ا۔ اب کی بات اب کے ساتھ جب کی بات جب کے ساتھ


احمر اور رضوانہ بہت خوش تھے۔ وہ آج جیسے ہی سکول سے آئے ، امی نے خوشخبری سنائی تھی۔
’’ آج آپ کی دادو رہنے کے لیے آرہی ہیں۔‘‘
’’یاہو!! ‘‘
’’امی دادو کتنے دن رہیں گی؟ پچھلی بار وہ بہت جلدی چلی گئی تھیں۔‘‘ رضوانہ نے پوچھا۔
’’شاید دو ماہ۔ لیکن تم دونوں سن لو۔ انہیں بالکل تنگ نہیں کرنا۔ اور ان کی خوب خدمت کرنی ہے۔رضوانہ ! اپنا کمرہ اچھی طرح صاف کرلو۔ دادو اس بار تمھارے کمرے میں ٹھہریں گی۔‘‘ امی جان نے ہدایا ت دیں۔
بارہ سالہ رضوانہ کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔
وہ جلدی سے کمرے میں آئی اور ہمیشہ کی طرح  اپنا سکول بیگ بیڈ پر پھینکنے کی بجائے سلیقے سے الماری میں رکھ دیا۔ یونیفارم اتار کر دروازے کے پیچھے لگی کھونٹی پر لٹکایا۔ کتابوں کا ریک سیٹ کر دیاا ور جھاڑن اٹھا کر کرسی میز پر سے گرد جھاڑنے لگی۔


نو سالہ احمر بھی بہت خوش تھا۔ دادو روز سونے سے پہلے بہت مزیدار کہانی سناتی تھیں۔
’’اس بار تو دادوسےشہزادے والی کہانی پوری سنوں گا جو وہ ادھوری چھوڑ گئی تھیں۔‘‘ اس نےتمام جوتے ایک قطار میں رکھتے ہوئے سوچا۔ امی نے اس کے ذمے جوتوں کا ریک صاف کرنے کا کام لگایا تھا جو داخلی دروازے کے ایک طرف  رکھا  تھا۔
جب تک امی نے کھانا گرم کے انہیں آواز دی دونوں اپنا اپنا کام کر چکے تھے۔
’’امی ! بابا کو فون کریں ناں۔ کیا دادو پہنچ گئی ہیں؟‘‘ احمر نے کہا۔
’’جی امی! اب تک تو گاڑی پلیٹ فارم پر پہن گئی ہو گی۔‘‘ رضوانہ بھی بولی۔
امی کہنے لگیں۔ ’’دادو کچھ دیر میں  آ جائیں گی  انشاء اللہ۔ تب تک آپ دونوں اپنا ہوم ورک کر لیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے!‘‘ دونوں نے ایک ساتھ سر ہلایا اوراپنا اپنا بیگ لے کر پڑھنے والے کمرے میں چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دادو پہنچیں تو امی، احمر ، رضوانہ اور ان کی ملازمہ رضیہ سبھی ان کے استقبال کے لیے صحن میں کھڑے تھے۔ دادو سب سے گرمجوشی سے ملیں، بچوں کو پیار کیا اورلاؤنج میں رکھی آرام کرسی پربیٹھ گئیں۔ یہ ان کی پسندیدہ کرسی تھی۔
پھر انہوں نے احمر اور رضوانہ کو پاس بلایا اور انہیں ان کے تحفے تھمائے۔ احمر تو اپنا تحفہ دیکھ کر پھولا نہ سمایا۔ یہ ایک بڑی سی کھلونا گاڑی تھی جو ریموٹ کنٹرول سے چلتی تھی۔ رضوانہ کوگلابی رنگ کی  ایک سلائی مشین ملی تھی ۔ یہ عام سلائی مشینوں سے کچھ ہی چھوٹی تھی اور بہت اچھے کپڑے سی لیتی تھی۔ دادو نے احمر کی امی کو گرم شال، بابا کو لیدر کی جیکٹ دی اوررضیہ کو بھی ایک خوبصورت سوٹ تحفے میں دیا۔  اس کے علاوہ وہ گاؤں سے تازہ گڑ بنوا کر لائی تھیں جو بچوں کو بہت پسند تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ احمر بے حد حیران ہوا۔
’’جی ہاں۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ جب دادو کمرے کی لائٹ بند کر کے بسترپر لیٹ جاتی ہیں تو ان کی رضائی میں سے روشنی نکل رہی ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا! چلو دادو سےپوچھتے ہیں۔‘‘ احمر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’اوہ ہو! ابھی نہیں۔ پہلے امی کو بتاتے ہیں۔‘‘ رضوانہ  نے کہا اور دونوں امی کے کمرے میں چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہمم! تو یہ بات ہے۔‘‘ امی کچھ کچھ سمجھ گئی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔
’’امی ! آپ مسکرا کیوں رہی ہیں۔ بتائیں ناں دادو کی رضائی میں سے روشنی کیسے نکلتی ہے؟‘‘ رضوانہ مزید الجھ گئی۔
’’مجھے پتہ ہے دادو نے ایک ٹارچ رکھی ہوئی ہے۔ وہ روز رات کو اس کی لائٹ چیک کرتی ہو ں گی۔‘‘ احمر نے جوش سے کہا۔
’’چلو! دادو کے کمرے میں چلتے ہیں۔انہی سے پوچھتے ہیں۔یہ کیا ماجرا ہے۔‘‘ امی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لیکن دادو! آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ کے پاس بھی موبائل ہے۔‘‘ احمر اور رضوانہ دونوں ہی بہت حیران تھے۔ دادو کے پاس سام سنگ کا ایک نیا موبائل تھا۔
یہ بات دونوں ہی کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ وہ تو انہیں گاؤں میں رہنے والی ایک سیدھی سادی سی خاتون سمجھتے تھے۔
’’ارے بھئی! اس میں چھپانے کی کون سی بات ہے۔ پھر صحیح فراغت تو رات ہی کو ملتی ہے مجھے۔ دن کو ملنے جلنے میں مصروف رہنے کی وجہ سے صحیح طرح واٹس ایپ چیک نہیں کر پاتی۔‘‘ دادو نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’کیا !!! واٹس ایپ بھی!!‘‘
رضوانہ اور احمر کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
اب تو دادو قہقہ لگا کر ہنسیں اور کہنے لگیں۔
’’لوبھئی!شکیلہ! اپنے بچوں کو سمجھاؤ اب کی بات اب کے ہاتھ، جب کی بات جب کے ساتھ۔ وہ زمانے گئے جب دور دراز کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے والوں کو نئی دنیا کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہوتا تھا۔ اب تو ہر ایک کے پاس اپنا موبائل ہے چاہے مہنگا ہو یا سستا۔ پھر کال اور انٹرنیٹ کے پیکچز نے تو مانو ہر بندے کو اسی موبائل میں گم کر کے رکھ دیا ہے۔ ‘‘ دادو کہتی چلی گئیں۔
’’دادو!‘‘ احمر کھسک کر دادو کے پاس ہوکر بیٹھ گیا۔’’میں آپ کا موبائل دیکھ لوں؟‘‘
’’جی نہیں!میں بڑی ہوں  دادو پہلے مجھے دکھائیں گی۔ ‘‘ رضوانہ حسب عادت یکدم بڑی بن گئی۔ پھر اشتیاق سے پوچھنے لگی۔
دادو! وہ آپ کے موبائل میں باربی ڈول کی سالگرہ منانے والی گیم ہے ؟ ‘‘
دادو مسکرانے لگیں اور تسبیح ہاتھ سے رکھ کر تکیے کے نیچے سے موبائل نکال لیا۔
’’دادو! یہ درخت کس چیز کا ہے اور یہ گائے۔۔‘‘ جب دادو نے موبائل ان کے سامنے کیا تو لاک سکرین پر لگا وال پیپر دیکھ کر دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
’’بھئی! یہ میرا پسندیدہ درخت ہے  آم کا ،  وہاں ہمارے صحن میں لگا ہوا ہے۔ بہت پرانا ہے اللہ بخشے میرے ابا جی نے اپنے بچپن میں لگایا تھا۔ اور یہ ساتھ بندھی ہوئے گائے ہم نے دو سال پہلے خریدی تھی۔ مجھ سے بہت مانوس  ہو گئی ہے۔ میرے ہاتھ سے ہی چارہ کھاتی ہے۔پتہ نہیں اب کیا کر رہی ہو گی؟‘‘ دادو بتاتے بتاتے اداس ہونے لگیں۔ احمر اور رضوانہ سن ہی کہاں رہے تھے۔ وہ تو دادو کے موبائل سے مختلف انداز میں اپنی اپنی سیلفی لینے مصروف ہو چکے تھے!