پیارے بھائی جان پنگو


میرے سوہنے موہنے  بچو ! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے پینگوئن کی جس کا نام پنگو تھا۔ پنگو  برف کے بیچوں بیچ بنے ہوئے ایک  سرخ رنگ کے  گھر میں رہتا تھا۔ کچھ دنوں سے پنگو اپنی امی  سے ناراض تھا۔ جب سے پنگو کی چھوٹی بہن، گونی پیدا ہوئی تھی، امی بہت مصروف ہو گئی تھیں۔ پنگو کو لگتا تھا اب کوئی اس سے پہلے جیسا پیار نہیں کرتا۔ سب  گونی کے ساتھ  مصروف رہتے  ہیں۔ کوئی گونی کو فیڈر میں گرم گرم دودھ  پلا رہا ہے تو کوئی اس کی مالش کر رہا ہے۔پنگو کو لگتا تھا امی اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔ سو، اس دن بھی جب امی نے تیسری بار اس سے کھانا مکمل کرنے کو کہاتو وہ چیخ پڑا۔
’’میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ آپ  مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔ گونی سے پیار کرتی ہیں۔ مجھے گونی اچھی  نہیں لگتی۔ ‘‘ یہ کہہ کر پنگو نے پلیٹ دورکر دی اور برف میں کھیلنے چلا گیا۔ اس نے غصے میں اپنا مفلر بھی نہیں لپیٹا تھا۔ امی جان تیز تیز چلتی ہوئی اس کےپیچھے آئیں اور پیار سے بولیں۔
’’پنگو! میرے پیارے بیٹے! یہ مفلر لپیٹ لو۔ تمھیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔ جلدی اندر آجانا۔ ہم بہت ساری باتیں کریں گے۔‘‘
پنگو تھوڑی دیر بعد ہی گھر آگیا۔اسے گونی پر بہت غصہ آرہا تھا۔ جیسے ہی امی کچن میں گئیں وہ گونی کے پنگوڑے کے پاس پہنچ گیا۔


 گونی گہری نیند سو رہی تھی۔ پنگو نے پہلے اس کا تکیہ کھینچا اور پھر اس کا کمبل نیچے گرادیا۔ گونی اٹھ گئی اور رونے لگی تو امی بھاگی چلی آئیں۔
’’ارے ابھی تو سلایا تھا۔ پنگو! کیا آپ نے گونی کو جگایا ہے؟‘‘ امی نے پنگوڑے کے ساتھ کھڑے پنگو سے پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ابھی تک گونی کو گھور رہا تھا۔ گونی کو دوبارہ سلانے میں امی کو کافی دیر لگ گئی۔ اس دن پنگو اپنا پسندیدہ مچھلی کا سوپ بھی نہ پی سکا۔
ایک دن اس نے سوچا۔ گونی کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ آگے بڑھا اور گونی کو اٹھانا چاہا لیکن وہ بہت وزنی تھی۔ آخر پنگو نےاس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیں۔ گونی نے گھبرا کر رونا شروع کیا تو امی نے آکر فوراً اسے گو د میں لے لیا۔ پھر انہوں نے پنگو کو غور سے دیکھا اور کچھ سوچنے لگیں۔
رات کا کھانا بنا کر امی کمرے میں آئیں تو پنگو انگیٹھی کے پاس بیٹھا تھا۔  امی نے پنگو کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہنے لگیں۔
’’پیارے پنگو!  تمھاری بہن گونی ابھی بہت چھوٹی ہے۔ اسے میری ضرورت ہے۔وہ  جلد ہی بڑی ہو جائے گی۔ پھر تمھارے ساتھ  خوب کھیلا کرے گی۔کیا تمھیں معلوم ہے تم بھی پہلے پہلے گونی کی طرح تھے۔ ‘‘
یہ سن کر پنگو حیران ہو گیا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو ا اور بولا۔
’’کیا واقعی! امی جان! میں بھی پہلے بہت چھوٹا تھا اور فیڈرمیں دودھ پیتا تھا؟‘‘
’’جی ہاں ! ‘‘ امی نے جھک کر پنگو کو پیار کیا کہنے لگیں۔
’’ہر بچہ پہلے ننھا منا سا ہوتا ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اور ہاں! اگر آپ گونی کو پیار کریں گے تو وہ بڑے ہو کر آپ کو پیار ے بھائی جان کہہ کر بلائے گی۔کتنا اچھا لگے گاناں!‘‘ امی نے کہا تو پنگو کچھ سوچنے لگا۔
اس دن کے بعدپنگو نے بہت غور سے گونی کو دیکھنا شروع کیا۔ وہ پنگوڑے میں سورہی تھی۔ اس کے دونوں پر بہت چھوٹے اور نرم تھے۔
’’امی! امی! آ پ کہہ رہی تھیں کہ گونی میرے ساتھ کھیلے گی۔ لیکن یہ تو چل بھی نہیں سکتی۔اور یہ دیکھیں میں کتنی اونچی چھلانگ لگالیتا ہوں۔‘‘ پنگو نے یہ کہہ کر چھلانگ لگائی تو امی ہنس پڑیں۔
’’بہت جلدگونی بھاگے دوڑے گی اور آپ کے ساتھ خوب کھیلے گی ۔ اممم! اگلی سردیوں میں آپ گونی کے ساتھ برف پر پھسل سکیں گے۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے!‘‘ پنگو نے خوشی سے کہا۔
اور پنگو کو کچھ مہینے انتظار تو کرنا پڑا لیکن اگلی سردیاں آہی گئیں۔  اب وہ گونی کے ساتھ خوب کھیلتا ہے۔
کیا آپ کی بہنا  بھی آپ کو پیارے بھائی جان کہہ کر بلاتی ہے؟ اگر ہاں تو آپ اسے میری طرف سے خوب پیار کریں۔ (شائع شدہ: روزنامہ ایکسپریس، 21 دسمبر- 2019)