہو!! ‘‘ دونوں نے نعرہ لگایا اور اچھلتے کودتے باہر چلے گئے۔ مٹھو بھی ان کے سروں پراڑتا ہوا جا رہا تھا۔ دادا ابو نے مٹھو کو ایک نظر دیکھا اور ان کے ذہن میں ایک خیال آیا لیکن وہ خاموش رہے۔
تھوڑی دیر بعد امی کو زور زور سے جھاڑو لگانے اور باتیں کرنے کی آوازیں آئیں تو انہوں نے بارچی خانے کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔
مانی جھاڑو لگا رہا تھا جبکہ شانی کیاری میں سے گلے سڑے پتے اور کنکر چن رہا تھا۔ امی جان دل ہی دل میں کہنے لگیں۔
’’اچھا ہے! کام والی بھی دو ماہ سے نہیں آئی اور نہ ہی مالی نے چکر لگایا۔ صحن کی صفائی ستھرائی ہو جائے گی اور بچے بھی مصروف رہیں گے۔یا اللہ تیرا شکر!‘‘
’’دیکھ لو! سب سے مشکل کام میں کر رہا ہوں۔ اس کیچڑ  میں سے اتناکچرا چننا آسان بات ہے ۔‘‘ مانی نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا تو شانی کہاں پیچھے رہ سکتا تھا۔مٹھو بھی ان دونوں  کا ساتھ دے رہا تھا۔ کبھی وہ چونچ میں کنکر اٹھا کر کچرے والی بالٹی میں ڈال آتا کبھی پروں سے فرش کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کرتا۔
’’جی نہیں! اتنا لمبے چوڑے صحن میں سے جھاڑو لگانا ہی سب سے مشکل کام ہے جو میں کر رہا ہوں۔ تم تو بس یہ پتے اور جھاڑ پھونس اٹھا رہے ہو جو کہ۔۔‘‘ ابھی شانی کی بات جاری تھی کہ دادا ابو آگئے۔
ان کے ہاتھ میں کئی قسم کی پنیریاں، دو چھوٹی کھرپیاں اور بیلچہ تھا۔ انہوں نے سارا سامان ایک طرف رکھتے ہوئے لمبی سانسیں لیں، پھر ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھ کر کہنے لگے۔
’’بھئی ! روزے کی حالت میں اتنا چل کر گیا ہوں ۔اوپر سے گرمی کی شدت ۔ بہت تھک گیا ہوں بچو! کل سے کام شروع کریں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں! دادا ابو۔ پلیز ابھی کرتے ہیں ناں۔‘‘ مانی شانی ان کا ہاتھ پکڑ کا اٹھانے لگے تو امی کی آواز آئی۔
’’مانی! شانی! کیوں تنگ کر رہے ہو دادا کو۔یہاں آؤ۔ اور ضد نہیں کرو۔ ان کا روزہ ہے۔ ‘‘
مٹھو ابھی تک پنیریوں کے ہی اردگرد گھوم رہا تھا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ ان پر لگے تازہ تازہ پھول پتے ایک دوتو چکھ ہی لیے جائیں۔
مانی شانی  کچن میں گئے تو امی آٹا گوندھ رہی تھیں۔ مانی کہنے لگا۔
’’امی روز ہ تو ہمارا بھی ہے۔لیکن ہم تو ابھی بھی فریش ہیں۔‘‘
’’میرے بیٹے! آپ کے اندر زیادہ توانائی ہے۔‘‘ امی نے گندھا ہوا آٹا برتن میں ڈالا اور بولیں۔
’’ اس لیے ماشاء اللہ! آپ جلدی تھکتے نہیں ہیں اور روزے میں بھی بہت سارا کام کر سکتے ہیں۔ جبکہ دادا ابو کمزور ہو گئے ہیں۔ انہیں  روزے کے دوران آرام کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی کھرپیاں تو آہی گئی ہیں۔ آپ عصر کی نماز پڑھ کر پودوں کے اردگرد گوڈی خود بھی کر سکتے ہو۔‘‘
’’گوڈی! وہ کیا ہوتی ہے  امی ! وہ کیسے کر تے ہیں؟‘‘ مانی شانی نے ایک آواز ہو کر پوچھا تو امی مسکرانے لگیں۔
’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ یہ کہہ کر امی نے ہاتھ دھوئے اور کچن سے باہر نکل گئیں۔
کیاری کے پاس پہنچ کر انہوں نے گلاب کے پودے کے پاس سے آہستہ آہستہ مٹی ہٹانا شروع کی۔پھر اچھی طرح مٹی کو نرم کرنے کے بعد دوبارہ برابر کر دی۔پھر انہوں نے پھوار والے جگ کے ساتھ پودے کو پانی دیا۔
’’بس! اب آپ نے ہر پودے کے ساتھ ایسے ہی کرنا ہے۔ گوڈی کرنے سے پودے کی جڑوں کو اچھی طرح پانی پہنچتا ہے ، مٹی نرم رہتی ہے تو پودا خوب پھلتا پھولتا ہے۔ اگر پودے کی اردگرد کی زمین سخت ہو جائے تو اس کی جڑیں پھیل نہیں سکیں گی اور پودا بیمار ہو جائے گا۔ ‘‘
’’نہیں امی جان! ہم ان پودوں کو بیمار نہیں ہونے دیں گے۔ آؤ شانی! کام شروع کرتے ہیں ۔‘‘ مانی نے کھرپی اٹھاتے ہوئے کہا تو شانی بھی جوش سے کھرپی ہوا میں لہرا کر کہنے لگا۔
’’ بالکل! اور دادا ابو کو حیران کر دیں گے ہم! وہ کتنا خوش ہو ں گے جب وہ سب پودوں کی گوڈی مکمل دیکھیں گے۔‘‘
افطاری تک مانی شانی نے تمام پودوں کی گوڈی مکمل کر لی۔ مٹھو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ کبھی ایک پودے پر بیٹھتا کبھی دوسرے پر۔  پھر انہوں نے تمام پودوں کو پانی دیا اور ہاتھ منہ دھو کر دسترخوان پر آ گئے۔دادا ابو ، امی اور ابو جان سب دعا مانگ رہے تھے۔ مانی شانی نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگے۔مٹھو بھی مانی کے کندھے پر خاموش بیٹھا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس کی نظریں پکوڑوں کی ٹرے پر جمی تھیں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح سحری کے بعد مانی شانی دوبارہ  سو گئے۔ انہیں  بہت نیند آرہی تھی۔ مٹھو بھی  شانی کے تکیے پر ایک طرف بیٹھا اونگھ رہا تھا جب دادا ابو مسجد سے آکر ان کے کمرے میں دبے پاؤں آئے اور ان کوسوتا دیکھ کرواپس چلے گئے۔
کیاری کے پاس پہنچ پر انہو ں نے پودوں پر نظر دوڑائی تو ان کا دل خوشی سے بھر گیا۔ مانی شانی نے کل خوب محنت سے گوڈی کی تھی۔صحن بھی صاف ستھرا اور فرش چمک  رہا تھا۔  اب دادا ابو کا ارادہ مانی شانی کو انعام دینے کا تھا جس کا انہوں سے کل ہی سوچ لیا تھا۔
کچھ دیر وہ صحن کے ساتھ بنے سٹور میں کھٹ پٹ کرتے رہے پھر باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا لکڑی کا بنا ہوا گھر تھا جو انہوں نے مٹھو کے لیے تیار کیا تھا۔ اندرونی فرش پر گھاس پھونس بچھانے اور سرخ رنگ کرنے کے بعد مٹھو کا گھر بالکل تیار تھا۔ اس گھر  کو اٹھا کر دادا ابو نے کچن کی باہر والی کھڑی کے ساتھ لٹکا دیا۔
پھر گھاس کاٹنے والی مشین سے کیاری کی تمام گھاس برابر کردی ۔ انہوں نے کئی پنیریاں فاصلے فاصلے سے کیاری میں بو دی تھیں۔ پھر پرانے پودوں کوتھوڑی تیز پھواراور نئے پودوں کو ہلکی سی پھوار کے ساتھ پانی دیا۔ اب کافی روشنی ہو چکی تھی۔ دادا ابو اندر سے مٹھو کو اٹھا کر لے آئے اور آرام سے اسے سرخ گھر کے اندر رکھ دیا۔ مٹھو کچھ دیر تو ٹیں ٹیں کرتا رہا پھر سٹربری کھا کر نرم نرم بستر پر مزے سے بیٹھ گیا۔
’’دادا ابو! ہمارا مٹھو کہاں ہے ۔ نہیں مل رہا ۔ ‘‘ مانی شانی دوڑتے ہوئے صحن میں آئے اور پریشانی سے پوچھنے لگے۔ دادا ابو مسکرائے اور کچھ کہنے کی بجائے ہاتھ سے  کچن کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جہاں لکڑی کا بنا ہوا سرخ گھر لٹک رہا تھا اور اس کی  ننھی سی  چھت پر مٹھو خوشی خوشی جھولے لے رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے بچو! جب تک سکول کھلے، مانی شانی کے نئے پودے بڑے ہوگئے۔ اب وہ روز اپنے باغ میں کھیلتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی اپنے پودے بہت شوق سے  دکھاتے ہیں۔ دراصل پودے لگانا بہت اچھا اور  نیک کام ہے اور ہماری زمین کو پودوں کی ضرورت ہے۔ آپ کے سکول کھلنے میں ابھی بہت دن باقی ہیں۔ اگر آپ بھی کچھ نئے پودے لگائیں اور ان کی دیکھ بھال کریں تو میرا خیال ہے آپ کا وقت بہت اچھا گزرے گا! اورزمین ہر ی بھری کرنے پر اللہ پاک  بھی آپ سے بہت خوش ہوں گے اس بات کا تو مجھے یقین ہے!