پورے
محلے میں خبر پھیل چکی تھی کہ بی چندن اپنی چھوٹی بہن کو سکھر سے لے کر آچکی ہیں۔
ان کی چھوٹی بہن کوثر کچھ ماہ پہلے بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کا ایک ہی چھوٹا سا بچہ
تھا۔ ماں باپ تو تھے نہیں،سو جب سسرال والوں نے منہ پھیراتو لے دے کر ایک بی چندن
کا گھر ہی کوثر کاواحد آسرا ثابت ہوا۔
بی
چندن کسی زمانے میں اپنے نام کی طرح خوبصورت تھیں۔ پر قسمت کی ماڑی نکلیں، بہت جتن
کیے لیکن رشتے والے آتے تو چندن کی بجائے گھر کی حالت زار پر غور کرتے اورانکار
ہو جاتا۔ جہیز کی طرف سے بھی مایوسی تھی۔ سو یونہی عمر گزرتی چلی گئی اور بی چندن
کے بالوں میں سفیدی آگئی۔ ماں باپ کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ بی چندن نے
دوسراہٹ کے لیے کئی ساتھی ڈھونڈ لیے تھے جو اب اس آخر ی عمر میں ان کے وفادار
ساتھی تھے۔ یہ چند مرغیاں مرغے، ایک معصوم سی بکری اس کے دو میمنے اور داخلی
دروازے کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی کیاری میں اگے ہوئے سبزیوں کے پودے تھے۔
گزر بسر کے لیے بی چندن نےمرحوم ابا کی کریانے کی دکان کرائے پر لگا دی تھی۔
ہر ماہ لگا بندھا کرایہ آجاتا جو بہت نہ سہی تو ایک جان کےلیے کافی ہی تھا۔ سو دن
کٹ رہے تھے۔
کوثر
اور اس کے بیٹے سنی کے آجانے سے گھر جیسے گہری نیند سے جاگ گیا۔
صبح شام جہاں یا
سناٹے بولتے تھے یا بی چندن کی مرغیاں اور بکری کی آوازیں۔۔ اب اس سب میں سب سے
بلند آواز چھ ماہ کے سنی کی ہوتی تھی۔ بی چندن تو مانو ایک نئی بی چندن بن گئیں۔
ہمہ وقت سنی کے ساتھ ساتھ رہتیں اس کو نہلاتی دھلاتیں نرم غذا اپنے ہاتھوں
سے تیار کر کے کھلاتیں۔ پھر اس کی اوں آں میں لگی رہتیں۔ کوثر کے ذمے انہوں نے
گھر کے کام لگا دیے تھے جو وہ بخوبی سر انجام دے رہی تھی۔ سب سے پہلے تو اس
نے گھر بھر کی صفائی کی ، نہ جانے کتنے سال پرانے جالے اتار پھینکے، کچن میں
ساری الماریں اور ڈبے صاف ستھرے کیے اور صحن بھی رگڑ رگڑ کر چمکا دیا۔
وقت
یونہی گزرنے لگا۔ سنی بڑا ہوا تو بی چندن نے اسے سکول داخل کروادیا۔ یہ ایک اور
بڑی پیاری مصروفیت تھی جس میں بی چندن اور کوثر دونوں ہی بہت خوش نظر آتی تھیں۔ لیکن
ایک روز عجیب واقعہ ہوا۔
سنی
روتا ہوا گھر پہنچا۔ وین سے اترا تو آنسو کے نشان چہرے پر صاف نظر آتے تھے۔ گھر
میں داخل ہوا تو باقاعدہ رونے لگا۔ کوثر حیران بی چندن پریشان ماجرا کیا ہے۔ کسی
کی سمجھ میں نہ آیا۔ دوسری جماعت کا طالب علم سنی کھانا کھاتے ہی سو
گیا۔
شام
کو اس نے بتایا۔
’’علی
نے میرا لنچ کھا لیا اور مجھے مارا بھی۔ ‘‘
کوثر
تو غصے میں آگئی۔سنی اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ یقیناً اس کی آنکھوں میں ایک
آنسو دیکھنے کی روادار نہیں تھی۔
بی
چندن نے اسے ٹھنڈا کیا اور سنی سے ساری بات بتانے کو کہا۔
’’علی
اور میں ساتھ ساتھ بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔ ‘‘ سنی نے بتانا شروع کیا۔ ’’ایک دم سے
علی نے میرے لنچ باکس میں سے ایک چپس اٹھاکر کھا لیا۔ اور پھر میری اس سے لڑائی ہو
گئی۔ ‘‘ سنی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’اماں!
میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ ‘‘
کوثر
تو سنی کو پیار کرنے میں مصروف تھی لیکن بی چندن کی سوئی ’’ایک چپس‘‘ پر ہی اٹک
گئی تھی۔
آہستہ
آہستہ سنی کی شخصیت کی پرتیں سامنے آنے لگیں۔اب چودہ سالہ سنی کو اس بات پر
اعتراض ہوتا تھا کہ ساتھ والی بانو خالہ ہماری مرغیوں کے انڈے کیوں لے جاتی ہیں۔
ایک دن اس نے بد لحاظی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ بھی دیا۔
’’بانو
خالہ! آپ یہ انڈے مفت لے کر جارہی ہیں؟‘‘
بی
چندن کا تو چہرہ خٖفت سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے سنی کو خوب ڈانٹا اور کہا کہ
یہ تو ہمارے پڑوسی ہیں، بہت پرانے محلے دار ہیں بیٹا! مفت کی کیا بات ہےاس
میں۔ انڈے ہی تو ہیں۔
سنی
کچھ دیر بی چندن کی ڈانٹ کا اثر لیتا لیکن پھر اسے اندر ہی اندر اس بات پر کھدبد
ہونے لگتی کہ ساتھ والا تنویر ان کی کیاری میں سے پودینہ کیوں توڑنے آتا
ہے۔ کبھی وہ اس بات پر ناراض ہو رہا ہوتا کہ بی چندن ادھار
چینی
پتی دینے میں اتنی فیاض کیوں ہیں۔
ایک
دن بی چندن کی دور کی خالہ بمع اہل و عیال ان سے ملنے چلی آئیں۔ بی چندن اور کوثر
دونوں ہی ان کی آمد پر بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے خاطرمدارات میں کوئی کمی نہ
چھوڑی۔ گھر کی پلی ہوئی دو دیسی مرغیاں جھٹ پٹ قربان کیں ، دیسی گھی
میں بھونیں اور تنوری نان اور سلاد کے ساتھ دسترخوان پر سجا دیں۔ خالہ اور ان کے
بچوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور سنی کے ہاتھ پر پچاس کا نوٹ رکھ کی دعائیں
دیتی چلی گئیں۔
اب
ان کے جانے کا وقت سے لے کر رات تک سنی بی چندن کے ساتھ بحث و مباحثے میں مصروف
تھا۔
’’خالہ
جان! میں کہتا ہوں کہ گھر کی مرغیاں قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ وبائی
بیماری کی وجہ سے بازار میں شیور مرغی آدھی سے بھی کم قیمت میں مل رہی ہے۔ آپ دو
نہیں چار مرغیاں پکا لیتیں۔ اور یہ دیسی گھی! خالہ بچا کر رکھیں۔ کھلا تیل ڈال لیا
کریں۔ وہ سستا پڑتا ہے ۔ ویسے بھی مہمان بدلے میں دے کر کیا گئے۔ پچاس روپے! خالہ
جان! ان روپوں کا تو صرف آج کل دھنیا پودینہ کی ایک ایک گڈی اور دو ہری
مرچیں آتی ہیں۔ اور اماں!‘‘ یہ کہتے ہوئے سنی نے کوثر کی جانب دیکھا جو بہت دیر
سے اس کی باتیں سن سن کر اب کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی۔
’’
آج پھر وہ تنویر ہمارے ٹماٹر توڑ کر لے گیا۔ اماں مجھے بہت غصہ آتا ہے! میں
تو اس کا منہ توڑ دوں گا اگر وہ دوبارہ آیا۔ ایک تو ہمارے ٹماٹر لے کر جاتا
ہے اور پھر سکول میں مجھ سے بدتمیزی بھی کرتا ہے۔ ‘‘
بی
چندن نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان سے پہلے ہی کوثر نے خیالوں سے باہر آگئی
اورکہنے لگی۔
’’آپا!
اس کا باپ بھی انتہا درجے کا کنجوس اور بخیل تھا۔ انتہائی کاروباری ذہن کا مالک
تھا۔ بیٹا بھی تو اسی پر جائے گا ناں!‘‘
’’اوہ
! اوہ! ‘‘ بی چندن پہلے حیرت زدہ ہوئیں اور پھر ایک لمبی سانس لے کر کہنے لگیں۔
’’چلو آج یہ معمہ بھی حل ہوا۔ ہم سمجھتے تھے ہماری تربیت میں کمی رہ گئی
پرخاندانی مزاج تو رنگ لا کر رہتا ہے۔باپ پر پوت پراپت گھوڑا! بہت نہیں تو تھوڑا
تھوڑا! ‘‘ یہ کہہ کر بی چندن اور کوثر دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیں۔
ختم
شد!