میرے سوہنے موہنے بچو! ایک جنگل
میں بہت بڑے تالاب کے کنارے دو تیتر رہا کرتے تھے۔ ان کے کوئی نام تو نہ تھے لیکن
سب جانور انہیں چھوٹا تیتر اور بڑا تیتر کہتے تھے۔ جب گرمیاں آتیں تو تیتر
تالاب کے پانی میں مزے سے نہاتے۔ چھوٹا تیتر نہاتے وقت پروں سے چھینٹے اڑاتا تو
بڑا تیتر اسے منع کرتا۔
’’نہیں! ایسے نہیں کرتے۔ اچھے تیتر پانی ضائع
نہیں کرتے۔ پانی کی پری پانی لے جائے گی اور تالاب سوکھ جائےگا۔‘‘
چھوٹے تیتر کو کبھی یہ بات
سمجھ نہ آتی۔ وہ کہتا۔ ’’مجھے تو چھینٹے اڑانے میں مزہ آتا ہے۔ میں تو
ایسے ہی نہاؤں گا۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ اور زور زور سے چھینٹے اڑاتا۔ یہ چھینٹے کبھی
پاس ہی بیٹھے مینڈک پر پڑتے اور کبھی ساتھ والے ٹیلے پر چیونٹیوں کے گھر میں ۔
ایک دن مینڈک نے بڑے تیتر سے
شکایت کر دی۔
’’بھائی جان! چھوٹے تیتر کو
سمجھائیں ناں۔ میں نے کل ہی کپڑے دھو کر سکھانے کے لیے لٹکائے تھے۔ چھوٹے تیتر نے
اتنا پانی اچھالا کہ میرے سارے کپڑے پھر سے بھیگ گئے۔‘‘
چیونٹی بھی ناراض تھی۔
’’ چھوٹے تیتر کو کہیں کہ
آرام سے نہایا کرے۔ وہ تالاب کے بیچ میں زور زور سے پروں کو ہلاتا ہے اور
ہمارے گھر کی چھت پر پانی پڑتا ہے۔اسی لیے میرے بیٹے کو کل شام سے بخار ہے ۔ اس کو
ٹھنڈ لگ گئی ہے۔‘‘
بڑے تیتر نے اس رات پھر چھوٹے
تیتر کو سمجھایا۔
’’پانی ضائع نہیں کرتے۔ ورنہ پانی
کی پری پانی لے جائے گی اور تالاب سوکھ جائےگا۔ ‘‘
چھوٹا تیتر کھانا کھانا کر سو
گیا۔ اس نے بڑے بھائی کی ڈانٹ کا کوئی اثر نہ لیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کل ہی جا کر
مینڈک اور چیونٹی کے اوپر پھر پانی گراؤں گا۔ آہا! کتنا مزہ آئے گا۔
صبح بڑا تیتر ابھی سو رہا تھا کہ
چھوٹا تیتر اٹھ گیا اور تالاب کی طرف چل پڑا ۔ لیکن یہ کیا! ارے تالاب تو سوکھ رہا
ہے!!! ارے رکو ! پانی کی پری رک جاؤ۔وہ چلایا لیکن پانی کی پری نے چھوٹے
تیتر کی کوئی بات نہ سنی اور سار ے تالاب کا پانی اپنے ساتھ لائی ہوئی بڑی سی بوتل
میں ڈال لیا۔
’’اب تمھیں پانی نہیں ملے گا۔ تم
اچھے تیتر نہیں ہو۔ تم پانی ضائع کرتے ہو اور دوسروں کو تنگ کرتے ہو۔ ‘‘ یہ
کہ کر پانی کی پری نے بوتل اٹھائی اور آسمان کی طرف اڑ گئی۔
چھوٹے تیتر نے دیکھا تالاب سا رے
کا سارا سوکھ چکا تھا۔ نیچے والی مٹی نظر آرہی تھی۔ اوہ! مجھے تو پیاس لگ رہی ہے۔
میں پانی کیسے پیوں گا۔ پانی کی پری ! واپس آجاؤ۔ اب میں پانی ضائع نہیں کروں
گا۔ تالاب میں پانی ڈال دو۔ مجھے پیاس لگی ہے۔ مجھے گرمی لگ رہی ہے اور مجھے نہانا
ہے۔ ہاں اب میں مینڈک کے اوپر پانی نہیں پھینکوں گا اور چیونٹی کا گھر بھی گیلا
نہیں کروں گا۔
’’چھوٹے بھائی! کیا بول رہے ہو۔
اٹھ جاؤ جلدی سے۔ آج بہت گرمی ہے۔ چلو نہانے چلیں۔‘‘ بڑے تیتر نے چھوٹے تیتر کو
اٹھایا تو وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔
’’اوہ! شکر ہے بھائی! یہ خواب
تھا۔ ‘‘
اس نے اپنے پر سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’بڑے بھائی! اب میں پانی ضائع
نہیں کروں گا۔ ورنہ پانی کی پری سارا پانی لے جائے گی۔ آپ ٹھہریں۔ پہلے میں
مینڈک اور چیونٹی کے گھر جاؤں گا۔ مجھے ان سے سوری کرنا ہے۔ وہ مجھ سے
ناراض ہیں۔‘‘ یہ کہ کر چھوٹا تیتر گھر سے نکل گیا۔