زوبی کیسے گھر گیا

میرے  سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سےزیبرا کی جس کا نام زوبی تھا۔ زوبی کو اس کی امی جان نے کچھ دن پہلے ہی سکول میں داخل کروایا تھا۔ یہ جنگل میں کھلنے والا پہلا سکول تھا۔ سبھی جانور اپنے ننھے منے بچوں کو اس سکول میں داخل کرواچکے تھے۔ زوبی بھی نئے سکول میں بہت خوش تھا۔ آج بھی وہ اچھلتاکودتا سکول پہنچا۔ بستہ کھولا تو یہ کیا! اس کی ہوم ورک ڈائری غائب تھی۔
’’اوہ! اب کیا کروں؟ رات کو  دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بیگ تیار کرنا یاد ہی نہیں رہا ۔‘‘
زوبی ابھی سوچ رہا تھا کہ میم زیبری کلاس میں  داخل ہوئیں۔وہ ایک بوڑھی زیبرن تھیں۔   پہلے انہوں نے بورڈ پر تالاب میں تیرتے ہوئے مگر مچھ کی تصویر بنائی ۔ پھر انہوں نے بتانا شروع کیا کہ کس کس طرح چھوٹے زیبرے ، مگر مچھ کے منہ میں جانے سے بچ سکتے ہیں۔
’’نمبر ایک! پانی پینے کے لیے ایسی جگہ جائیں جہاں مگرمچھ نہ ہوں۔نمبر دو! پہلے مچھلیوں سے پوچھ لیں پانی زیادہ کھارا تو نہیں۔‘‘ میم زیبری نے کہتے کہتے کلاس کے سب بچوں کو دیکھا۔ زوبی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
’’زوبی بیٹا! جلدی سے بتائیں۔ مگرمچھ اگر تالاب میں ہو تو پانی کس رنگ کا ہو گا؟‘‘ میم زیبری نے پوچھا تو زوبی کوئی جواب نہ دے سکا۔ ابھی یہ سب ہو رہا تھا کہ اچانک ایک شور مچ گیا۔
’’بھاگو! بھاگو! شیروں کا حملہ ہو گیا ہے۔ جلدی بھاگو!‘‘ 


میم زیبرن نے جلدی سے مارکر کا ڈھکن لگا کر الماری میں رکھااور سب بچوں کو بیگ پہننے کا کہا۔ پھر وہ تمام ننھے زیبروں کو لے کر سکول سے نکل گئیں۔ بھاگتے بھاگتے ان کا سانس پھولنے لگا لیکن انہیں ننھے زیبروں کو شیر سے بچانا تھا۔ اس لیے وہ بھاگتی رہیں۔
جب وہ اونچی اونچی بھوری جھاڑیوں کے پار پہنچ گئیں تو سب کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ننھے زیبرے لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ وہ تھک گئے تھے۔ زوبی کو تو امی ابو بہت یاد آرہے تھے۔
میم زیبری نے سب کو اپنی  اپنی ہوم ورک ڈائری نکالنے کا کہا۔ وہ بچوں کے والدین کو فون کرنا چاہتی تھیں۔ فون نمبرز بچوں کی ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھے ہوئے تھے۔ جب زوبی کی باری آئی تو وہ خالی ہاتھ میم کے پاس چلاآیا۔
’’میم! میری ڈائری گھر رہ گئی ہے۔‘‘
’’اوہ اوہ! اب تمھارے باباکو کیسے بلایا  جائے؟ کیا تمھیں ان کا فون نمبر یاد ہے؟‘‘
’’فون نمبر۔۔ ہاں ۔۔ وہ۔۔‘‘ زوبی نے یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا ذہن بالکل خالی تھا۔ امی جان نے کتنا بولا تھا کہ بابا کا نمبر ایسے یاد ہونا چاہیے جیسے مگر مچھ سے بچنا۔ لیکن زوبی نے ذرا بھی امی کی بات نہ سنی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چلو۔ میرے گھر ۔ پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔‘‘ میم زیبری نے کہا۔ سب بچے اپنے بابا یا بڑے بھائی کے ساتھ اپنے گھر جا چکے تھے۔ زوبی اکیلا رہا گیا تھا۔ اسے بہت رونا آرہا تھا لیکن میم زیبری  اسے سارے راستے شرارتی بندروں کی کہانی سناتی رہیں تاکہ اس کا دل بہلا رہے۔
آخر میم زیبری کا گھر آگیا۔یہ ایک بڑے سے میدان  میں تھا۔ وہاں گھاس ہی گھاس تھی۔ میم  تو گھر کے اندر چلی گئیں لیکن زوبی وہیں کھڑا گھاس سے کھیلنے لگا۔ اسے تازہ گھاس بہت پسند تھی۔
میم نے گھر جا کر فائل میں سے زوبی کے بابا کا نمبر دیکھا اور انہیں فون کر دیا۔ وہ زوبی کے لیے بہت پریشان تھے۔ انہوں نے زوبی کے سکول کےدو چکر لگائے لیکن زوبی نہ ملا تھا۔پھر دوسرے زیبروں نے انہیں بتایا کہ وہ بھاگ کر ٹیلے کے پیچھے والی لمبی جھاڑیوں میں چھپے تھے۔باباوہاں سے بھی ہو آئے۔ انہیں زوبی نہ مل سکا۔
 اب میم کے فون کرنے پر وہ بھاگتے ہوئے چلے آئے۔ زوبی اس وقت جامنی پتوں کا سوپ پی رہا تھا۔ اس نے بابا کی آواز سنی جو میم زیبری کا شکر یہ ادا کر رہے تھے۔ اس نےچمچ پیالے میں رکھ  دی اور دوڑتا ہوا بابا کے گلے لگ گیا۔
پیارے بچو!اب زوبی کو اپنے بابا کا نمبر Tow Tips پر یاد ہے۔ وہ یہ نمبر کبھی نہیں بھولتا۔
کیا آپ کو بھی بابا کا موبائل نمبر یاد ہے؟ اگر نہیں تو یاد کر لیں اورپھر ہمیشہ یاد رکھیں۔ کیونکہ آپ بہت چھوٹے  اور نازک سےہیں اور آپ کو بابا کی بہت ضرورت ہے۔ ہاں!  جب آپ بڑے ہوجائیں گے تو تب آپ کے بابا کو آپ کی ضرورت ہو گی۔میرےبچو! اس وقت بھی بابا کا فون نمبر یاد رکھنا اتنا ہی ضروری ہو گا جتنا کہ ابھی!