ننھے میاں کے دانت


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس رات کی جب ننھے میاں کے دانت باتیں کر رہے تھے۔
’’کیا کریں! آج پھر ننھے میاں ہم سب کو صاف کیے بغیر سو گئے ہیں۔ ‘‘ ایک دانت نے کہا۔
ننھے میاں گہری نیند سوئے ہوئے تھے  لیکن ان کے دانت جاگ رہے تھے ۔ وہ بہت اداس تھے۔
’’اف! میرے اندر مٹھائی کے ٹکڑے پھنس گئے ہیں۔ یہ کیسے نکلیں گے؟‘‘ ایک پچھلی والی ڈاڑھ بولی۔
’’ہائے ہمیں تو آج درد بھی ہونے لگا ہے۔‘‘ درمیان کے دو دانت جن پر کیڑا لگا ہوا تھا، کہہ رہے تھے۔
’’اچھا! اچھا! میں کیا کروں۔ ذرا ادھر ہو کر بیٹھو۔ ‘‘ یہ ایک نیا نیا نکلنے والا دانت تھاجو ابھی کافی چھوٹا لیکن صاف ستھرا تھا۔
’’کیوں ! تم ادھر ہو جاؤ ناں۔ میں تو یہیں بیٹھو ں گا۔ ‘‘ کیڑے والے دانت نے کہا۔ نیا دانت اگر چہ کچھ دن پہلے ہی نکلا تھا لیکن مضبوط تھا۔ اس نے کیڑے والے دانت کو خوب دھکے دیے۔
جلد ہی کیڑے والے دانتوں نے ہار مان لی اور تیز تیز سانس لیتے ہوئے کہنے لگے۔


’’اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا دوست۔ ننھے میاں تو دانت صاف کرتے نہیں۔ روز ایسے ہی سو جاتے ہیں۔ ایک دن تمھیں بھی یہ کالا کالا کیڑا لگ جائے گا۔ ہپ ہپ ہپ!‘‘
اوپر والی  ڈاڑھیں جو سو رہی تھیں اس سارے شور شرابے سے اٹھ گئیں ۔
’’آج سب کچھ زیادہ ہی اداس ہیں۔ کیا بات ہے؟‘‘ ان میں سے ایک نے کہا تو اگلے  دانتوں نے بتایا۔
’’آج ننھے میاں کے ابو مٹھائی کا ڈبہ لائے تھے۔ ننھے میاں نے ایک گلاب جامن، ایک برفی اور آدھا لڈو کھایا۔ پھر کھیل کود میں لگ گئے۔ ‘‘
’’ہاں! میں نے خود سنا تھا۔‘‘ نچلی والی ڈاڑھ بولی۔’’جب ننھے میاں کی امی نے کہاتھا۔ ننھے! دانت صاف کر لو۔ لیکن ننھے میاں واش بیسن پر گئے اور یونہی پانی کے چھینٹے اڑا کر باہر آگئے اور بستر پر چلے گئے۔‘‘
’’ہمم! تو یہ بات ہے۔‘‘ سب سے بڑی والی ڈاڑھ بولی۔’’یہ تو روز کا مسئلہ ہے۔ آخر اس کا کیا حل نکالا جائے۔‘‘
یہ سن کر سب دانت سوچ میں پڑ گئے۔
’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ ایک چھوٹی سی ڈاڑھ بولی۔ ’’میرے پاس ایک حل ہے ۔ اس کے لیے ہمیں زبان آپی سے مدد لینی پڑے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آؤ سب مل کر انہیں جگاتے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ننھے میاں بہت جلدی اٹھ گئے اور منہ بسورتے ہوئے کچن میں جا پہنچے۔ امی جان دادو کے لیے چائے بنا رہی تھیں۔وہ ننھے میاں کو اتنی صبح دیکھ کر حیران ہوئیں۔
’’کیا بات ہے بیٹا! ‘‘
’’امی! میرے دانتوں میں بہت درد ہے۔ بہت زیادہ! آں آں۔۔ ‘‘ یہ کہتے ہی ننھے میاں  نے رونا شروع کر دیا۔ پھر کیا تھا! دادو کمرے سے لاٹھی ٹیکتے تسبیح ہاتھ میں لیے باہر آئیں۔
’’ارے بہو! کتنی بار کہا ہے میرے ننھے کو کچھ نہ کہا کرو۔ پر مجال ہے جو  تم ذرا بھی سمجھی ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دادو نے ننھے میاں کو گود میں بھر لیا۔ امی جان ننھے میاں کے رونے کی اصل وجہ بتانے لگیں۔
ڈاکٹر بھیا جو ابھی میڈکل کالج کے تیسرے سال میں تھے، بھی موٹی سی کتاب لیے دادو کے کمرے میں چلے آئے۔
’’ یہ ننھے میاں کیوں رو رہے ہیں۔ اوہ!اچھا دانتوںمیں درد ہے۔ ادھر آؤ میں تمھارا چیک اپ کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ننھے میاں کو اپنے کمرے میں لے آئے۔دراز سے ٹارچ نکالی اور کہنے لگے۔
’’ننھے ! آ کرو۔ آااا‘‘
ننھے نے آاا کیا تو ان کے منہ سے بدبو نکلنے لگی۔
بچو! کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ننھے میاں کے دانتوں نے کیا حل نکالا تھا؟ انہوں نے زبان آپی سے کہا تھا کہ وہ مٹھائی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سارے دانتوں میں پھیلا دیں۔ صبح تک لعاب اور میٹھے ٹکڑوں نے مل کر ننھے میاں کے دانتوں میں شدید درد اور بدبو پیدا کر دی تھی۔
بھیافوراً پیچھے ہٹ گئے اور ناک پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
’’ننھے! کیا تم واقعی دانت برش کرتے ہو؟‘‘
ننھے میاں سوچنے لگے۔ کیا کروں؟ بھیا کو سچ بتا دوں۔
’’ نہیں تو! بھیا۔ میں تو بس۔۔۔ پانی سے کھیل کر باہر آجاتا ہوں۔‘‘ انہوں نے اٹکتے ہوئے کہا۔
’’لو ! پھر تو تمھارا دانت نکالنا پکڑے گا۔ یہ والا ۔۔ اور یہ اوپر والا بھی اور یہ ڈاڑ ھ بھی۔ اوہو! میرا پلاس کہاں گیا ؟ یہیں تو رکھا تھا۔‘‘ بھیا کہتے ہوئے دراز کھولنے لگے۔
ننھے میاں نے  منہ پر سختی سے دونوں  ہاتھ جما لیے۔
’’بھیا! نہیں !مجھے درد ہو گا۔ ‘‘ انہوں نے ہاتھوں کے بیچ میں بمشکل کہا۔
’’اچھا! تو پھر آپ  ہر روز پانچ منٹ تک دانت صاف کریں۔  ایک ہفتے بعد میں پھر سے آپ کا چیک اپ کروں گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے! میں ابھی جا رہا ہو ں برش کرنے۔‘‘ یہ کہہ کر ننھے میاں واش بیسن کی جانب بھاگ گئے۔
میرے پیارے بچو! کیا آپ بھی مٹھائی کھا کر۔۔۔ارے ارے! آپ کہاں چل دیے! اچھا!آپ واش بیسن کی طرف جا رہے ہیں۔میں سمجھ گئی! ٹھیک ہے۔ لگاتار نچ منٹ تک  برش کیجیے گا۔ اورہاں!  بھیا کا پلاس چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس پلاس ہے ہی نہیں!