ٹ ۔ ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے


سارے گاؤں میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ شرفو کی بیٹی سسرال سے ناراض ہو کر واپس آ گئی ہے۔ اگرچہ شرفو کی بیوی زیبن نے محلے والیوں کو بہت یقین دلانے کی کوشش کی کہ مانو کی طبیعت خراب ہے، کاموں سے تھکاوٹ ہے سو ذرا دم لینے کو میکے آئی ہے۔ کہاں سسرال کے نہ ختم ہونے والے کام اور دو بچوں کی ریں ریں، کہاں میکے  کے ٹھاٹ باٹ جہاں کوئی مانو بی بی کو تنکہ بھی توڑنے نہیں دیتا۔
لیکن وہ مائی تنور والی ہی کیا جو اس بے دلیل بات پر یقین کر لے۔ اس نے تو جو دیکھا سنا تھا سب کا سب مرچ مصالحہ لگا کر ہر آئی گئی کو بتا دیا۔
’’صاف لگتی کہوں   مانو کا مزاج  توشروع سے تیکھا  ہے۔ اور وہ چودھری تنویر اور اس کی ماں،  کب تک برداشت کرتی۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چودھری تنویر کو ٹانگے پر بیٹھے ہوئے۔ چھوڑنے آیا تھا ناں دو دن پہلے۔ ادھر مانو اتری ادھر ٹانگہ ٹھکا ٹھک دوڑنے لگا۔ ذرا جو مسکرایا ہو بیوی کو دیکھ کر ۔میں نے تو یہ بھی  سنا ہے ساتھ والے گاؤں میں رہنے والی بہن سے، کہ  چودھری تنویر ایک دو دن میں کاغذ بھی بھیجنے والا ہے ۔ بھئی  خود زیبن نے  بھی تو  میاں پر ساری عمر چڑھائی ہی کی ہے۔لو بھئی اس بات کی تو ہم سب گواہ ہیں ناں؟‘‘
یہ کہہ کر مائی تنور والی نے بڑی مہارت سے جھک کر پھولی ہوئی روٹیاں  تنور سے نکالیں اور ایک جھٹکے کے ساتھ چنگیر میں رکھتے ہوئے پوچھا۔


عورتیں جو ابھی تک کاغذ والی بات پر آنچل منہ میں دبائے گنگ کھڑی تھیں ، فورا ہاں میں سر ہلانے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھ میری بیٹی!  مانو پتر! اتنا غصہ اچھا نہیں ۔ کیا ہوا جو تیری ساس نے روٹی جلنے پر تجھے ڈانٹ ڈپٹ کر دی ۔ غلطی بھی تو تیری ہی تھی ناں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے تو نے خوب بڑھ چڑھ کر بولا ہو گا اسی لیے تو تنویر بھی غصے میں ہے۔ بھلاوہ کیسے برداشت کرے ... تو نے اس کی ماں کو اس کے سامنے اتنا  برا بھلا کہا ہے۔‘‘
زیبن بہت پیار سے مانو کو سمجھارہی تھی۔وہ جانتی تھی بیٹی زبان کی تیز ہے پھر برداشت بھی تھوڑی رکھتی ہے۔
 خود مانو دل ہی دل میں اپنی غلطی کا اعتراف کر چکی تھی لیکن پھر سوچتی۔ واپس جاؤں گی تو پھرو ہی ساس کی روز کی ڈانٹ ڈپٹ ۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر دیر تک پوچھ گچھ۔  ہر کام میں کیڑے نکالنا۔تنویر کے کان بھرنا۔ پھر تنویر اس کی لڑائی ہو جاتی۔ساس بھی شامل ہوتی۔ مانو کون سا ادھار رکھتی تھی۔ خوب جواب دیتی جاتی جس سے آگ مزید بھڑک جاتی اور تقریباً ہرروز ہی پاس پڑوس والوں کو تماشا دیکھنے کو ملتا۔
تنویر شریف آدمی تھا ہاتھ نہ اٹھاتا بلکہ زیادہ تر ماں اور بیوی کی اس چخ چخ میں  خاموش ہی رہتا۔ لیکن جب اس دن مانو نے اس کی ماں کو گالی ہی دے دی تو اس نے مانو کا ہاتھ پکڑا، ٹانگے میں بٹھایا اور تین میل دور اس کے میکے والے گاؤں چھوڑ کر واپس آگیا۔ وہ تنگ آگیا تھا۔ ماں کو خاموش نہ کرا سکتا تھا لیکن مانو سے توقع رکھتا تھا کہ ماں کی جلی کٹی برداشت کر لے ۔ مانو ساس کی باتوں سے تنگ اس سے توقع رکھتی کہ وہ گھر آ کر اس کا ساتھ دے گا اور ماں کو برا کہے گا۔ یوں  توقعات کے اس کھیل میں ہار جیت  توکسی کی نہ ہوئی ہاں دلوں کے مابین فاصلے بڑھ گئے۔
جب سے مانو میکے آئی تھی، شرفو چپ چپ رہنے لگا تھا۔ وہ سوچتا تھا بیٹی کو کیسے سمجھائے۔ خود اس کا دل بھی دکھتا تھا جب سمدھن کے ظلم و ستم کی داستان روتی ہوئی مانو کے زبان سے سنتا تھا۔ اس کا دماغ بھی بھڑکنے لگتا تھا جب مانو کے ٹپا ٹپ گرتے آنسو اس کے دل پر گرتے تھے۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کے مزاج کو جانتا تھا۔ نازوں پلی اکلوتی اولاد تھی اور مزاج کی انتہائی تیز۔
اچانک اسے ایک خیال آیا اور اس نے اسی وقت اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ لیا۔
’’مانو! چل میرے ساتھ دکان پر۔ گھر پر رہ رہ کر اداس ہو گئی ہے میری بچی!‘‘
مانو جو سارا دن سوچوں میں گھری کبھی برآمدے کبھی چھت کی سیڑھیوں پر بیٹھی رہتی تھی،  خوش ہو گئی ۔محلے میں سکھی سہیلیاں اس سے ملنے سے کترانے لگی تھیں کہ ان کی مائیں ڈانٹ ڈپٹ کرتی تھیں۔ اور گھر کے اندر زیبن ہر وقت نصیحتوں کا پنڈورا کھولے رکھتی۔ سو جب ابا نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تو فوراًٍ  سلیقے سے چادر اوڑھ کر تیار ہو گئی۔ دونوں بچے بھی آنچل کا کونہ پکڑ کر کھینچنے لگے تو زیبن نے انہیں کھینچ کر اپنے پاس کر لیا۔
دکان  پر پہنچ کر شرفو نے کیلیں بنانے کا سانچہ اور لوہے کی ایک سلیٹ نکالی۔ وہ گاؤں کا مشہور لوہار تھا اور لوگ اس سے لوہے کی اشیاءبنوانے کے لیے دور دور سے آیا کرتے تھے۔ پہلے شرفو نے لوہے کی سلیٹ کو آگ میں خوب تاپا۔ جب وہ سرخ ہو دہکنے لگی تو اس نے بڑی احتیاط سے ایک بڑے سے چمٹے سے اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے کیلیوں کا سانچہ لیا  اور اسے بھی آگ میں تاپنے لگا۔ وہ سانچہ بھی چونکہ  لوہے کا ہی بنا ہو ا تھا سو جلد ہی  گرم ہو کر دہکنے لگا تو شرفو نے کہا۔
دیکھ پتر! یہ سانچہ اس سلیٹ پر رکھنے سے کیلیں تیار ہوتی ہیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے گرم سانچہ دہکتی ہوئی سلیٹ  پر رکھا تو کیلیں بننے کی بجائے سرخ  چنگاریاں اڑنے لگیں۔  مانو ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ شرفو بھی اپنے ہاتھ پاؤں نہ بچا لیتا تو جھلس گیا ہوتا۔
پھر اس نے ٹھنڈا پانی ڈال کر دونوں لوہے ٹھنڈے کیے۔ سلیٹ پھر سے گرم کی لیکن اس بار اس نے سانچہ گرم نہ کیا۔ بس پھر کیا تھا!  ٹھنڈے سانچے کو گرم سلیٹ پر رکھنے کی دیر تھی کہ کیلیں ٹھکا ٹھک کٹنے لگیں اور نیچے پڑی ہوئی پرات میں گرنے لگیں۔
’’دیکھا مانو پتر! گرم لوہے کو گرم لوہے کے ساتھ ملایا تو آگ بن گیا۔ لیکن ٹھنڈے سانچے نے آنکھ جھپکنے میں سرخ گرم سلیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ پس ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے۔ تو بھی مانو پتر! ٹھنڈا لوہا بن جا۔ اگر تو چاہتی ہے تیری زندگی خوشی اور سکون کے سانچے میں ڈھل جائے تو تو اس ٹھنڈے سانچے کی طرح ہو جا۔ پھراوروں کا غصہ اور گرم مزاج تجھے پریشان نہیں کرے گا۔گرم لوہا بنے گی تو چنگاری اڑنے لگے گی جو دو گھروں کو جلا ئے گی۔چل  آجا پتر! گھر چلتے ہیں۔ بچے تیری راہ دیکھ رہے ہوں گے اور تنویر بھی۔ میں نے کوچوان بھیج کر بلوایا ہے اسے۔‘‘ شرفو نے شفقت اور پیار سے مانو کے سر پر ہاتھ رکھا اور دکان سے باہر نکل آیا۔
سوچوں میں گھری مانو نے ایک نظر ٹھنڈے سانچے پر ڈالی اور پھر پرات میں گری ہوئی کیلوں کو دیکھا۔ پھر وہ دل سے مسکرا دی۔ منفی سوچوں کے بادل یوں چھٹ گئے تھے جیسے کبھی آئے ہی نہ ہوں۔
اگرچہ ایک سیدھے سادے لوہار نے اپنی ناسمجھ بیٹی کو سمجھانے کے لیے اپنے  خیال کو عملی جامہ پہنایا تھا لیکن اس کا کہا ہوا چھوٹا سا جملہ ’’ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے ‘‘ اتناپیارا اور قیمتی تھا کہ تبھی سے گاؤں کی ہر سہاگن اس جملے کو  اپنے جہیز میں ساتھ لے کر جاتی رہی۔