آ۔ آپ کاج مہا کاج


گئے دنوں کی بات ہے ۔کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ وہ بہت محنتی اور جفا کش تھا۔ اس کا ایک ہرابھرا کھیت تھا جس میں اس نے سارا سال محنت کر کے چاول کی فصل بوئی تھی۔ اب فصل کاٹنے کا وقت آپہنچا تھا۔ اس دن اکبر جب کھیتوں سے واپس آیا تو اس کو نہ جانے کیوں شدید سردی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی بیوی نے اسے گرما گرم کھانا لا کر دیا۔ اکبر نے اللہ کا نام لے کر کھانا کھایا اور سو گیا۔
صبح اکبرکی آنکھ کھلی تو اس کی پیشانی بخار سے تپ رہی تھی۔اس کی بیوی نے جلدی سے ٹھنڈی پٹیاں لا کر اکبر کی پیشانی پر رکھنا شروع کیں اور اپنے بیٹے سے کہہ کر حکیم صاحب کو بلوایا۔
’’اکبر بیٹا! تمھیں آرام کی ضرورت ہے۔ یہ دوا پابندی سے کھاتے رہنا۔ ‘‘ حکیم صاحب نے ہدایت کی تو اکبر اندر ہی اندر پریشان ہو گیا۔


’’یہ تو فصل کاٹنے کا وقت ہے۔تھوڑی سی بھی بارش ہو گئی تو میری فصل خراب ہو جائے گی۔ میں آرام کیسے کر سکتا ہوں۔ ‘‘ اکبر نے سوچا۔
آس پاس کے سب پڑوسی اس کی عیادت کے لیے آئے اور اس کی فصل کاٹنے میں مدد کی پیشکش کی۔
’’اکبر! تم فکر نہ کرو۔ میں تمھاری ساری فصل دنوں میں اکھٹی کر کے لے آؤں گا۔‘‘ اس کے ایک پڑوسی فضلو نے کہا۔
’’ہاں اکبر! میر ا تمھارا کھیت تو ایک ساتھ ہی ہیں۔ جب میں اپنی گندم کی فصل کاٹوں گاتو ساتھ تمھارے کھیت پر سے بھی دانے اٹھاتا جاؤں گا۔ تم بس آرام کرو۔‘‘ یہ  اسلم تھا ۔
احمدکیوں پیچھے رہتا۔ وہ بھی بول اٹھا۔
’’اکبر! وہ دوست ہی کیا جو مصیبت میں کام نہ آئے۔ تم اپنی فصل کی بالکل فکر نہ کرو۔میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔بس تمھاری فصل کی کٹائی میرے ذمے۔‘‘
اکبر جس کو شدید بخار اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی، وہ اتنےاچھے جملےسن کر خوش ہو گیا۔ کہنے لگا۔
’’واہ! دوست اور پڑوسی ہوں تو تم سب جیسے۔ ‘‘ پھر وہ دوا کھا کر بے فکر سو گیا۔
کئی دن تک وہ اسی بے فکری میں رہا۔ اس کی بیوی بار بار اسے کھیتوں پر جانے کا کہتی لیکن اکبر کہتا۔
’’میں کیوں جاؤں اور اس کمزوری میں اتنی محنت کروں۔ میرے دوست اور پڑوسی ہیں ناں میری مدد کے لیے۔ تم پریشان نہ ہو۔ دیکھنا! آج یا کل وہ میری ساری کی ساری فصل کاٹ کر لے آئیں گے۔‘‘
اسی انتظار میں بہت دن گزر گئے ۔ اب تو اکبر کو فکر لاحق ہوئی۔ اس کی بیماری تو کب کی ختم ہو گئ تھی۔لیکن  سستی اور دوستوں کے دلاسوں  نے اس کو بہت دنوں تک کھیتوں میں جانے نہیں دیا۔اس دن جب اکبر سو کر اٹھا توہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
بارش کے آثار دیکھ کر اکبر نے جلدی جلدی بیل گاڑی تیار کی اور کھیتوں کی جانب چل دیا۔
جب وہ اپنی فصل کے پاس پہنچا تو وہ بھونکچا رہ گیا۔ اس کی  ساری فصل سوکھ کر جھرمری ہو گئی تھی ۔ پودے اور کھلیان جھاڑیوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔اب تو اکبر غصے اور افسوس سے ہاتھ ملنے لگا۔ پہلے وہ اسلم کے گھر پہنچا جو آرام کر رہا تھا۔ اکبر کو دیکھ کر اسلم کچھ گھبرایا پھر جلدی سے وضاحت دینے لگا۔
’’اکبر غصہ نہ کرو۔ میرے بیل چوری ہو گئے تھے۔ میں تو خود اپنی فصل بڑی مشکل سے اکھٹی کر کے لایا ہوں۔ ‘‘
اکبر نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور وہاں سے سیدھا فضلو کے گھر گیا۔ فضلو اکبر کو دیکھتے ہی کہنے لگا۔
’’دوست میں تمھارے گھر آنے ہی لگا تھا یہ بتانے کہ میں کچھ دنوں کے لیے  ساتھ والے گاؤں جا رہا ہوں۔ تم اپنی فصل خود ہی کاٹ لو۔ لیکن مجھے کچھ دیر ہوگئی۔ تمھاری فصل خراب تو نہیں ہوئی؟‘‘
اکبر نے شعلہ بار نظروں سے فضلو کو دیکھا اور اس کے گھر سےنکل گیا۔ اب اس کا رخ احمد کے گھر تھا جو خود کو اس کا گہرا دوست بتاتا تھا۔لیکن اس کے پاس بھی اکبر کی مدد نہ کرنے کے لیے حیلے بہانوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
آخر کار اکبر تھکے ہوئے قدموں سے گھر لوٹنے لگا۔ بارش اب کافی تیز ہو گئی تھی جو اس کی رہی سہی فصل کو خراب کرنے کے لیے کافی تھی۔ جب اکبر گھر میں داخل ہو ا تو اس کے چہرے پر پچھتاوا اور دکھ تھا۔ اس کی بیوی نے ساری بات سنی تو کہنے لگی۔
’’اسی لیے میں کہتی تھی آپ کاج مہاج۔ اپنا کام خود کرو تو اچھا ہو گا۔ کسی سے کہو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ ‘‘ اکبر نے کوئی جواب نہ دیا اور سر جھکا لیا۔